لوجہاد کے نام پر فرقہ پرستی 

نازش ہما قاسمی

یہ ہمارے ملک ہندوستان ہی میں ممکن ہے کہ یہاں مسلم خواتین کی نام نہاد ہمدردی کے لیے وزیر اعظم تک میدان میں کود پڑتے ہیں لیکن وہیں ایک نومسلم دوشیزہ جو دل و زبان سے ایمان قبول کرچکی ہے اسے بہکانے پھسلانے اور ڈرانے کے لیے پوری ہندوتنظیمیں اور مشنریاں متحد ہوکر اسے اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ان فرقہ پرست تنظیموں کے نزدیک مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین، ظہیر خان شاہ رخ خان کی شادیاں داستان محبت (لو میریج) قرار دی جاتی ہیں لیکن وہیں دوسری طرف اسلام کی حقانیت اور اس کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر کوئی اکھیلا نامی بچی مذہب اسلام قبول کرکے ہادیہ بنتی ہے تو اسے لو جہاد قرار دیا جاتا ہے۔ ۔۔اس کے شوہر پریشان کیا جاتا ہے۔ ۔۔حکومت جانچ کے لیے کمیشن تشکیل دے دیتی ہے۔ ۔۔ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو الرٹ کردیا جاتا ہے۔

این آئی اے کو رپورٹ پیش کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔سلام اس مجاہدہ صفت بچی ہادیہ کو، خدا اسے استقامت دے اور دین پر قائم رکھے۔ اس نے اپنے ماں باپ، فرقہ پرست بھگوا اور یوگا تنظیمیوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود بھی سپریم کورٹ میں ببانگ دہل اور علی الاعلان اسلام کی حقانیت کا اظہار کیا بھگوا طاقتوں کا اتحاد اس کے حوصلے کو توڑ نہیں سکا۔ وہ سینہ سپر ہوگئ حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا، جذبات و احساسات کے تلاطم خیز طوفان کے باوجود ہادیہ ثابت قدم ہے۔ اللہ اسے مزید استقامت عطا فرمائے۔۔۔سلام ہے۔۔کہ اس نے سرکاری امداد کو ٹھکراتے ہوئے اپنے شوہر کے خرچ پر اپنی تعلیم مکمل کرنے کو پسند کیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوری ملک میں جہاں ہر کسی کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا حق ہے اور اپنے مذہب پر مکمل عمل کرنے کی آئینی و دستوری آزادی حاصل ہے وہاں اگر ایک بالغ بچی اسلام قبول کرتی ہے تو اس کے والدین، ریاستی حکومت، اور بھگوا تنظیمیں کیوں اس کے پیچھے پڑ جاتی ہیں ؟‘ کیوں اسے اپنے پسندیدہ مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ؟ کیوں اس کے شوہر سے اسے ملنے نہیں دیا جاتا ؟ کیوں اسے گھر میں محبوس کردیا جاتا ہے۔۔۔ ؟ کیا یہ جمہوریت کے منافی عمل نہیں ہے ؟ وہ تو بھلا ہو عدلیہ کا جہاں سے اب بھی سیکولر ازم پسند عوام کی امیدیں وابستہ ہیں ۔ ۔۔اسی کی طرف نگاہِ انصاف ٹکی رہتی ہے اور وہاں سے انہیں خاطر خواہ انصاف بھی مل جاتا ہے۔۔۔خیر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں گئیں حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں جو حقوق کی بازیابی کے لیے، عورت اور مرد کی مساوات کے لیے آواز یں بلند کرتی ہیں ۔ ۔۔؟ یہاں ایک بچی کو اس کے شوہر سے، اس کے پسندیدہ دین سے جبراً دور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ وہ کیوں خاموش ہیں ؟ کیا یہ رویہ ان کے کام ان کی سوچ ان کے طرز عمل کے لیے نقصاندہ نہیں ہے ؟ کیا ان کا خاموش رہنا کسی کو انصاف سے دور نہیں کرسکتا ؟ کیا صرف طلاق ثلاثہ ہی انہیں مسلم خواتین پر ظلم لگتا ہے۔ واقعی یکبارگی طلاق ثلاثہ قبیح فعل ہے لیکن جائز ہے۔ ان نام نہاد مسلم خواتین کے اس طرح واویلا کرنے سے شرعی احکامات میں مداخلت کی راہیں ہموار ہوئی ہیں ۔ اگر ہندو شدت پسند حکومت تمام طلاق کو کالعدم قرار دے تو ہندوستانی مسلمان زنا میں ملوث ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ ۔۔اگر نام نہاد خواتین کی علمبردار بکی ہوئی چند ٹکے کی یہ خواتین طلاق کی اہمیت سمجھتیں ۔۔۔اس کے پیچھے اسلام کی خلاف ہورہی سازش سے واقف ہوتیں تو شاید آج یہ نوبت نہیں آتی۔۔۔!

خیر بات چل رہی تھی ہادیہ کی آخر اس پر اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟ ان فرقہ پرستوں کو بی جے پی کے شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی کی شادی لوجہاد نہیں نظر آتی، عین محبت نظر آتی ہے لیکن جب ایک عام لڑکی ہندوستانی آئین پر عمل کرتی ہے تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا ہے۔ ان کے خلاف سپریم کورٹ جاتے ہیں ۔ ان کے والدین کو ورغلا کر اس بے چاری کو گھروں میں مقید کردیتے ہیں کیا یہ انصاف ہے؟ ہم شکر گزار ہیں شفین کے وکیلوں کے، ان لوگوں نے شفین کا بھر پور ساتھ دیا اور آئین ہند کی پاسداری کرتے ہوئے کیرالہ ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی اور سپریم کورٹ نے جمہوریت کا جنازہ اُٹھنے سے بچا لیا اور اس نے ہادیہ کو راحت دی۔

ایک طرف جہاں اس معاملے کو لوجہاد سے جوڑ کر ملک کا ماحول پراگندہ کیا جارہا ہے وہیں آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم کا مفسدانہ اعلان نظروں سے گزرا جس سے روح کانپ اُٹھی ان کا اعلان کہ ہم چھ ماہ کے اندر 2100مسلم لڑکیوں کو مبینہ ہندو بہوئیں بنائیں گے۔اخباروں میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم ہندوجاگرن منچ اترپردیش کے صدر اجو چوہان نے ایک اخبار سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’لوجہاد‘‘ کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت اب آچکا ہے اب انہیں انہی کے انداز میں جواب دیا جائے گا۔ ہم اترپردیش کے تمام اضلاع میں تنظیم کے لیے ہدف طے کریں گے صوبے بھر میں ایک ماہ کے اندر کم از کم 2100مسلم لڑکیوں کو بہو بناکر ہندو گھروں میں لایا جائے گا۔ یہ ہدف کوئی زیادہ بڑا نہیں ہے لہذا ہم اسے آسانی سے عبور کرلیں گے کیوں کہ ہم سے مربوط تقریباً 150ہندو لڑکے ہیں جن کی دوستیاں مسلم لڑکیوں سے ہے اور وہ لڑکیاں ان سے شادی بھی کرنا چاہتی ہیں لیکن خوف کی وجہ سے ایسا کرنا ان کے لیے دشوار ہے ایسے حالات میں ہم پہلے ان کی شادی کرائیں گے اور انہیں پوری سیکوریٹی مہیا کریں گے۔ ان کے مطابق ہم لوگوں کے گھر گھر جاکر یہ اپیل کریں گے کہ مسلم لڑکیوں کو بہو بنا کر لائیں ، جو ہندو مسلم لڑکی کو بہو بنائے گا وہ اپنے دھرم کے لیے بڑا کام کرے گا۔ ہمیں ان کے اس شرپسندانہ اعلان سے گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی بیٹیوں کو قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے انہیں جہاں ہم تعلیم دے رہے ہیں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ان بچیوں کو اسلام کی حقانیت سے واقف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ ان مفسدین کے فاسد عزائم پورے نہ ہوں ۔

آج ہماری بچیاں اسکول وکالج میں مخلوط تعلیم حاصل کرکے دین سے دور ہورہی ہیں ۔ ہم عصری تعلیم کے مخالف نہیں !لیکن ان کی تعلیم کے ساتھ ہم تربیت پر بھی دھیان دیں ۔ ان کا رشتہ دین سے جوڑے رکھیں ۔ اگر ہم نے اپنی بچیوں کی تربیت پر دھیان نہیں دیا تو ممکن ہے کہ ہماری بچیاں اپنی آئندہ نسلیں غیر مسلم پیدا کریں ۔ آج ہر جانب سے اسلام کے خلاف سازش ہورہی ہے ہماری نااہلی اور دین سے دوری ان کی سازشوں کو کامیاب کرنے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔ ہمیں دین سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا، قرآن سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا اور قرآن کے آفاقی پیغام کو برادران وطن تک پہنچانا ہوگا کیوں کہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی بھیجا گیا ہے۔اگر کائنات میں بسنے والے افراد کو یہ فلسفہ سمجھا دیا گیا، تو کفر اپنی موت مرجائے گا، انسانیت و ہمدردی فتحیاب ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔