گئو رکھشکوں پر مودی کی خطابت کا اثر

عبدالعزیز    

        سنگھ پریوار کیلئے ووٹ حاصل کرنے کیلئے مدعے (Issues) بدلتے رہتے ہیں لیکن کچھ مدعے یا اِیشوز ان کیلئے دائمی ہیں۔ جب چاہتے ہیں ان کو ابھار دیتے ہیں۔ ان میں سے گئو رکھشک (تحفظ گائے) ایک ہے۔ یہ مدعا یا مسئلہ اسی وقت ختم ہوجاتا جب اسے دستور کے رہنما اصول میں شامل کیا جارہا تھا۔ اگر اس کی مخالفت زوروں پر ہوئی ہوتی اور دستور کے رہنما اصول (Directive Principle) میں شامل نہ کیا جاتا تو اس کا زور ٹوٹ جاتامگر دستور میں اس کی شمولیت کہ ہر ریاست کو ذبیحہ گائے پر پابندی کرنے کااختیار ہوگا۔ موقع و مصلحت دیکھ کر ہر ریاستی حکومت گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس سے گائے کے پجاریوں اور محافظوں کو بہت بڑی طاقت اور قوت مل گئی۔ کانگریس کے اندر کی وہ لابی جو برہمن لابی کہلاتی ہے پہلے تو آزادی کے فور۱ً بعد دستور میں گائے کے تحفظ ذبیحہ پر پابندی کی شق شامل کرکے کامیابی حاصل کرلی اور پھر کانگریس حکومت ہی نے کئی ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کردی۔ اس طرح گئو رکھشکوں کو زندگی مل گئی۔ آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کیلئے تو گئو ماتا کا تحفظ کرنا ان کا دھرم اور ایمان ہے مگر دھرم اور ایمان سے بڑھ کر ووٹوں کو حاصل کرکے اقتدار کی کرسی پر پہنچنا ان کا اصل دھرم اور ایمان ہے۔

        مودی حکومت کے آنے کے بعد گئو رکھشکوں میں جوش و جذبہ مزید بڑھ گیا۔ پہلے مہاراشٹر اور پھر ہریانہ میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی کردی گئی۔ گائے کے کاروبار میں لاکھوں افراد تھے، بیک وقت سب پر اس کا اثر پڑا۔ خاص طور سے دلتوں اور مسلمانوں پر تو بہت زیادہ اثر ہوا۔ پہلے مسلمان زد میں آئے۔ ان کو کئی جگہ گائے کے گوشت کے شبہ میں نہ صرف مارا پیٹا گیا بلکہ قتل بھی کردیا گیااور اسے سنگھ پریوار کے وزراء اور ایم پی اور ایم ایل اے نے حق بجانب ٹھہرایا۔ مسلمانوں نے صبر و ضبط سے کام لیا اور کام لے رہے ہیں۔ عدم تحمل کے خلاف جب احتجاج ہوا جب بھی گئو رکھشکوں نے اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔

        مسلمانوں کے بعد گائے کے محافظوں نے دلتوں کی طرف رخ کیا۔ کئی جگہ ان پر مظالم ڈھائے گئے مگر گجرات کے اونا میں جب چار دلت نوجوانوں پر ناقابل برداشت مظالم ڈھائے گئے تو میڈیا نے اس کا کافی پرچار کیا جس کی وجہ سے دلت سماج ملک بھر میں متحد ہوگیا اور زبردست احتجاج کرنے لگا۔ سنگھ پریوار کے گرگوں کو اندازہ ہوگیا کہ دلتوں کی ناراضگی ان کیلئے مہنگی پڑسکتی ہے۔ کئی دنوں بعد بلکہ کئی ہفتوں کے بعد نریندر مودی کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہوا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں ایک بات تو یہ کہی کہ جو لوگ گئو رکھشک کی دکان کھولے ہوئے ہیں ان میں 70/80% لوگ سماج دشمن ہیں۔ اور دوسری بات انھوں نے اپنی لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’دلت بھائیوں کو گولی مت مارو، مجھے گولی ماردو‘‘۔ یہ کسی ملک کے وزیر اعظم کیلئے فروتر بات تھی مگر وہ ایسے وزیر اعظم ہیں کہ انھیں زور خطابت غلط راستے پر آسانی سے ڈال دیتا ہے۔ ایک ایسا آدمی جسے قانون کی حکمرانی کی رکھوالی کیلئے منتخب کیا گیا ہو وہ قانون کی حفاظت کرنے کے بجائے غیر ضروری بات کررہا ہو توآج ملک کا کیا ہوگا۔ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ قانون کی گرفت میں ایسے گئو رکھشک بدمعاشوں کو لینا چاہئے اور کڑی سے کڑی سزا دینی چاہئے۔

        ان کی خطابت کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف گئو رکھشکوں نے ان کو لعن طعن کرنا شروع کیا بلکہ آر ایس ایس کے سرپرستوں نے ان کی نکیل کسی جس کی وجہ سے پھر انھیں دو باتیں کہنی پڑیں۔ پہلی بات تو یہ کہی کہ کچھ ہی گئو رکھشک غلط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے موقف سے منحرف ہوگئے اور آر ایس ایس کی کمان میں چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ دوسری بات آر ایس ایس کو خوش کرنے کیلئے کہی کہ کچھ گئو رکھشک اچھے ہیں اور کچھ برے ہیں۔ مودی کے نرم رویہ کے باوجود وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل والے نرم نہیں پڑے۔ مودی کو ہندو مخالف کہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور اب گائے کے تحفظ کیلئے بڑے سمیلن (اجتماع) کی تیاری شروع کردی ہے۔ 1966ء میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی حکومت کو بھی گائے کے رکھوالوں نے چیلنج کرنا شروع کیا تھا۔ محترمہ اندرا گاندھی نے ٹکراؤ کی پالیسی کے بجائے نظر انداز کردیا تھا جس کی وجہ سے گئو رکھشکوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ زیادہ امکان ہے کہ وہ چپی سادھے رہیں گے کیونکہ 2017ء میں اترپردیش کا الیکشن ہے۔ اس میں اب رام مندر کا مسئلہ ایشو نہیں بن پا رہا ہے۔ اس لئے گائے کے مسئلہ کو ہی گرمانے کی کوشش ہوگی۔ گائے نام کے پر Plurization یعنی ہندو مسلم کی تقسیم کی کوشش کریں گے۔

         فرقہ پرستوں کیلئے گائے پرستی کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی مرغوب ہے مگر دلتوں کے اٹھ کھڑے ہونے سے فرقہ پرستوں کی ہزیمت ہورہی ہے کیونکہ مری گائے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دلتوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی ماتاؤں کو مردار بننے پر چھوئیں گے بھی نہیں۔ فرقہ پرست بھی جب ماتا زندہ رہتی ہے تو اس کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے گوبر اور پیشاب کو پوتر (پاک) سمجھتے ہیں اور اس کا استعمال کرتے ہیں مگر مرنے پر وہ بھی اسے چھونا یا دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ مسئلہ فرقہ پرستوں کیلئے درد سر بن گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب گائے بیکار ہوجاتی ہے۔ بچے اور دودھ نہیں دیتی ہے تو اسے بھی گائے کے پجاری چھوڑ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد اب گائے کی خرید و فروخت میں حصہ نہیں لے رہی ہے، اس وجہ سے بھی گائیں بڑی تعداد میں مر رہی ہیں۔ ہریانہ میں حکومت کی لاپرواہی اور چارہ نہ دینے سے گائیں مر اور سڑ رہی ہیں۔ مودی حکومت ان حقائق سے باخبر ہے۔ اس لئے بھی مودی حکومت کی نیند حرام ہوتی جارہی ہے۔

        اگر مرکزی حکومت یا سنگھ پریوار والے گائے سے متعلق پالیسی نہیں بدلتے تو گائیں تو بے موت مریں گی ہی، ملک کے لاکھوں افراد جو بے روزگار ہوگئے ہیں۔ تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ملک کی معیشت پر اس کا برا اثر پڑے گا اور حالات بد سے بدتر ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔