قومی کونسل اورپروفیسرارتضیٰ کریم اردوکی ترقی کیلئے کو شا ں!

میم ضاد فاضلی

قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے موجودہ ڈائریکٹرپروفیسرارتضیٰ کریم کے تعلق سے یہ بات ان کے ایک ہم عصردرسی ساتھی قاسم خورشید نے کہی ہے کہ’ لمبے عرصے کے بعد یہ ایک بہت ہی خوبصورت اتفاق ہے کہ جس حکومت کوعموما ً لوگ اردو مخالف تصور کرتے ہیں اس نے اب تک کی تاریخ میں انتہائی فعال اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی و معروف نقاد پروفیسر ارتضیٰ کریم کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کا ڈائریکٹر بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ حوصلہ، نیت، اور ویژن ہوتو کسی بہتر شخص کا انتخاب کسی ذمہ دار عہدے پر بآسانی کیا جاسکتاہے۔ میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی ارتضیٰ کریم کی جد وجہد سے بخوبی واقف رہاہوں۔ اس لئے مجھے یہ کہنے میں قطعی تأمل نہیں ہے کہ ارتضیٰ کریم کسی ایسی ذمہ داری کو نبھانے کے اہل ہیں جن پر زبان یا قوم کا انحصار بھی ہوا کرتاہے۔ میں نے انہیں بتدریج ارتقائی منازل سے گذرتے ہوئے دیکھاہے۔ ‘حالاں کہ ہم عصروں میں ایک دوسرے کی تحقیرو تذلیل انسانی دنیا کی عام روایت ہے۔ لہذا اگرکوئی شخص اپنے کسی ہم عصر کی علمی و تحریکی قابلیت کا اعتراف و اظہار کرتا ہے تو اسے اس کیلئے ایک بڑی سند کی شکل میں دیکھا جانا چاہئے۔ اگر اس تفصیل کی روشنی میں ہم قومی کونسل کو دیکھیں تو اسے اس اہم اور باوقار ادارہ کی خوش بختی سے ہی تعبیر کریں گے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم کی اہلیت و قابلیت کیلئے اس کے سوااور کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ اردو کے فروغ و اشاعت کے حوالے سے قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کی خدمات ہندوستان کے اہل اردو کیلئے ایک سرمایہ ٔ  افتخار ہیں۔

کسی بھی ادارہ، تنظیم یا فردکے اچھے کاموں کو بے بنیاد تنقید کے کیل کانٹوں سے لہو لہان کرنے کی فطر ت اگرچہ ہمیں اس کا اعتراف کرنے کی اجازت نہ دے۔ مگر اس تقابلی دور میں اگر غیر جانبداری اور دیانت کے ساتھ اردو زبان وادب کی ترویج و ترقی کے لئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی خدمات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ انحطاط اورفرائض سے جی چرانے کے موجودہ ماحول میں زبان وادب کی جو خدمت کونسل کے ذریعہ انجام دی جارہی ہے، وہ قابل ستائش ہی نہیں، ہمارے لئے مقام عبرت بھی ہے۔ ورنہ با لعموم یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جن احباب کو زبان وادب کی ترویج و اشاعت کیلئے حکومتیں موٹی موٹی تنخواہیں دیکر تعلیم گاہوں میں اساتذہ کے عالی منصب پر فائز کرتی ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہی نہیں بھاگتے، بلکہ خود فریبی کے اسیر ہو کر طلباء کے مستقبل کو سنوا رنے اور سجانے کی کوئی للک ان کے اندربرقرار نہیں رہ جاتی۔ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ اردو زبان کے زوال کا سب سے بڑا سبب اس کی ترویج و ترقی کے اہم مناصب پر مامور اساتذہ، سرکاری ادارے، خاص طور پر سرکاروں کے زیر اہتمام چلنے والی اردو اکادمیاں ہیں۔ اس اجمال کے تناظر میں اگرزبان وادب کی خدمات کیلئے ہم قومی کونسل کی کارکردگی کو دیکھیں تو یہ کہنے میں کو ئی خوف نہیں کہ ’اس قسم کے ا دارہ کے رہتے اردو زبان کے انحطاط کی بات بے معنی ہے۔ اس کا اعتراف خود حکومت نے کیا ہے چنانچہ6اگست 2016کو راجیہ سبھامیں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر نے قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کی کارکردگی، فروغ اردو کے لیے اس کے منصوبے، اقدامات اور لائحہ عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وسیع تر پیمانے اور مختلف سطحوں پر قومی اردو کونسل اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے بہتر خدمات انجام دے رہی ہے۔ مرکزی وزیر نے راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران اردو زبان کے فروغ اور نشر و اشاعت کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی اردو کونسل نے 1250 کتا بیں شائع کی ہیں اور یہاں سے 2 ماہنامہ رسالے ’اردو دنیا‘ اور ’بچوں کی دنیا‘شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سہ ماہی رسالہ ’فکر و تحقیق‘ بھی شائع ہوتا ہے۔ پرکاش جاوڈیکر نے ’ڈپلوما اِن کمپیوٹر اپیلی کیشن بزنس اکاؤنٹنگ اینڈ ملٹی لنگول ڈی ٹی پی‘ (Diploma in Computer Applications Business Accounting and Multilingual DTP) کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل کا یہ پروگرام سیدھے روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ انسٹھ ہزار طالب علموں کو ڈپلوما کورس کی ڈگری دی گئی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ لاکھ طالب علموں کو اس سے روزگار بھی ملا ہے۔ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کے وزیر نے کیلی گرافی اور گرافک ڈیزائن کورس کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تقریباً 2800 طلباء جڑے ہوئے ہیں اور اس سے ان لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ انھوں نے قومی اردو کونسل کی فاصلاتی تعلیم کے تحت اردو ڈپلوما کورس کے سلسلے میں کہا کہ اس میں تقریباً 73000 طالب علموں نے داخلہ لیا ہے۔ یہ سب کورس مکمل کررہے ہیں۔ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر نے قومی اردو کونسل کی مختلف اسکیموں اور منصوبوں کی بھرپور ستائش کی اور کو نسل کے حسن کارکردگی پر اپنی مہر ثبت کردی۔ انھوں نے فروغ اردو کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی صبح ہے۔ ہم کچھ اور نئی شروعات کرنے جارہے ہیں جس سے اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں کا فروغ ہوگا۔ پروفیسرارتضیٰ کریم نے قومی کونسل برائے فروغ اردوز بان میں اردوکے دائرے کو وسیع تر  کرنے کیلئے جو انقلابی قدم اٹھائے ہیں اس سے نہ صرف اردوزبان وادب کی افادیت میں اضافہ ہو گا، بلکہ آنے والی نسلوں کو اردوزبان میں ہی جدید اطلاعاتی تکنالوجی کے علاوہ دیگر علوم و فنون کو اپنی زبان میں ہی پڑھنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع میسر ہوگا۔ آج جاپان، اسرائیل یا چین تعلیمی میدان میں اس لئے آ گے ہیں کہ ان ممالک نے تمام مروجہ فنون مثلاً علم طب(میڈیکل سائنس) علوم ہندسہ (انجینئرنگ ) علوم ریاضی (اکاؤنٹس) وغیرہ جیسے اہم فنون کی تعلیم اپنی زبان میں فراہم کرانے کا مکمل انتظام کیا ہوا ہے۔ ماہرین تعلیم کی رائے ہے کہ طلباء کو ان کی مادری زبان میں اگر کوئی فنی تعلیم دی جائے  تو اسے سمجھنے میں اور بھی زیادہ مدد اورآسانی ملتی ہے۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اس اہم ضرورت کی جانب خاص توجہ دی ہے اور اس کیلئے انہوں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعہ اہم طبی موضوعات اور طب سے متعلق نصابی کتابوں کو ترجیحی طور پر شائع کرنے کی ضرورت کا احساس کیا ہے، جس کی تائید ہونی چاہئے، اس لئے کہ طب جس کا آج مغرب بابائے آ دم بنا ہوا ہے، اس کی ابتدااسی طبقہ سے ہوئی ہے جو ابن سینا، ابن رشداوررازی جیسے معمار طب کو اپنا سرپرست و سربراہ اوراکابر تصور کرتا ہے، یعنی اردوحلقہ ہی انہیں اپنے اکابر کی فہرست میں نمایاں مقام دیتا ہے، لہذا قومی کونسل اردوزبان میں فنون کی تعلیم کیلئے اگر طب یونانی سے اس کا آغاز کرتی ہے تواسے اپنے اصل کی جانب لوٹنا ہی کہا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق قومی کونسل کے زیر اہتمام بیس (20) سے زائد مضامین پر طبی نصاب تیار کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے، جس میں مختلف باب کے لیے الگ الگ ماہرین کی مدد لی جا رہی ہے۔ آدھے سے زیادہ حصوں کو پورا کر لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تین کتابیں بھی بہت جلد منظر عام پر آجائیں گی۔ اس کے علاوہ ماہرین طب کے پاس ادبیات سے متعلق جو بھی کتابیں موجود ہیں، حوالہ جاتی کتب کی صورت میں کونسل انھیں شائع کرے گی، تاکہ طلبہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔ گزشتہ ماہ مئی میں یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کونسل کے صدر دفتر میں منعقدہ یونانی میڈیسن پینل کی میٹنگ میں کہیں تھیں۔ کونسل اپنی فعالیت کا ثبوت دیتے ہوئے بہت جلد اپنے اہداف کو پانے میں کامیاب ہو گی۔ یہ سارے اقدامات بتا رہے ہیں کہ پروفیسر ارتضی کریم نے اردوزبان کو قیمتی اورقابل توجہ بنانے کیلئے جو انقلابی قدم اٹھائے ہیں، آنے والی نسل قومی کونسل اورپروفیسر ارتضیٰ کریم کا یہ احسان ہمیشہ یاد ر کھے گی۔

تبصرے بند ہیں۔