اسلامیات میں تحقیق – کیوں اور کیسے؟

ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی

مقصد

        اسلامیات میں تحقیق کے سلسلے میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا مقصد متعین ہو اور نیت پاکیزہ اور خالص ہو۔ اس مو ضوع پر    غیر مسلموں نے بھی بہت کام کیا ہے، لیکن ان کے مقاصد مسلمانوں کے مقاصد سے مختلف رہے ہیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد مستشرقین کی کھیپ کی کھیپ تیار کی گئی، جنھوں نے قرآن کریم کے ترجمے کیے، سیرتِ نبوی پر کتابیں تیار کیں، اسلامی تاریخ پر علمی کام کیا، لیکن ان کا مقصد قرآنی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنا اور رسولﷺ کی شخصیت اور سیرت کو بگاڑ کراور بھیانک انداز میں لوگوں کے سامنے لانا تھا۔ یورپ کی یونی ورسٹیوں میں سترہویں صدی عیسوی ہی میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم ہو گئے تھے۔ ان کا مقصدمسلم ممالک کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخی احوال سے گہری اور تفصیلی واقفیت حاصل کرنا تھا، تاکہ ان پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی صورت میں ان معلومات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

        ہندوستان میں بھی عیسائی مشنریوں، آریہ سماجیوں اور ہندو شدت پسندوں کے قلم سے اسلام کے مختلف پہلوئوں پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیکن ان کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور اس میں خامیاں دکھانا  تھا۔

        مستشرقین اور دیگر محققین کے ذریعے اسلامیات پر ہونے والے کام کا ایک حصہ ایسا ہے جسے ہم تحقیق برائے تحقیق کا نمونہ کہہ سکتے ہیں۔ انھوں نے حدیث، سوانح اور تاریخ وغیرہ کے متعدد مخطوطات کو ایڈٹ کرکے شائع کیاہے۔ انہی کی کوششوں سے ہم ان سے استفادہ کے لائق ہو سکے ہیں۔ المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الشریف اجتماعی تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس کتاب کو  تیار کرنے میں ساٹھ(60) محققین نے ساٹھ (60) سال کا عرصہ لگایا ہے، تب جا کر یہ اشاریہ تیار ہواہے، جس کی مدد سے ہم صحاح ستہ، مسند احمد، موطا امام مالک اور سنن الدارمی میں وارد احادیث کو تلاش کر سکتے ہیں۔

        خلاصہ یہ کہ ہم اسلامیات میں تحقیق کا آغاز کرنے سے قبل اپنا مقصد متعین کریں اور تحقیق برائے تحقیق سے اوپر اٹھ کر اسلام کی ترجمانی کو اپنا مقصد بنا ئیں۔

موضوع کا انتخاب

        کسی تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اب اس معاملے میں بڑی تن آسانی کا مظاہرہ کیا جانے لگا ہے۔ تحقیق کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی مخطوطے کے چند نسخے حاصل کر لیے جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطہ کو ایڈٹ کر دیا جائے۔ کسی نسخے میں کون سا لفظ چھوٹ گیا ہے ؟کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے؟اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں کون سا نسخہ سب سے زیادہ معتبر ہے؟ان چیزوں کی وضاحت  کر دی جائے۔ عالمِ عرب میں اس طرز کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس طرح قدیم مصادرومراجع کے نئے محقَّق ایڈیشن منظر عام پر آئے ہیں۔ تحقیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حالاتِ زندگی بیان کر دیے جائیں اور اس کی علمی، دینی، سماجی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرادیا جائے۔ یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔

        تحقیق کی یہ دونوں صورتیں افادیت رکھتی ہیں۔ ان کا انکار اور ان کی افادیت سے صرف نظر کیے بغیر، میرے نزدیک موجودہ دور میں ایسے موضوعات پر کام کرنا وقت کا تقاضا ہے جن سے اسلام کے کسی پہلو کی وضاحت ہوتی ہو، اس کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہو، اور اس پر کیے گئے کسی اعتراض کا جواب دیا گیاہو۔

        موجودہ دور میں جب اسلام دشمن طاقتیں منصوبہ بند طریقے سے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے میں مصروف ہیں تو اسلام کے  علم برداروں کی جانب سے بھی ایسی ٹیم ہونی چاہیے جنھوں نے اسلام کے صحیح تعارف کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہو اور جو ان کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو۔

مواد کی فراہمی

        محقِّق کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع پر وہ کام کرنا چاہتا ہے، دیکھے کہ اس موضوع پر اب تک کتنا کام ہوا ہے؟طریقۂ تحقیق (Research Methodology)میں اسے (Literature Survey) کہا جاتا ہے۔ یہ تحقیق کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی رعایت بہت ضروری ہے۔   جو موضوع محقق کے ذہن میں ہے، اگر اس پر کام ہو چکاہے تو اس پر دوبارہ کام کرنا تحصیل ِحاصل اور وقت کا ضیاع ہے۔ مواد کی فراہمی سے محقق پر بحث و تحقیق کے مختلف پہلو واضح ہوتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں نے اس پر کس کس انداز سے کام کیا ہے؟اس طرح اس کے کام میں جدّت پیدا ہوتی ہے اور وہ قارئین کو اپیل کرنے والا اور مؤثّر ہوتا ہے۔

حوالوں کا اہتمام

        جدید طریقۂ تحقیق میں اس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے کہ جو بات کہی جائے، حوالوں کے ساتھ کہی جائے۔ کسی بات کا حوالہ دیا جائے تو اس کا پورا نام، مصنف کا نام، ناشر یا مطبع کا نام، سنِ اشاعت، کتاب کئی جلدوں میں ہو تو جلد نمبر اور صفحہ نمبر تحریر کیا جائے۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتابیں خواہ کسی موضوع سے متعلق ہوں، ان کا دائرہ سائنس کی کوئی شاخ (Branch)ہویا سماجی علوم(Social Sciences)یا ادب (Literature)ہو،  ان میں حوالوں کا اہتمام عرصہ سے جاری ہے، مگر اردو زبان میں اور خاص طور پر اسلامیات میں اس کی روایت پرانی نہیں ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری بیان کرتے ہیں کہ اسلامیات میں اس کا اہتمام علامہ شبلی نعمانی  ؒ(م1914ء) نے کیا، پھر دوسرے محققین اور اصحابِ علم اس کی پیروی کرنے لگے۔

اندازِ پیش کش

        اسلامیات میں لکھنے والوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اسلوبِ بیان اور اندازِ پیش کش پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں۔ ایک ہی بات اگر سپاٹ اور بے کیف انداز میں کہی جائے تو اس کا کچھ اثر ظاہر نہیں ہوتا، لیکن اگر وہی بات ادبی پیرایے میں پیش کی جائے تو وہ دل پر اثر کرتی ہے۔ ایک ہی موضوع پر ایک تحریر کو آدمی بدقّت تمام ایک بار پڑھ پاتاہے۔ اس لیے کہ اس میں کوئی دل چسپی، رعنائی اور ادبی چاشنی نہیں ہوتی اور اسی موضوع پر دوسری  تحریر کو وہ بار بار پڑھتا اور اس پر سر دھنتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس میں بہت زیادہ کشش اور تاثیر محسوس کرتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں سیرتِ نبوی پر اردو زبان میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن علامہ شبلیؒ کی سیرت النبی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اسلامی نظامِ معاشرت اور پردہ پر علماء کے قلم سے بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں، لیکن مولانا مودودیؒ(م1979ء) کی کتاب’ پردہ‘ سے زیادہ مؤثِّر کوئی کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔