گائے پر سوار ہیں ھندو راشٹر کے سینانی

 ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
گجرات کے اونا شہر میں پچھلے دنوں دلتوں پر ہوئے حملے نے گائے پر ایک نئی بحث کا آغاز کردیاہے، کچھ دلت نوجوانوں کی صرف اس لیے پٹائی کردی گئی کہ وہ ایک مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ ایک مری ہوئی گائے کی خاطر آستھا کے نام پر زندہ انسانوں کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک اس برادری کے دیگر لوگوں نے برداشت نہیں کیااور کہاجاتاہے کہ ان کے اہل خانہ میں سے تقریبا 7 لوگوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ پولس میں شکایت درج کرانے کے بعد بھی جب پولس کا رویہ جانب دارانہ دیکھا تو ریاست میں احتجاج اور مظاہروں ایک جھڑی لگ گئی۔گجرات کے دلتوں نے ایک نئے انداز سے احتجاج کا آغاز کیااوراسے احتجاج کو گجرات ماڈل کا نام دے دیاگیا۔ دلتوں نے مردہ گایوں کو بڑی تعداد میں اکٹھاکرکے بڑے سرکاری دفتروں اور افسروں کے سامنے پٹک دیااور نعرہ لگایا سنبھالوں اپنی ماؤں ک۔ یہ طریقہ کئی دن گجرات میں جاری رہا۔ یہ جہاں احتجاج کا ایک طریقہ ہے وہیں ایک پیغام بھی ہے کہ مرجانے کے بعد گایوں کے استعمال اور ان کے تدفین کے ذرائع کیا ہوں گے اور کیاان مردہ گایوں کے ساتھ بھی عبادت کی حد تک آستھاکا اتنا شدید مظاہرہ کیاجائے گا کہ اس حرمت کی خاطر زندہ انسانوں کو بے عزت، بے وقار اور زخمی کردیاجائے۔ ملک میں اس سوال پر بحث جاری ہے کہ گائے کی حرمت انسانی حرمت سے بڑی کیسے ہوسکتی ہے، گائے کو محترم ماننا ایک خاص طبقے کے لیے عقیدے کا مسئلہ ہوسکتاہے لیکن اپنی جان ومال اور عزت واحترام کا تحفظ دیگر طبقات کے لیے قانون کا مسئلہ بھی اور انسانی حرمت کامسئلہ بھی ہے۔ گئو رکشا سمیتی کے ارکان اپنے عقیدے کے مطابق اگر زندہ گایوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ اور پرورش کا انتظام کرتے ہیں تو کار خیر کے نام پر ان کے ان جذبات کا احترام ملک میں ہر ایک کو کرناچاہیے لیکن گائے کی بے حرمتی یا ذبیحے کی محض مفروضے کی بنیاد پر قانون ہاتھ میں لینا اور دنیاکی سب سے اہم مخلوق انسانی کو قتل کردینا خود گائے کے جذبات اور احساسات کے منافی بھی ہے، کیوںکہ گائے کو جانوروں میں سب سے زیادہ معصوم جانور ہونے کا درجہ حاصل ہے ،اسی لیے یہ محاورہ بھی مشہور ہے جو کسی انتہائی شریف آدمی کے لیے استعمال ہوتاہے کہ یہ شخص تو بالکل گائے کی مانند ہے۔ایسے میں گئو رکشا سمیتی کے ان متشدد کارکنان کو خود گائے کے احترام میں اپنے غیر قانونی حرکات پر شرمسار ہونا چاہیے۔
دادری میں اخلاق کے وحشیانہ قتل اور اب دلتوں کے ساتھ بدسلوکی ،دونوں میں گائے کا جذبہ احترام قدر مشترک ہے۔ 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی سرکار بننے کے بعد گائے کے اس تقدس کے اظہار میں نمایاں اضافہ ہواہے، حالانکہ گائے ہمیشہ سے اس ملک میں موجود ہے، گئو ماتا بھی کہلاتی رہی ہے، مادر مقدس بھی کہا گیاہے اور سناتن دھرمی ہندؤں نے ہمیشہ گائے کی پوجاکی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آمد کے بعد گائے کے ذبیحہ کو لے کر تنازعات اور تضادات کا دور بھی چلاہے۔ تبھی سے گائے پر بحث بھی ہوتی رہی ہے، لیکن ملک میں حکومت جس کی بھی رہی ہواس نے ہمیشہ ہی گائے کے اس تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے گئو کشی پر پابندی لگائے رکھی ہے۔ مغلوں کے پورے دور میں پورے ملک میں گئو کشی پر پابندی رہی، حتی کہ انتہائی سخت گیر مسلم حکمراں کے نام سے بدنام کیے گئے عادل اور خدا ترس مغل بادشاہ اورنگ زیب نے تو انتہائی سختی کے ساتھ گئو ذبیحہ پر پابندی جاری رکھی۔ انگریزوں کے زمانے میں بھی اس پابندی پر کوئی نرمی نہیں رکھی گئی، جس کے نتیجے میں عام طور پر ملک میں گئو کشی کا چلن نہیں رہا یا ان مقامات پر محدود رہاہے جہاں ہندؤوں کی آبادیاں بہت کم ہیں یا گائے پر ان کی آستھا مختلف قسم کی رہی ہے۔ مثلا بنگال سے لے کر تمام شمال مشرقی ریاستوں میں گئو کشی پر نہ کبھی پابندی لگائی گئی اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کیاگیا۔ اسی طرح جنوبی ہند کی ریاستوں میں بھی اس قسم کا کوئی شدید مطالبہ کبھی نہیں ہوا۔ البتہ ہندی بولے جانے والے علاقوں میں ہی گائے پر بحث شدید رہی ہے۔ آزاد ہندوستان میں جب قوانین کی تدوین ہوئی تو سب سے پہلے جموں وکشمیر کی ریاست میں گئو کشی پر پابندی لگائی گئی جہاں اکثریت میں مسلمان آباد ہیں۔ شمالی ہندوستان کے سناتن دھرمی ہندؤوں کے لیے یہ بات قابل عبرت اور سبق آموز ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق بناکسی مطالبے کے محض ہندؤوں کے جذبات کے احترام میں از خود گئو ذبیحہ پر پابندی لگاکے فرقہ وارانہ رواداری اور ہم آہنگی کے اظہار کی جراءت رکھتے ہیں اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر ے ملک کی بیشتر ریاستوں میں گئو کشی پرکسی نہ کسی انداز میں پابندی جاری رکھی گئی ہے۔ کہیں اس پر مکمل پابندی ہے کہیں سرکاری عمال کی اجازت اور لائسنس کے ذریعے گئو کشی کی اجازت ہے۔ کہیں گائے کاٹنا تو جرم ہے مگر گائے کا گوشت رکھنا یاکھانا جرم نہیں ہے۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں اس کی سزائیں بھی مختلف ہیں۔ اس وقت دہلی اور گجرات میں گئو کشی پر سب سے سخت سزائیں قانون میں موجود ہیں۔ بی جے پی کی موجودہ سرکار بننے کے پہلے تک ملک میں گئو کشی کسی تنازع کی صورت میں موجود نہیں رہی بلکہ وقتا فوقتا آرایس ایس اور بی جے پی کے حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ اٹھتارہاہے کہ پورے ملک میں گئو کشی کے خلاف یکساں قانون لایاجائے لیکن شمال مشرق اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس مطالبے کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ ویسے بھی یہ نظم ونسق کا مسئلہ ہے جو کلی طور پر ریاستی سرکاروں کا استحقاق ہے۔ ویسے بھی ملک کے قبائلی علاقوں میں گئو کشی کا چلن بقیہ علاقوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے اور یہ اکثر قبائل ہندومذہب پر ہی آستھا رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی موجودہ سرکار سے پہلے یہ مسئلہ جزوی طور پر وقفے وقفے سے تھوڑے عرصے کے لیے سامنے آیا اور پھر دب گیا لیکن مرکز میں موجودہ سرکار کے قیام کے بعد اس مسئلے نے شدت اختیار کرلی ہے، حالانکہ اس شدت کو مہمیز دینے کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی لیکن سخت گیر ہندوعناصر اس بہانے سے ملک کے ثقافتی ڈھانچے کو ایک خاص نہج پر لے جانے کے بہانے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شاید اس تحریک کے پیچھے یہ مقصد بھی کارفرما ہوکہ اس بہانے پورے ملک میں گئو کشی کے خلاف یکساں قانون لانے کے حالات ہموار کیے جاسکیںجو بظاہر قابل عمل نہیں لگتا۔ گائے پر اس سیاست کا دوسرا پہلوانتخابات کے موقع پر فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹوں کی تقسیم بھی ہوتاہے، یہ کہ اس نام پر ایک عام ہندوکے جذبات کو عقائد کی سطح پر بہانے کی کوشش کی جائے اور یہ باور کرایاجائے کہ ہندؤوں کے اس ملک میں ان کا کوئی عقیدہ محفوظ نہیں ہے، اس لیے ان لوگوں کو اقتدار میں لایاجائے جو ہندوعقائد واقدار کے تحفظ کو یقینی بناسکیں۔ ہندواحساس تفاخر بپا کرنے کے لیے پچھلے 3 سالوں میں جتنے حربے استعمال کیے گئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
لیکن حالیہ واقعے میں گائے کے نام پر دلتوں کے خلاف بپا کیے گئے تشدد میں محض ہندو احساس تفاخر بپاکرنے کا جذبہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس سے بھی زیادہ دلتوں کو کنارے کھڑا کرنے کی کوشش اور دلت قیادتوں کو درکنار کرنے کا جذبہ بھی دکھائی دیتاہے کیوں کہ جس طرح ایک جانب گجرات میں دلتوں کو حاشیے پر کھڑا کرکے محکوم قرار دینے کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح اور عین اسی وقت اترپردیش میں ملک کی سب سے بڑی دلت رہنما مایاوتی کو دی جانے والی گالی نے بھی دلتوں کے خلاف جاری مہم کی جانب واضح انگشت نمائی کی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں جہاں آرایس ایس اور اس کی نمائندہ سیاسی وسماجی تنظیمیں مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے محل اور بے وقعت ثابت کرچکی ہیں اور ان کی تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی حیثیت کو ملک کے فیصلہ ساز اداروں میں بے اثر کردیا گیاہے اور اس کی مکمل کامیابی کے جائزے لیے جاچکے ہیں، اس کے بعد ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت یعنی دلت اور پسماندہ طبقات کو بھی حاشیے پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کا پہلا نشانہ دلت قیادت ہے۔ دلتوں کی قیادت اگر توڑ دی گئی یا بے اثر کردی گئی یا مشکوک بنادی گئی تو پھر ملک کے تمام دلت طبقات کو بے وزن کردینا مسلمانوں کو بے وقعت کردینے سے بھی زیادہ آسان کام ہوگا۔ سیاسی طور پر مایاوتی اس قیادت کی دعویدار ہیں۔ اترپردیش میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی اقتدار حاصل کرنے کے لیے بہت کوشاں ہیں اور پرامید بھی ہیں، اگر اس مرتبہ مایاوتی کے سر پر اترپردیش کا تاج رکھ دیا گیاتو یہ دلت قیادت اور زیادہ مضبوط ہوکر ابھرے گی اور بی جے پی کے مستقبل کے امکانات کے لیے ایک خطرہ بن جائے گی۔ اس لیے آرایس ایس اور بی جے پی کے اعلیٰ اذہان اسی میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ اس انتخاب کے موقع پر مایاوتی کو شکست دے کر اس قیادت کی کمر توڑ دی جائے۔ ظاہر ہے کہ ملک میں مایاوتی کے قد کے برابر کوئی بھی دوسری دلت قیادت موجود نہیں ہے جو دلتوں کے لیے نقطہ ارتکاز بن سکے۔ چنانچہ اس قیادت کے ٹوٹتے ہی پوری دلت تحریک تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی، اس کے بعد ملک کی حکومت ساز قیادت محض اعلیٰ ذات ہندؤوں کے ہاتھوں میں محدود رہ جائے گی۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت جو قیادت کی دعویدار ہوسکتی ہے، اس کی بے وقعتی اور اس کے بعد ملک کی دوسرے بڑے طاقت ور طبقے یعنی دلتوں کو کنارے لگانے کے بعد یہ تمام طبقات بھیڑ بکریوں کی طرح ایک عوامی ہجوم کی طرح ملک میں موجود ر توہیں گے لیکن قائدانہ رول اداکرنے کی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے اور ایک لمبے عرصے تک ملک کی تمام تر سیاسی جماعتیں محض اعلیٰ ذات ہندؤوں کے زیرنگیں رہ کر زمام قیادت انھیں ہاتھوں کے لیے مخصوص کردیں گی جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہواکرتاتھا۔ ملک کو قدیم ثقافت کی طرف لے جانے کی خواہش رکھنے والی آرایس ایس ان اہداف کو اگلے عام انتخابات سے پہلے حاصل کرلینے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں عوامی سطح پر اس قسم کی گائے اور بابری مسجد، لوجہاد، ریزرویشن جیسے حساس معاملات پر بحث کو ہوادی جارہی ہے وہیں سرکاری سطح پر تعلیمی پالیسی میں حسب دلخواہ تبدیلی کرنے کے لیے اپنے مزاج کے وزراء اور افسران کی تعیناتی کی جارہی ہے، نئی تعلیمی پالیسی وضع کرکے نصاب تعلیم میں اسی قدیم ثقافت سے ہم آہنگ تبدیلیاں پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہیں، تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔ تمدن وثقافت کے نام پر یوگاجیسی چیزوں کو پڑھایا جارہا ہے اور سناتن ہندودھرم کو بیوروکریسی حتی کہ فوج تک سرایت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بہت کم وقت میں حکومت ہند اور ان کی سرپرست آرایس ایس ہندوراشٹر کا اعلان کرے یانہ کرے لیکن عملی طور پر ملک کی تہذیب، ثقافت اور تمدن کو سیکولرزم سے ہٹاکر ہندوازم کو رائج کردینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولرزم، سماج وادی اور قوم پرستی جیسے دستوری عنوانات کو بھی بحث کے زمروں میں لاکر رکھ دیاگیاہے۔ گویاعوامی اور سرکاری دونوں سطح پر ملک کے عام لوگوں کی سوچ کو کنفیوزڈ کرکے اپنے دیرینہ مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں دلت قیادتوں کو زیادہ ذمہ داری کے احساس کے ساتھ محض ایک انتخاب جیتنے کی کوشش تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ بھر پور سنجیدگی کے ساتھ ملک بھر کی دلت تحریک کے ہاتھ مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی مسلم اکابرین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صورت حال کی سنگینی کا احساس کرے اور اسے محض حکومتوں کی تبدیلی اور عام سی سیاسی جست وخیز سمجھنے کے بجائے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ مفاہمت کے لیے ایک سم قاتل تصور کرتے ہوئے انھیں خطوط پر خود کو مجتمع کرنے کی ضرورت ہے جن خطوط پر اکٹھا ہوکر ہم نے جنگ آزادی کی قیادت کی تھی۔ ملک کی ایک ہزار سالہ مشترکہ تہذیب، امن وسکون، اخوت وبھائی چارہ اور ہمہ جہت ترقی کے لیے یہ لازم ہے کہ دلت، پسماندہ اور تمام اقلیتیں متحد ہوکر دستور کی حفاظت اور اس کے حقیقی انطباق کے لیے جدوجہد کریں اور مبینہ ہندوقوم پرستی کے نعرے اور تصور کی مخالفت کریں کیوںکہ یہ نعرہ ملک کے مزاج سے ہم آہنگ کبھی نہیں رہا۔ گائے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگ دینے والے سازشی ٹولے کا مسئلہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔