انجان رشتے

پروفیسرصغیر افراہیم
ابّو سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دورے پر رہتے تھے۔ گھر میں ڈھیرسارے نوکر چاکر تھے جو مجھ پر جان چھڑ کتے تھے۔ اُن کے درمیان میں نے کبھی اکیلا محسوس نہیں کیا کیونکہ دیکھا گیا ہے جیب سے کنگال لوگ دل سے خوش حال ہوتے ہیں چونکہ ان کے پاس پریم اور ممتا کا خزانہ ہوتا ہے۔
ماں کے مرنے کے چودہ سال بعد، اس وقت میری عمر تقریباً انّیس سال ہوگی، ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا کہ ایک روز ابّو دورے سے لوٹے تو اُن کے ساتھ ایک خوبصورت عورت تھی جو شاید مجھ سے دو چار سال عمر میں بڑی ہوگی۔ رنگ گورا، تیکھے نقوش، لانبا قد اور دُلہن کے روپ میں اس کی خوبصورتی چودھویں کے چاند کو ماند کر رہی تھی۔
’’یہ سلمیٰ متین ہیں‘‘ابّو نے تعارف کرایا ۔
’’میں عامر سہیل‘‘
’’بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمہاری نئی ماں ہیں‘‘
یہ سن کر میں چونک گیا اور حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔وہ عورت بھی شرما گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے اپنے کیے پر پچھتا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نفیسہ بُوا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمہاری مالکن ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں سب کچھ سمجھادیں گی‘‘ کہہ کر ابّو اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پیچھے پیچھے سلمیٰ متین چلی گئیں۔
میں اکیلا برآمدہ میں سوچتا رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔؟ بڑھاپے میں ابّو کو کیا سوجھی؟۔۔۔۔۔۔۔اگر شادی ہی کرنی تھی۔۔۔۔۔تو میں بغیر ماں کے چودہ سال اکیلا کیوں رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں کے بغیر ہماری کُل کائنات گھر کے نوکر چاکر تھے۔۔۔۔۔۔۔اور میں ان کے بیچ بڑا ہی مست اور خوش تھا۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ان کی عادت اس طرح ہو گئی تھی جیسے یہ سب ہی میرے لیے شریکِ زندگی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ابّو کو اچانک شریکِ حیات کی کیوں ضرورت پڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔اگر ضرورت تھی۔۔۔۔ تو چودہ سال بغیر اماں کے کیسے رہ لیے؟۔۔۔۔۔اچانک بادلوں میں بجلی چمکی۔ اس کے کوندنے کی چمک میرے ذہن میں روشنی بن کر آئی۔۔۔۔۔۔شاید بڑھاپے میں شریکِ حیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے بہ نسبت جوانی کے؟!
رات کو میں نے ابّو کے ساتھ کھا نا کھایا ۔سلمیٰ متین نہیں آئیں۔ ابّو معمول کے مطابق کا غذات اور فائلیں الٹ پلٹ کرنے لگے اور میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔صبح چائے کے وقت سلمیٰ نظر آئیں انھوں نے میری کتابوں کو اُلٹ پُلٹ کر دیکھا ۔اور کالج سے متعلق سوال کرنے لگیں ۔
’’ اگر تمھیں پڑھنے کے لئے کتا بیں چاہئیں تو لے جائو‘‘ ۔
میں نے اُکھڑے ہوئے لہجہ میں کہا۔
انھوں نے گردن ہلا کر ہولے سے کہا ۔’’ہائی اسکول کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا—–بہت نرم اور مایوس لہجہ میں جواب دیا اب کتابوں سے رغبت بھی نہیں ‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے‘‘
کہتا ہوا میں تیزی سے باہر چلا گیا۔ یہ جاننے کی میں نے کوشش کی نہ ضرورت سمجھی کہ وہ دن بھر گھر میں کیا کرتی رہتی ہیں لیکن جب کبھی دیکھتا انھیں خلا میں گھورتا ہوا، یا غور وفکر کرتا ہوا محسوس کرتا ۔اُن کی فکر مندی سے مجھے اُلجھن ہونے لگتی۔ گھر کے معاملات حسبِ معمول چل رہے تھے اور مکین ایک دوسرے کے کاموں میں دخل دیے بغیر پہلے ہی کی طرح برتائو کر رہے تھے۔
وہ میری پڑھائی کا ہی نہیں زندگی کا سنہرادور تھا ۔بی ،کام سالِ اوّل کے امتحان ہونے والے تھے مگر نہ جانے کیوں میرا دل پڑھائی کی طرف سے اُچاٹ ہو گیا تھا۔ دن بھر دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، فلمیں دیکھنا میرا معمول بن گیا ۔ابّو چاہتے تھے کہ میں شام کے بعد گھر کے باہر نہ رہوں ۔اس کے علاوہ اور کوئی پا بندی نہیں تھی۔میرے دماغ میں بھی کبھی ان کی حکم عدولی کا خیال تک نہیں آیا ۔لیکن اچانک انھوں نے مجھے ایک دن ٹوکا، صرف ٹوکا ہی نہیں بلکہ تنبیہ بھی کی ۔
’’ تم ڈرا ئیورکے ساتھ کالج جائو گے۔ اور کالج سے سیدھے گھر آئو گئے۔ بقیہ وقت اپنے ٹیوٹرس کو دو گے‘‘
’’ لیکن ابّو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میری بات ان سنی کرتے ہوئے ابّو نے سخت لہجہ میں کہا’’مجھے بہا نے سننے کی عادت نہیں ہے مجھ سے بحث مت کرو ‘‘
مجھے بھی غصّہ آگیا ۔’’کیا میںدودھ پتیا بچہ ہوں۔ آپ مجھے صفائی کا موقعے دئے بنا اوٹ پٹا نگ فیصلے سنانے لگے ہیں جیسے میں نے کوئی چوری کی ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تعلیم سے جی چُرانا، چوری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ انھوں نے سخت آواز میں کہا۔
’’ آپ کس وقت کیا کرتے ہیں ۔کیوں کرتے ہیں۔یہ بتا نے ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میرا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی ایک زوردار طما نچہ میرے گال پر پڑا ۔اس سے پہلے کہ دوسرا تھپڑ رسید ہوتا کسی نے مجھے پیچھے سے کھینچ لیا۔ یہ سلمیٰ تھیں ۔ مجھے اپنے کمرے میں بند کر دیا گیا ۔باہر ابّو غصّے میں آگ بگولا ہور ہے تھے۔
’’ سلمیٰ تم ہمارے بیچ مت آئو۔ یہ بہت بد تمیز ہو گیا ہے ۔ اِسے سبق سکھانا ہی ہو گا ‘‘۔
’’جو ان لڑکے پر نو کروں کے سامنے ہاتھ اُٹھانا کیا منا سب بات ہے‘‘ ۔
سلمیٰ کی سہمی سہمی آواز سنائی دی۔
’’وہ غلطی کر رہاہے ‘‘
’’لیکن آپ تو سمجھ داری سے کا م لیں‘‘۔
سلمیٰ کو اس طرح اپنی طرفداری میں بولتے ہوئے سن کر میرا غصّہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونے لگا ۔
ڈائننگ ٹیبل پر ابّو ایسے بیٹھے تھے جیسے پچھلے پہر کچھ ہو اہی نہیں ۔انھوں نے دوبارہ مجھے خبر دار کیا ۔ اور میں سر جُھکا ئے بیٹھا رہا۔ اب شام کو جلد ہی گھر لوٹ آتا ہوں۔ سلمیٰ سے بات چیت بھی ہوتی ہے لیکن برائے نام۔ دوچار جملوں سے زیادہ نہیں ۔بڑی ہونے کے باوجود میں نے ہمیشہ ان کو نام سے مخاطب کیا ۔ وہ میرے دوستوں کا بہت خیال رکھتیں اور اُن سے گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتیں ۔میں تعارف کرواتا۔ یہ میری نئی ماں ہیں اور وہ مُسکرا کر اضافہ کر تیں’سو تیلی ماں ‘ اور سب کھِل کھلا کر ہنس پڑتے۔ ایسے ماحول میں بھی انھوں نے اپنے بارے میں کبھی کچھ نہ بتا یا ۔
دو سال بیت گئے۔ بی کام کا ریزلٹ آگیا اور ابّونے مجھے ایم ۔بی۔اے کرنے کے لئے امریکہ بھیچ دیا ۔ میں خود کھُلی فضا میں سانس لینے کے لئے بے قرار تھا۔سلمیٰ کے آنے سے پہلے میں جتناابّو کو پیار کر تاتھا اب اُتنا ہی اُن کو اپنے سے دور محسوس کر تا تھا ۔سلمیٰ پر کبھی ترس آتا تھا اور کبھی جھنجلاہٹ ۔ نفرت میں اُن سے کرنہ سکا ۔اور ماں کہتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ۔ شائدا س کی وجہ بھی ابّو کی ضد تھی ۔ میں اب یہ سمجھ گیا تھا کہ ابّو نے کسی نفسیا تی دبائو کی وجہ سے اس کمسن لڑکی سے شاد ی کی تھی مگر بیس اکیس سال کی عمر میں اڑتا لیس سال کے مرد سے بے جوڑ شادی میرے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی جس کا جواب میری سمجھ سے بالا ترتھا ۔
امریکہ میں دوران تعلیم نہ تو میں گھر آیا اور نہ ہی خط لکھا ۔فون پر رسمی بات چیت ہوتی ،وہ بھی سلمیٰ سے۔
تعلیم مکمل ہوتے ہی مجھے وہیں ملازمت کا آفرمل گیا۔ مگر اسی بیچ گھر سے بلا وے کے فون اور فیکس آنے لگے ۔نہ چاہنے کے باوجود واپس آنا پڑا ۔ ایئرپورٹ پر ڈرا ئیور موجود تھا ۔گھر میں داخل ہوا تو سامنے سلمیٰ کھڑی تھی ۔ سوا دوسال بعد میںنے اُنھیں دیکھا تھا ۔گھر میں ایک خاموشی۔ سکوت کا عالم تھا ۔ درودیوار سے اُداسی ٹپک رہی تھی۔ سلمیٰ مضمحل تھی۔ سفید لباس میں ملبوس، نہ ہا تھ میں چوڑی نہ ناک میں کیل ۔ میرا دل تیزی سے دھڑ کنے لگا۔میںنے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا ۔
’’ہاں! تمہارے ابّو پندرہ دن پہلے ہم سے اچانک بچھڑ گئے ۔ دل کا دورہ پڑا،اور وہ جانبر نہ ہوسکے ‘‘۔
میں ایک دم بیٹھ گیا ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا ساچھانے لگا ۔
’’آپ نے مجھے کیوں نہیں بلایا ؟ فون تا ر کچھ تو کیا ہوتا‘‘۔
’’انھوں نے منع کیا تھا ‘‘۔
’’آپ کو سوچنا تھا؟‘‘
’’مجھے اُمید نہیں تھی۔۔۔۔۔سب کچھ خلافِ اُمید ہوا‘‘۔
تھوڑی دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔
’’موت کی اطلاع تو بھیج دی ہو تی ۔ رسمی طور پر ہی‘‘ ۔میں نے بڑے تلخ لہجے میں کہا ۔
سلمیٰ کی زیر لب مُسکان میں میری بات کہیں کھوگئی ۔
’’ وصیت میں پوری جائداد تمہارے نام ہے‘‘انھوں نے کہا۔
’’پوری جائداد ابّو کا بدل نہیں ہے۔‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔
’’ ایک شرط بھی ہے‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ مجھے آخری دم تک سگی ماں کی طرح رکھاجا ئے‘‘۔انھوں نے آہستگی سے کہا۔
میں انھیں گھورنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں اس طرح گاڑ دیں جیسے کچھ تلاش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ شاید سگی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا ممکن ہے اپنا وقار؟
’’کچھ شیئرس میرے نام بھی ہیں۔۔۔۔۔۔وہ بھی تمہارے نام کر دوں گی‘‘۔انھوں نے قدرے وقار سے کہا۔
میں تلملا اُٹھا ۔اِس سے پہلے کہ میں برس پڑتا وہ نڈھا ل ہو کر صوفے پر گِرگئیں پھر انھیں ہوش نہیں رہا کہ وہ کہاں ہیں؟چہرہ پسینہ سے شرابور ہورہا تھا۔سانس تیزتیزچل رہی تھی ۔ آنکھوں کے گردبڑے بڑے سیاہ حلقے ہوگئے تھے۔ میں نے اُن کی اس کیفیت کو دیکھ کر ملا ز مین سے ڈاکٹر کو فوری بلانے کو کہا۔
’’بیگم صاحبہ تھوڑی دیر پہلے ہی ہسپتال سے آئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نفیسہ بوا بولیں!
نا گفتہ بہ حالت کو دیکھتے ہو ئے میں انھیں جبراً ہسپتال لے گیا لیکن ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے نحیف آواز میں بولیں۔
’’ تم یہیں ٹھہرو‘‘!
میں آدھا گھنٹہ باہر بیٹھا میگزین پلٹتا رہا۔
’’ ڈاکٹر صاحب نے اندربلایا ہے ۔‘‘نرس نے کہا ۔
’’بیٹھو ‘‘
میں سامنے کی کُرسی پر بیٹھ گیا ۔سلمیٰ کو بیڈ پر لے جانے کے لیے نرس کو اشارہ کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا’’۔۔۔۔۔۔ سلمیٰ کو cancerہے اور وہ بھی آخری مرحلہ (stage)میں ہے۔ دُعا کی ضرورت ہے ۔‘‘اس کے آ گے ڈاکٹر صاحب کیا کچھ کہتے رہے ،مجھے علم نہیں ۔ مجھ پر تو جیسے سکتہ سا طاری ہو گیا ہو۔ڈاکٹر سلمیٰ کی طرف چلے تو میں اُن کے پیچھے پیچھے ایک چلتی پھر تی لاش کی طرح ہو لیا۔ سلمیٰ کے جسم میں بوتل کے ذریعے خون ٹپک رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا !چند ساعت اپنے دل ودماغ میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب اُن کی آنکھوں میں ڈھونڈتارہا ۔ پھر یکایک کھڑے ہو کر میں نے سختی سے پوچھا ۔
’’آپ کو پہلے سے معلوم تھا‘‘؟
’’ ہاں !‘‘
’’ابّو کو‘‘؟
’’ ہاں۔ تمھارے ابّو کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی سے پہلے انھیں اس کا علم تھا‘‘ ۔
میراذہنی تنائو خود د نجودزائل ہونے لگا اوراس کی جگہ ہمدردی اور تیمار داری نے لے لی۔ دل کی اتھاہ گہرا ئیوں سے ’’ماں۔۔۔۔۔پیار ممتا اور قربانی کا نام ہے‘‘ مگر زبان سے نہ نکل سکا۔
سلمیٰ متین نے میری جانب ممتا بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔ مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکیں۔
’’ تمہارے ابّومیرے والد کے دوست تھے۔۔۔۔۔میری ماں، تمہاری ماں کی طرح بچپن ہی میںداغِ مفارقت دے گئی تھیں۔۔۔۔میرے والد کی اچانک ایک حادثہ میں موت ہو گئی۔ میں تنہا کینسر سے لڑنے کے لیے رہ گئی۔۔۔۔۔اس جنگ میں ، میں کب کی ہار جاتی۔۔۔۔۔۔مگر تمہارے ابّو نے ہمت دی اور حوصلہ دیا۔۔۔۔۔۔مجھ جیسی خوبصورت جوان عورت کا ساتھ دینے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں ان کی منکوحہ بن جاؤں کیوں کہ سماج میں اکیلے ایک غیر مرد کے ساتھ بیٹی بن کر رہنا بھی ایک عذاب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس عذاب سے نجات حاصل کرنا میرے لیے بہت ضروری تھا۔۔۔۔۔۔چونکہ مجھے معلوم تھا زندگی سے بھی نجات بہت جلد ملنے والی ہے ‘‘۔
اُن کی آنکھوں سے دو موتی گرنے والے تھے میں نے اپنی ہتھیلی میں سمیٹ لیے۔۔۔۔۔آسمان پر نظر اٹھائی دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں!

تبصرے بند ہیں۔