مکالماتِ رسولؐ ۔ تیسری قسط

تحریر: فیض اللہ منصور                ترتیب: عبدالعزیز

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے مکالمات:… دین کے مسائل، قوانین شریعت اور عام زندگی کے مسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ہی تعلیم و تعلّم ہے۔ یہ سلسلہ نہ صرف آپؐ کی حیات مبارکہ تک ہی جاری رہا بلکہ یہ فیضانِ رسالتؐ آج بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکالمات میں کبھی کبھار تشبیہ و استعارہ سے بھی کام لیتے تھے۔ اس کا استعمال آپؐ نے اخبارِ غیب کے سلسلہ میں فرمایا یا کسی مسئلہ کی تعبیر میں، لیکن عام حالات میں اس صفت کا استعمال نہیں فرماتے تھے۔ مکالمۂ جبرئیل علیہ السلام میں جب نووارد حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے علاماتِ قیامت بیان کرنے کیلئے کہتا ہے تو ارشاد ہوتا ہے:

’’قرب قیامت کی بدیہی علامتیں یہ ہوں گی کہ لونڈی اپنے آقا کو جَنے گی‘‘۔

’’گڈریوں کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوگی اور وہ بلند و بالا عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے‘‘۔

’’انجام سے غافل لوگ قوموں کی قسمت کے مالک ہوں گے‘‘۔

جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا سر چشمہ وحی الٰہی ہے جس کی بدولت آپؐ کو یقین و اِذعان کی عظیم نعمت حاصل ہوئی اور آپؐ کی منزل نہ صرف آپ کو نظر آئی بلکہ عین الیقین کی حد تک ان کے سامنے تھی، جس پر پہنچنے کیلئے آپ سراپا عمل تھے۔ اس یقین کا بھرپور اظہار آپؐ کے کلام میں موجود ہے اور یہی آپ کے مکالمات کا امتیازی وصف ہے۔ اور وہ تعلیمات جو آپ کے مکالمات کا طرۂ امتیاز ہیں، آدمی کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی روشنی میں انسان ایک ہی جست میں عشق کی تمام منزلیں طے کرلیتا ہے اور یہ جہان رنگ و بو اس کیلئے بیکراں نہیں رہتا۔

المختصر حضورؐ کے مکالمات میں حکمت و موعظت، حقائق کے اسرار و غوامض، ہدایت و استقامت کے دُرِّ بے بہا، علم و عرفان کے بے بہا موتی، عقل و فہم کے نادر جواہر اس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ اس بحر ذخار میں غواصی کرنے والے کو ہر قسم کی نعمت غیر مترقبہ مل جاتی ہے۔ شکوک و شبہات کے کانٹے دور ہوجاتے ہیں۔ تذبذب سے نجات ملتی ہے۔ عین الیقین اور حق الیقین جیسی منزل پر پہنچ کر سائل شرحِ صدر جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

حقیقت وحی:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام اور حضور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وحی کے بارے میں مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔

حارث: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟

رسولؐ اللہ: ’’کبھی تو یہ صورت ہوتی ہے کہ مجھے ایک گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے، وحی کی یہ قسم میرے لئے سخت دشوار ہوتی ہے۔ جب یہ کیفیت دور ہوجاتی ہے تو جو کچھ وحی میں ارشاد ہوا تھا وہ مجھے یاد ہوجاتا ہے۔ اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ فرشتہ خود کسی شخص کے روپ میں میرے سامنے آجاتا ہے اور مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ کہتا جاتا ہے میں اسے حفظ کرلیتا ہوں‘‘ (بخاری ج1، کتاب الوحی8)۔

بـعـثـت:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیںکہ پہلے پہل وحی کی ابتدا سچے اور پاکیزہ خوابوں کی صورت میں ہوئی، چنانچہ جو خواب آپؐ دیکھتے وہ روز روشن کی طرح سچ ثابت ہوتا۔ اس کے بعد آپ گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوگئے۔ آپؐ غار حرا کی تنہائیوں میں قیام فرماتے۔ کئی کئی راتیں عبادت میں مصروف رہتے۔ جب آپ کو توشہ کی ضرورت ہوتی تو گھر تشریف لاتے۔ چند روز حضرت خدیجہؓ کے گھر قیام فرماکر پھر غارِ حرا تشریف لے جاتے، یہاں تک کہ ایک دن جبکہ آپؐ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، اللہ کا فرستادہ پیغامِ حق لے کر آپؐ کے پاس آیا اور کہا:

فرشتہ: پڑھئے۔

رسولؐ اللہ: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

فرشتہ: (بہت زور سے حضوؐر کو سینے سے بھینچتے ہوئے) پڑھئے۔

رسولؐ اللہ: مجھے پڑھنا نہیں آتا۔

فرشتہ: (پھر نہایت ہی زور سے حضوؐر کو اپنے بازوؤں میں دباتے ہوئے) پڑھئے۔

رسولؐ اللہ: میں پڑھنا نہیں جانتا۔

فرشتہ: (حضور کو چھوڑتے ہوئے) اچھا تو ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا، انسان کو جمے ہوئے خون سے تخلیق کیا۔ پڑھئے آپؐ کا رب کریم ہے…‘‘۔

یہ کلمات آپؐ کو حفظ تو ہوگئے لیکن جب آپ واپس لوٹے تو تھر تھر کانپ رہے تھے، جس وقت آپؐ حضرت خدیجہؓ کے ہاں پہنچے تو فرمایا: ’’خدیجہ! مجھے کمبل اُڑھا دو۔ مجھے کمبل اڑھا دو‘‘۔

چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ پر کمبل ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب قلب مبارک کو ذرا سکون ہوا تو آپؐ نے حضرت خدؓیجہ کو سارا واقعہ سنا دیا اور فرمایا: ’’خدیجہ! خدا کی قسم مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہے‘‘۔

حضرت خدیجہ: آپؐ کو بشارت ہو، آپ ہر گز خوف نہ کھائیں۔ خدا کی قسم؛ اللہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپؐ تو صلہ رحمی فرماتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں، امین ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، آپؐ مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے ہیں، حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ آپ مصائب کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں خدیجہ کی جان ہے! مجھے قومی امید ہے کہ آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔

(مزید تشفی کیلئے) حضرت خدؓیجہ آپؐ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ عہد جاہلیت میں نصرانی (عیسائی) ہوگئے تھے۔ ابن ہشام عبرانی زبان میں انجیل لکھتے اور پڑھتے تھے۔ اس وقت بڑھاپے کی وجہ سے بینائی جاتی رہی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے ورقہ سے کہا:

خدیجہ: بھائی جان! ذرا اپنے بھتیجے سے ان کی کیفیت کا حال سنئے۔

ورقہ: بھتیجے؛ تمھیں غار میں کیا نظر آیا؟ (حضورؐ سے غار کا پورا ماجرا سننے کے بعد)

یہ تو وہی ناموس اعظم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔ کاش؛ میں اس وقت تندرست و توانا ہوتا۔ کاش؛ میں اس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ کی قوم آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔

رسول اکرمؐ: تو کیا میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟

ورقہ: ہاں! جب کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپؐ لائے ہیں تو لوگ اس کے دشمن بن گئے۔ اگر میں آپ کے اس کڑے وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا۔

چند روز بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا سلسلہ بھی تھوڑے عرصے کیلئے منقطع ہوگیا۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کی بابت آپؐ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا۔

رسولؐ اللہ: ایک روز میں جارہا تھا کہ راستہ میں مجھے آسمان سے ایک آواز سنائی دی۔ آنکھیں اوپر اٹھائیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری سا ہوگیا۔ فوراً گھر واپس ہوا اور کہا: مجھے کمبل اڑھادو دو، کمبل اڑھادو۔ اسی حالت میں یہ آیات نازل ہوئیں:

یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرُ وَ رَبُّکَ فَکَبِّرُ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرُوَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ (اے کملی والے! اٹھ اور لوگوں کو خوفِ خدا سے ڈرا۔ اپنے رب کی بزرگی بیان کر، اپنے لباس کو پاک رکھ اور نجاست سے دور رہ)۔ پھر تو وحی کا سلسلہ خوب شروع ہوگیا اور لگاتار رہا۔

 (صحیح بخاری، جلد اول، کتاب الوحی ، ص:8تا 11)، سیرۃ ابن ہشام، جلد 1، ص: 261-264)۔

تخلیق اوّل: (1 تخلیق اول سے متعلق حضرت جابر انصاریؓ کے استفسار پر یہ گفتگو ہوئی۔

حضرت جابرؓ: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، مجھے بتائیے کہ سب اشیاء سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی؟

رسول اکرمؐ: اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی تخلیق سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبیؐ کا نور پیدا فرمایا۔ یہ نور اللہ کی قدرت سے، جہاں اسے منظور ہوا، سیر کرتا رہا۔

اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، بہشت تھی نہ دوزخ، فرشتے بھی نہیں تھے، آسماں تھا نہ زمین، سورج تھا نہ چاند، جن تھا نہ اِنس، اللہ پاک نے جب مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نور کے چار حصے کئے، ایک حصہ سے قلم پیدا فرمایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔

(2 ابو ہریرہؓ: بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے استفسار پر حضورؐ نے یہ گفتگو فرمائی۔

صحابہؓ : یا رسولؐ اللہ! آپ کیلئے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی؟

رسول اکرمؐ: آدم اس وقت روح اور جسد کے درمیان تھے جبکہ مجھ سے میثاق نبوت لیا گیا۔ بے شک میں حق تعالیٰ کے نزدیک خاتم النّبیین ہوچکا تھا اور آدم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر میں تھے۔

میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مقصداق ہوں۔  (مشکوٰۃ: مصنف عبدالرزاق، سنن ترمذی، شعبی)

(جاری)

موبائل: [email protected]

تبصرے بند ہیں۔