صحافت چمچہ گیری ہے نہ دادا گیری

جو لوگ قلم ہاتھ میں لے کر لکھ رہے ہیں اور دنیا کو خبرو نظر سے روشناس کرا رہے ہیں ان کو بھی صحافی کہا جاتا ہے اور جو لوگ نیوز چینلوں میں رہتے ہوئے اینکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہ بھی صحافی کہلاتے ہیں۔ ایک ٹی وی نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ ہے ۔ اس کے چیف ایڈیٹر یا چیف اینکر کا نام ارنب گوسوامی ہے۔ ان کے والد محترم فوجی تھے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد آسام میں بی جے پی کے سربراہ ہیں۔ ارنب گوسوامی پہلے ’این ڈی ٹی وی‘ میں تھے ۔ جب وہ این ڈی ٹی وی میں تھے تو وہ برکھا دت کے جونیئر تھے۔ جب وہ ’ٹائمز ناؤ‘ کے چیف ایڈیٹر کے منصب پر فائز ہوئے تو وہ اپنی صحافت کو چمکانے کیلئے نہایت غلط طریقہ اپنانا شروع کیا۔ جو لوگ پینالسٹ ہوتے تو ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے لگے اور اینکر کے بجائے داروغہ بن گئے۔ اور داروغہ گیری کچھ اس طرح شروع کی کہ اسے میڈیا ٹرائل کہا جانے لگا۔ بہت سے مہذب لوگوں نے ان کے پینلوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ کچھ دنوں سے وہ دروغہ گیری یا دادا گیری کے ساتھ ساتھ چمچہ گیری پر بھی اتر آئے ہیں۔

برکھا دت جو یہ غیر جانبدار اینکر اور صحافی ہیں ان کی غیر جانبدارانہ صحافت اور صداقت پسندی پر برسنے اور گرجنے لگے ہیں۔ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، فوجیوں کو جس طرح چھوٹ دے دی گئی ہے اس سے جمہوریت شرمسار ہے۔ فوجیوں کے طرز عمل پر برکھا دت کی تنقید ارنب گوسوامی کیلئے سوہان روح ثابت ہوئی ۔ جے این یو کے معاملہ میں بھی ارنب کی حب الوطنی، تنگ نظری کی حد تک ابھر آئی اور سنگھ پریوار کے حامی ہوگئے تھے جو بھی حکومت کے کام کاج اور طرز عمل پر نکتہ چینی کرتا تھا اسے غدارِ وطن قرار دیتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح اس وقت برکھا دت کی فوجیوں پر نکتہ چینی اندھا دھند فائرنگ، پٹل گن کا استعمال جس سے ایک سو سے زائد افراد اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیکڑوں افراد زخمی ہیں اور اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ گوسوامی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ گوسوامی پورے طور پر برکھا دت پر حملہ آور ہوگئے۔ انھیں غدار وطن اور پاکستان نوازی کا طعنہ دینے لگے۔ ان کو حافظ سعید جیسے انتہا پسند لوگوں کا ہم نوا قرار دینے میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ اور آئی ایس سے رشتہ بھی جوڑ دیا۔ ایسی صورت میں برکھا دت آخر کیسے خاموش رہتیں۔ انھوں نے بھی وار کرنا شروع کیا کہ ایسا شخص جو صحافیوں کو پاکستان نواز اور غدارِ وطن کہہ رہا ہے وہ بھی ہماری انڈسٹری کا حصہ ہے۔ مجھے شرم آتی ہے کہ میں بھی ایسی انڈسٹری میں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں۔ اور صحافت میں رہتے ہوئے صحافیوں پر وار کررہا ہے اور حکومت نوازی کی تعلیم دے رہا ہے جو اس کا ساتھ نہ دے اس کو ملک بدر کرنے کا مشورہ تک دے رہا ہے اور اپنے آپ کو صحافی بھی کہتا ہے۔

سومیت پاترا بی جے پی اور آر ایس ایس کا آدمی ہے جو زبان وہ استعمال کرتا ہے ٹھیک وہی ارنب گوسوامی بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس وقت ارنب گوسوامی اور ٹائمز ناؤ پورے طور پر حکومت اور آر ایس ایس کا ترجمان بن گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کی ترجمانی کیلئے ایک ایسے چینل کی ضرورت تھی جو اس کی پارٹی کی وکالت کرے اور اس کے انداز میں گفتگو کرے جس طرح اس کے وزراء ترجمان اور ایم ایل اے ، ایم پی بات کرتے ہیں۔ جعلی حریت پسند (سوڈو لبرل) کی اصطلاح سنگھ پریوار والوں کی ایجاد ہے۔ اپنی تاریک پسندی کو چھپانے کیلئے انھوں نے یہ اصطلاح ایجاد کی ہے۔ یہی اصطلاح ارنب گوسوامی کو بھی راس آئی اور اپنے مخالفین کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ گوسوامی کی صحافت زرد صحافت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ جانبداری ان کی صحافت کا جز بن چکی ہے۔ اب وہ صحافت صحافت نہیں بلکہ چمچہ گیری ہوگئی ہے جو دادا گیری نما بھی ہے۔ ایک طرف حکومت کی چمچہ گیری ہے تو دوسری طرف تنگ نظر حب الوطنی کا بھی بدنما مظاہرہ ہے۔ ان کے اندر گھمنڈ اور تکبر بھی پیدا ہوگیا ہے۔ ع  ’بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘  اب اترانے بھی لگے ہیں۔ حکومت کی مشنری اور سنگھ پریوار ان کی پیٹھ تھپتھپانے لگا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اگر مقصود اہل قلم یا اہل صحافت کی بے باکی، فکری حریت اور تخیل کی نشو و نما ہوتو اہل قلم یا صحافی کو مکمل طور پر پرائیوٹ سیکٹر میں رہنا چاہئے۔ قلم عجیب چیز ہے۔ جب یہ صاحب قلم کو پس پشت ڈال کر سچ لکھنے پر آتا ہے تو نہ نوکری کا غم کرتا ہے نہ وردی کا۔ نوکری وردی والی ہو یا بے وردی غلامی ہے۔ پہلے لوگ کہا کرتے تھے ’’بیٹا! نوکری سے دور رہو، تجارت چھوٹی ہو یا بڑی تمہیں بڑا بناتی ہے۔ نوکری خواہ کتنی ہی بڑی ہو مگر غلامی کی زنجیر ہوتی ہے اور گلے میں طوق ڈلوائے بغیر نہیں رہتی‘‘۔

ارنب گوسوامی کی صحافت ان کے گلے کی طوق اور پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔ اب وہ وہی کہہ رہے ہیں یا بک رہے ہیں جو صاحب بہادر کا حکم ہورہا ہے۔ ایسی صحافت صداقت و عبادت کے بجائے  شرارت اور ذلالت ہوگئی ہے۔ اچھے اور سچے صحافیوں کو گوسوامی کی مذمت کرنا چاہئے تکہ جو لوگ صحافت پر اپنے وجود سے گوسوامی کی طرح بدنما داغ بنے ہوئے ہوں ان کے پست ہمتی ہو اور صحافت کے بجائے کوئی اور پیشہ اپنانے پر مجبور ہوں۔

موبائل:9831439068

[email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔