گائے کی دہشت اور سیاسی بازی گری

 ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
گئو کشی کے مسئلے پر ملک میں ایک مرتبہ پھر بحث جاری ہے۔ اور اس مرتبہ بحث کا آغاز مہاراشٹر میں گئو گشی پر مکمل پابندی کے قانون کے پاس ہوجانے کے بعد ہوا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے دفتر (پی ایم او) نے اس مسئلہ پر وزارتِ قانون سے رائے طلب کی ہے کہ آیا بشمول گجرات بعض ریاستوں کی طرف سے انسدادِ گاؤکشی پر وضع کردہ قوانین کو دیگر ریاستوں میں بھی مرکز گشت کرواسکتا ہے۔ تاکہ وہاں بھی ایسے ہی قوانین کے نفاذ کے لئے ایک مثالی بل کے طور پر غور کیا جاسکے۔ پی ایم او نے وزارت قانون کو روانہ کردہ مکتوب میں گائے اور دودھ دینے والے دیگر مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی کیلئے دستور میں فراہم کردہ ایسی ہی دفعات کا حوالہ بھی دیا ہے۔ دستور کی دفعہ 48 میں کہا گیا ہے کہ ’’مملکت کو چاہئے کہ وہ مویشیوں کی افزائش اور زراعت کو عصری اور سائنسی خطوط پر منظم کرے بالخصوص (مویشیوں کی) نسلوں کے تحفظ اور بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ گائے بچھڑوں کے علاوہ دودھ دینے والے اور سوکھے مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی جائے۔ وزیراعظم کے دفتر کے اس مکتوب نے کہا ہے کہ 2005 میں سپریم کورٹ نے گؤکشی پر امتناع کئے گئے حکومت گجرات کی طرف سے وضع کردہ قانون کے جواز کو جائز قرار دیا تھا۔
ہندوستان میں گئو کشی سماجی، مذہبی اور اعتقادی مسئلہ ہونے سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے۔ گئو کشی اور ایسے ہی دیگر اعتقادی مسائل کو بہانہ بنا کر ملک کے بیشتر طبقات کے مابین خلیج بپا کی جاتی ہے اور پھر اس خلیج کا سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتاہے گویا مذہبی منافرت ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لئے ایک سیڑھی کا کام کرتاہے۔ جہاں تک گئو کشی کا تعلق ہے ہندوستان کے مسلم شہنشاہوں سے لے کر موجودہ سیکولر جمہوری حکومت تک نے اسے ہندو اعتقاد ات کے احترام میں آج تک ممنوع رکھا ہے۔ بابر نے بھی گئو کشی پابندی روا رکھی اور اب سیکولر جمہوریہ ہندوستان میں بھی روز اول سے ہی 90فیصد ہندوستان میں گئو کشی پر پابندی ہے۔ شمال مشرق کی سات ریاستوں اور جنوبی ہند کی ریاست کیرل کے علاوہ ملک کی ہر ریاست میں کسی نہ کسی طور پر گئو کشی پر پابندی ہے چند ریاستوں میں غیر مشروط۔ اس کے باوجود بھی ہمارے ملک سے اربوں ڈالر سالانہ گائے کے گوشت کا روبار کیا جاتاہے۔ گائے کے چمڑے کا کاروبار بھی اربوں ڈالڑ سالانہ ذر مبادلہ کماتا ہے اور اس پورے کاروبار میں مسلمانوں کا حصہ آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمان اس کاروبار میں زیادہ تر مزدوری کرتے ہیں۔ گوشت کی صنعتوں اور تجارتی اداروں میں بھی مسلمانوں کا حصہ 10فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس طرح گوشت اور چمڑے کا یہ سار ا کاروبار ان مذہبی طبقات کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو خود کو گائے کا پرستار اور گائے کو اپنی ماں مان کر پوجا کرتے ہیں۔ جبکہ ہندو مذہب کی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ سارے ہندو نہ تو سبزی خور ہیں اور نہ ہی گائے کے پرستار۔ بڑے جانورں کے ذبیحہ پرپابندی کوغیرقانونی اورغیرآئینی کہا جارہا ہے کیونکہ ہندومذہب کے لوگ اس کی پوجا نہیں کرتے اس لئے اس کے ذبیحہ سے ان کی مذہبی دل آزاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں گؤماتا کہتے ہیں مسلمان بھی ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کے ذبیحہ سے اجتناب کرتا ہے مگر مسلمانوں پر یہی الزام ہے کہ مسلمان گائے کاٹتا ہے جبکہ پولس نے کہیں بھی مسلمانوں کوگائے کا ذبیحہ کرتے ہوئے نہیں پکڑا ہے مگر گؤ رکشا سمیتی والے یہی کہہ کر ہندوؤں کے جذبات مشتعل کرتے رہتے ہیں، یہی کہہ کرقانون بنوایا اورپھر گؤکے ساتھ ساتھ گؤونش لکھوادیا۔ اس لئے بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد ہوگئی۔
دراصل ہندوستان میں رہنے والی ہندواکثریت ’’ گئو سالہ پرستی‘‘ کو تعظیم کی نظر سے ہی نہیں دیکھتی، بلکہ عبادت تک کا درجہ دیتی ہے، نیز مسلمانان ہند کو ہندؤں کی ایک معتدبہ تعداد گائے کا قاتل ٹھہراتی ہے، جس کی آڑ میں وہ سیاسی اور فرقہ وارانہ مفاد حاصل کرتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانان ہند ایک فیصد بھی گائے کے قاتل نہیں، گائے کے اصل قاتل تو وہ ہیں جو گائے کے تقدس پر عقیدہ رکھنے کے باوجود اس سے اقتصادی و تجارتی منافع حاصل کرتے ہیں، گائے کا قاتل ہے کون؟ ذیل میں ہم اس حقیقت کو طشت از بام کرتے ہوئے ایسے دستاویزی ثبوت ’ مستند اعداد وشمار‘ اور ناقابل انکار حقائق‘ فراہم کریں گے، جن کی تردید ممکن نہیں ازروئے شریعت اسلامیہ گائے کا گوشت مسلمانوں کے لیے حلال ہے اور ملک کی شدید ترین ہندوعقیدہ رکھنے والی آبادی گائے کو قابل پرستش سمجھتی رہی ہے، تنہا صرف یہی ایک ایسا سبب رہا کہ مغل بادشاہ اکبر سے لے کر اب تک اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکالاجاسکا، بھارت میں ہندئووں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اکثروبیشتر مسلم حکمرانوں نے جن میں میسورکی سلطنت خدادادکے حیدرعلی، ان کے فرزندارجمندشیر میسورٹیپو سلطان اورپہلے مغل شہنشاہیت کے بانی شہنشاہ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندئووں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے گئوکشی نہ کرنے کی نصیحت کی تھی جب کہ ہمایوں کے جانشیں اکبر کے زمانے میں گئو کشی پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ تقریباًسبھی مغل حکمرانوں کے دورمیں ذبیحہ گئو سے پرہیز کیاگیا۔ مہاتما گاندھی گئو کشی کو پسند نہیں کرتے تھے مگراس کے لئے کسی زور زبردستی کے خلاف تھے۔ گاندھی نے اپنی ایک تقریرمیں کہاتھا کہ انگریز روزانہ20ہزاراورسالانہ ایک کروڑگایوں کو اپنی خوراک بنالیتے ہیں۔ گاندھی نے گائے کو لاکھوں ہندوستانیوں کی ’’ماں ‘‘قراردیتے ہوئے کہاتھا کہ جب ماں مرتی ہے تو اسے دفنایایاسپردآتش کیاجاتا ہے مگر گائے ماتا مرنے کے بعد اتنی ہی کاراآمد ہوتی ہے جتنا کہ زندہ۔ گا ندھی کے قتل کے بعد ان کے جانشیں ونو باجی بنے۔ ونو باجی نے ’’مسئلہ تحفظ گائے‘‘پر ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں شدت پسند ہندؤں نے 1977میں حکومت ہندکے خلاف ایک ملک گیر گئو رکشا سمیلن( تحفظ گائے کے سلسلہ میں ایک بڑی کانفرنس) کا ناگپور( مہاراشٹر) میں انعقاد کیا، اس کانفرنس میں مسلمانان ہند کو ایک اشتہاری مجرم کی سی حیثیت دی گئی۔
اس کے برعکس بھارت میں گوشت خوری اور گئو کشی دونوں سے زیادہ مستفید ہونیوالے بیشتر ہندو ہیں۔ اس وقت زیادہ تر ہندو گوشت کھاتے ہیں اور انکا ایک طبقہ گائے کا گوشت بھی کھاتا ہے مگر گائے کا گوشت نوش فرمانے والوں کے ہزاروں میل لمبے دستر خواں پر مسلمان کہیں دکھائی نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس خود ہندو سماج میں کتنے ایسے گروپ ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں جیسے، شیڈول کاسٹ کے لوگ، گوڈ، کورکو، بھیل، جن جاتی، ونواسی، بودھ، جنگلی قبائل، ناگالوگ، جنوبی ہند کے لوگ، بدھشٹ، عیسائی، نیپالی، گورکھے، بنواسی، ماربا، پارسی، چمار، بھنگی، ہر یجن حتیٰ کہ ساؤتھ انڈین ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد گائے کا گوشت بہت ہی کثرت سے استعمال کرتی ہے، پھر سرکس والے بھی اپنے جانوروں کو گائے کا گوشت ہی کھلاتے ہیں، نیز ہر بڑے شہر کے عجائب گھر میں خود سرکاری نگرانی میں گائے کا گوشت جنگلی جانوروں کو کھلایا جاتا ہے، ایئر لائنزکی انٹر نیشنل پرواز خصوصاً ایر انڈیا غیرملکی مسافروں کے لیے بہترین اور عمدہ گائے کے گوشت کھلانے کا انتظام کرتی ہے، امریکہ میں گائے کا گوشت مرغی بکری کے گوشت کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ داموں میں فروخت ہوتاہے، مثلاً اگرمرغی آپ کو امریکہ میں دس روپے کلو ملے تو گائے کا گوشت سو روپے سے نیچے نہیں مل سکتا، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش وغیرہ جہاں گؤ کشی ممنوع ہے ان علاقوں میں ہر سال لاکھوں جوان اوربہترین گائیں کلکتہ سے لائی جاتی ہیں اور چند مہینوں میں ان کا دودھ، دودھ بڑھانے والے انجکشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نکال لیاجاتا ہے، جب وہ سوکھ جاتی ہیں تو انھیں قصاب کے پاس بھیج دیاجا تاہے۔
حالانکہ1958 میں بھارت کی عدالت عالیہ نے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرنے سے یہ کہہ کر گریز کیاتھا کہ یہ غریبوں کی غذا ہے۔ عدالت عالیہ نے کہاتھا کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے گوشت کو غذا کے طو رپر استعمال کررہا ہے جبکہ اس عدالت نے2005 میں 1958 کے فیصلے کے تعلق سے کہاتھا کہ مذکورہ فیصلہ ملک کی غذائی قلت کا اظہار تھا اب ملک کو حقیقی مسئلہ غذا کی غیر مساوی تقسیم ہے چنانچہ عدالت عالیہ کی ایک سات رکنی بنچ نے جس کی صدارت چیف جسٹس آر سی لا ہوٹی کررہے تھے گجرات میں جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کے فیصلے پر اپنی مہر لگادی تھی۔ اس طرح 1958 کے اپنے ہی فیصلہ کو عدالت عالیہ نے الٹ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ واضح کردیاتھا ہے کہ گئو کشی کے خلاف پابندی عائد کرنا دستور ہند کے خلاف ہے۔ نہ یہ ضروری ہے اور نہ ہی دستور میں اسکی اجازت ہے۔ ہمارے ملک میں 60فیصد شہری گوشت خور ہیں جبکہ 9فیصد وہ لوگ ہیں جو انڈے کھاتے ہیں۔ صرف 31 فیصد ہی خالص ویجیٹیرین ہیں۔ ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں گوشت نہیں کھایا جاتا۔ بھارت گوشت ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کاسب سے بڑا ملک ہے اور بھارت کو اس کے ذریعہ کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں چین ہمارے ملک سے پیچھے ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں پرانے زمانے سے ایک طبقہ ایسا رہاہے جوسبزی خوررہاہے مگر ا سی کے ساتھ گوشت خوری کی بھی اپنی روایت رہی ہے۔ الیکشن 2014کی مہم کے دوران مودی نے گئو کشی پر مکمل امتناع کے عزم کا اظہار کر تے ہوئے کہا تھا کہ یو پی اے حکومت نے’’گوشت کے بیوپار یاایکسپورٹ ‘‘کے نام پر جو گلابی انقلاب لایا ہے اسے وہ سبز انقلاب میں بدل دیں گے یعنی گوشت کی جگہ سبزی خوری کے رواج کو عام کریں گے۔ اسی بنیاد پر آج جو بی جے پی اور آر ایس ایس نواز حکومت اس مسئلے پر ہائے توبہ مچاکر ا س پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہی ہے اسی پارٹی اور اسی کی سابقہ حکومت یعنی سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں اب تک سب سے زیادہ گائے کا گوشت13 لاکھ5 ہزار ٹن غیرممالک بھیجا گیا۔ 2001میں سب سے زیادہ گائے کا گوشت نکالا گیا۔ رپورٹ کے مطابق1998,99میں ہر سال 12 لاکھ 95ہزارٹن گائے کے گوشت کا ایکسپورٹ کیا گیا2000میں 13 لاکھ ٹن اور2001میں 13 لاکھ پانچ ہزار ٹن گائے کا گوشت باہر ملکوں میں بھیجا گیا، بی جے پی سرکار نے چار سالہ دور حکومت میں گائے کے گوشت کے ایکسپورٹ پرپابندی لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور تحفظ گائے کے سلسلہ میں کوئی مناسب اور کارآمد ترکیب بھی نہیں کرسکی۔
1937سے لے کر1980تک ایک لاکھ بائیس ہزار ایک سو پچاسی ٹن بلکہ اس سے بھی زیادہ گائے کا گوشت بڑے اہتمام سے ہوائی جہازوں میں بھربھرکر ملک کے باہر بھیجا گیا اور یہ گوشت کچھ مردہ جانوروں کا نہیں تھا، بلکہ خالص گایوں کا تھا، بڑی بڑی کمپنیوں نے سڑکوں پر گھومنے والی بے ملکیت گایوں کو سستی اجرت پر جمع کرایا اور حلال کراکے گوشت کو صاف ستھرا بنا کر پوری احتیاط کے ساتھ باہر ملکوں کو سپلائی کیا گیا، نیز جلد ہی ارب پتی بننے کے لیے ہندوایکسپوٹرس نے اندھا دھند گایوں کا قتل مشینوں کے ذریعہ کرنا شروع کیا، تاکہ مال کو جلد از جلد اور بر وقت سپلائی کرکے کثیر منفعت حاصل کی جاسکے اور یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں گوشت کے ایکسپورڑرس غیر مسلم لوگ ہیں جو خلیجی ممالک کو بیوقوف بنانے کے لئے اپنی کمپنیوں کے نام ایسے رکھتے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ بحرحال برسوں کی یہ کارگزاری عرصہ دراز کے بعد عرب ممالک میں کھلی تو انہیں غیر حلال کا شبہ ہوا، لہٰذا انھوں نے ہندوستانی تاجروں سے گوشت کی خریداری بند کردی اور آرڈر منسوخ کردیئے اور مال کی ڈیلیوری پر پابندی لگادی۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستانی اخباروں میں جب یہ اطلاع چھپی تو گائے کے گوشت کے ہندوتاجر، ایکسپورٹرس اور ان کے ایجنٹوں کے ہوش اڑ گئے اور وہ حکومت ہند کے ساتھ عرب ملکوں میں سلامی دینے پہنچ گئے، لیکن عربوں نے یہ پتہ لگاہی لیا کہ ہندوستان سے جو گوشت آرہا ہے، اس میں حلال و حرام سب ہے، لہٰذا انھوں نے مال لینے سے انکار کردیا، اس میں حکومت کے معاشی دیوالیہ پن کا بڑا زبردست دخل رہایعنی گؤ کشی کا ممنوعہ قانون بنا کربھی گویا لوگوں کو بے وقوف بنانے کی ایک سازش رچی گئی تھی۔
بہر حال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذہبی شدت پسندوں کے دباؤ میں ہی1992میں یہ بل لایا گیا تھا اور اب اگر اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے تو اس کے پیچھے بھی شدت پسندوں کا دباؤ ہی کام کررہا ہے۔ ایسے میں مسلمانان ہند کو یہ محسوس کرنا چاہئے کہ گئو ذبحے پر پابندی کی ضرب مسلمانوں پر بہت کم پڑتی ہے جبکہ گائے کا گوشت کھانے اور بیچنے والے غیر مسلم برادران وطن اس سے کہیں زیادہ متاثر ہونگے۔ خود ملک کی معیشت بھی منفی طور متاثر ہوگی لیکن چونکہ گائے کا گوشت کھانا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ اور شرعی امر نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کو اس معاملے میں خاموشی اختیار کرلینی چاہئے اور کسی قسم کی کوئی مخالفت یا تحریک کھڑا کرنے سے اجتناب برتنا چاہئے اگر حکومت واقعی ملک گیر سطح پر گئو کشی کے خلاف کوئی قانون بنا دیتی ہے تو غالباً اس مسئلے پر سیاست کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ جن سائنسی اور فطری اصولوں کی دہائی دے کر آج یہ قانون بنایا جائے گا۔ انہیں اصولوں کی بنیاد دپر اگلے دس سالوں میں حکومت ہند خود مجبور ہوجائے گی کہ زراعت اور ماحولیات کو بچانے کے خاطر اپنے ہی بنائے ہوئے اس قانون کو واپس لے لے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔