گجرات پنچائیت کا جاہلانہ اورظالمانہ فیصلہ

مولانا محمدکلیم اللہ حنفی

چند دن پہلے کی تازہ خبر یہ ہے کہ گجرات کے نواحی علاقے جلال پور جٹاں کے گائوں ڈلو غربی میں پنچائیت نے جہالت اور ظلم کی انتہا کر دی ۔ لیاقت پر الزام تھا کہ اس نے بوٹا کی 7 سالہ بیٹی سے جنسی زیادتی کی ہے ، جس پر پنچائیت نے لیاقت کی شادی شدہ بیٹی ماریہ سے جنسی زیادتی کا حکم دیا اور ناکردہ جرم کے بدلے ماریہ کی عزت کو تار تار کر دیا گیا ۔ ماریہ نے دل برداشتہ ہو کر خود سوزی کر لی اپنی موت سے چند روز قبل میو ہسپتال میں پولیس کو دیے جانے والے بیان میں خاتون نے بتایا تھا کہ وہ جنسی زیادتی کے بعد حاملہ ہوگئی جس کے بعد اس نے خود کو آگ لگالی ۔
ہم حیران ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں گم ہوتے ہیں کہ پنچائیتوں میں اتنے بڑے بڑے جاہلانہ اور ظالمانہ فیصلوں پر عمل درآمد ہو جاتا ہے ہم ایک اسلامی اور جمہوری ملک کے باسی ہیں ہمارے ملک کا آئین خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے اسلام میں اسے وہ مقام حاصل ہے کہ جو کسی سماج اور دھرم میں نہیں ملتا چنانچہ اسلام آنے سے پہلے عورت معاشرہ میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بلکہ سماجی ومعاشرتی عزت وتوقیر اور ادب واحترام سے بھی محروم تھی۔عورت کا وجود دلہن کے سفید ماتھے پر سیاہ جھومر کے مترادف تھا۔ یونانی ،ایرانی تہذیبیں اوررومانی ثقافتیں اس کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھیں۔یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفوں نے عورت کو ’’شجرہ مسمومہ‘‘یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب ،بدکردار ،آوارہ اور ترش وتلخ گوباور کیا۔رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتلایا ہے تاریخ کے جھرونکوں میں آج بھی دھندلے سے الفاظ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’عورت کے لیے کوئی روح نہیں بلکہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔‘‘فارسی تمدن بھی اس سے ملتا جلتاتھا اس میں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی۔ہندی معاشرہ توآپ سے دور نہیں!! ویدوں کے احکام کے مطابق:’’ عورت مذہبی کتاب کو چھو بھی نہیں سکتی۔‘‘ ویسٹر مارک ہندی معاشرے کی منظر کشی اپنی کتابwaves of the histori of hindusمیں یوں کرتا ہے :اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھو لے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذااس کو پھینک دینا چاہیے۔‘‘عیسائی تصورات اور نظریات عورت کے بارے میں کیا تھے ؟ایک جھلک دیکھیے: ’’576ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس بلوائی جس میں پوپ اوربڑے بڑے پادریوں نے شرکت کی ،کانفرنس کے انعقاد کا سبب یہ سوال تھا کہ ’’عورت میں روح ہے یا نہیں؟ ‘‘اسی کانفرس میں ایک پادری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’عورت کا شمار بنی نوع انسانی میں بھی نہیں بالآخر کانفرنس اس نتیجے تک جا پہنچی کہ عورت صنفِ انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لیے۔ روزِ آخرت تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی اشکال میں ظہور پذیر ہوں گی۔لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیر تاباں جلوہ فگن ہوا ،قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکاتو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئیں، سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔اسلام؛ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’بیٹی؛بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی بھی کیوں نہ ہو۔‘‘ توقیرعورت کیلیے سب سے بڑا اعزاز ہے اسلام نے آکر عورت کوبے جا غلامی، ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دی۔ اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح بن کر آیا اور عورت کیلیے احترام کا پیامبر ثابت ہوا۔ اب اگر یہی عورت اگر ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا ،بیٹی ہوتو نعمت عظمیٰ۔ اگر رشتہ بہن کا ہوتو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہوتو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔آج نسوانی حقوق کیلیے گلے پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے ذرا اپنی تاریخ تو پڑھ لیں۔ اپنے مذہب اور دھرم میں صنف نازک کی مذہبی و معاشرتی ناقدری کو دیکھیں۔ یہ لوگ آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر عورت تک رسائی کی آزادی کے خواہش مند ہیں جبکہ اسلام عورت کو ایسے لوگوں بلکہ ایسی سوچ و فکر سے آزادی عطا کرتا ہے اور پرامن ،خوشگوار، پرسکون ،راحت بخش اور اطمینان والی زندگی گزارنے کے ایسے اصول فراہم کرتا ہے جن کی بدولت اس کی عزت و آبرو ، عفت و حیا اور پاکدامنی محفوظ رہتی ہو۔لیکن افسوس بلکہ صد افسوس ہمارے اس اسلامی جمہوری ملک میںخواتین کی عزت و توقیر اور آبرو مرغ پراں کی حیثیت بھی نہیں رکھتی، آئے دن خواتین کی تذلیل و بے حرمتی معمول بن گیا ہے ۔
ٍٍ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ پنچائیتوں میں وڈیرے شاہی کی بدولت نافذ ہونے والے ظلم و تشدد اور جہالت پر مبنی ہوتے ہیں ۔ معاشرتی برائیوں میں جنسی اور اخلاق باختہ ایسے جرائم جنم لے رہے ہیں کہ جنہیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔بعض دیہاتوں میں بنت حوا کے ساتھ مظالم کی خونچکاں داستانیں سننے اور دیکھنے میں آرہی ہیں۔کئی مجبور و مقہور ایسی بے گناہ خواتین ہیں جو ظلم و جبر کی چکی میں مسلسل پس رہی ہیں۔ غنڈوں ، وڈیروں ، عیاش جاگیرداروں اور بدقماشوں کی شیطنت نے ان کی عزت کو تار تار کر دیا ہے بالآخر بعض خواتین تو حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور بعض خود کشی اور خود سوزی کر لیتی ہیں۔ حکمرانوں کے امن سے تو حجاج کا ظلم اچھا تھا۔ جب ایک مظلوم و لاچار بیٹی نے سرد آہ لے کر اس سے فریاد رسی کی تو اس نے دیبل تک اور دیبل سے ملتان تک اپنی فوجیں اتار دیں بالآخر اس بہن کو انصاف اور امن مہیا کیا۔یہاں ہر روز کئی مظلوم بہنیں اس طرح کے مظالم کی بھینٹ چڑھتی ہیں ، ہر روز کئی حوا کی بیٹیاں روح سوزی کے جھٹکے برداشت کرتی کرتی خود سوزی کر لیتی ہیں ، ہر روز کئی خواتین اپنے جسم نہ سہی لیکن اپنی زندگی بھر کی خوشیوں کو آگ لگا لیتی ہیں ، ہرروز کئی مظلوم صنف نازک اپنے مستقبل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے مایوسی کے ایندھن میں جھونک دیتی ہیں۔ کئی بے گناہ اور بے بس خواتین ہیں جو روز جیتی ہیں اور روز مرتی ہیں۔اے کاش !وہ دن ہم بھی دیکھ لیں جب وطن عزیز میں میری بہنوں کو خوشیاں ملیں ،انصاف ملے ،تعلیم ملے اور ان کے دل سے خوف اور وحشت دور ہوسکے۔اس حوالے سے حکمرانوں کی یہ انتظامی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مظلوم طبقے کو بنیادی حقوق دے اور اس کی عزت وآبرو کا خیال رکھے ، اور ان کو وڈیروں ،عیاش جاگیرداروں اور نوابوں کے ستم اور مظالم سے آزادکرائیں۔تاکہ دوبارہ گجرات پنچائیت جیسے دل سوز سانحات پیش نہ آئیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔