گجرا ت: فرقہ وارانہ سیاست اور ہماری ذمہ داری

 ڈاکٹر عابدالرحمن

  گجرات اسمبلی انتخابات قریب تر ہوتے جا رہے ہیں ،بی جے پی اپنا اقتدار بنائے رکھنے کے لئے تمام تر سیاسی چالیں چلتی نظر آ رہی ہے اور خالص غیر سیاسی اشوز کو بھی سیاسی رنگ دیتی نظر آرہی ہے۔ گجرات کا یہ انتخاب پچھلے کئی انتخابات سے مختلف ہے جن میں مودی جی نے اپنے تمام مخالفین کو چاروں شانے چت کر اقتدار پر اپنی گرفت بتدریج مضبوط ترین کر لی تھی۔ مودی جی نے ریاست میں کوئی مخالفت باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کانگریس تو سمجھئے مقابلہ میں ہی نہیں رہی تھی کبھی مودی جی سے بغاوت میں کوئی علاقائی پارٹی بنی بھی تو وہ مودی جی کے خلاف ٹک نہیں سکی۔ لیکن ا س بار حالات مختلف نظر آرہے ہیں جس کے لئے ریزرویشن معاملہ میں گجرات کے پٹیلوں کی مودی سرکار سے ناراضی بلکہ بغاوت اور جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے گجرات کے بیوپاریوں کو ہونے والی پریشانی اور ہراسانی خاص طور سے ذمہ دار ہے حالانکہ بی جے پی نے بہت سی اشیا کی جی ایس ٹی شرح کم کردی ہے لیکن اسے بھی ’ گجرات میں پھٹی تو جی ایس ٹی گھٹی ‘ سے تعبیر کردیا گیا۔

اسی طرح ہاردک پٹیل کی سی ڈی کے معاملہ میں بھی بی جے پی ہی کٹگھرے میں کھڑی نظرآ رہی ہے لوگ اس معاملہ میں ہاردک سے زیادہ بی جے پی کو لعنت ملامت کر رہے ہیں ۔جی ایس ٹی، نوٹ بندی، پاگل وکاس، پٹیداروں کا احتجاج اور اس سب کے چلتے راہل گاندھی کی سنجیدگی ذمہ داری اورسیاسی پختگی اور ساتھ ہی ساتھ اور مندروں کے دوروں اور آرتیوں پوجا پاٹ اور تلک کی نمائش کے ذریعہ ہندوتوا یا نرم ہندوتوا سیاست کی طرف پیش قدمی دراصل ایک چکر ویو ہے جس میں بی جے پی پھنستی نظر آ رہی ہے حالانکہ ان حالات میں بھی  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب بی جے پی کی شکست کا سامان ہے۔ بی جے پی کے پاس اس چکرویو کو توڑنے کا آزمودہ نسخہ ہے اور وہ ہے ’مسلم مخالف فرقہ واریت ‘ اوربی جے پی نے اس کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔

 پچھلے دنوں گجرات کے وزیر اعلی نے یہ اعلان کیا کہ’ گجرات میں نیشنلزم بی جے پی کے لئے سب سے بڑا اشو ہے جس طرح یوپی میں تھا ‘ (scroll.in14/11/2017)اور یہ کون نہیں جانتا کہ بی جے پی کا نیشنلزم دراصل مسلم مخالف فرقہ واریت پر مبنی ہے اور جب سے بی جے پی کو مرکزی اقتدار نصیب ہوا ہے اس نیشنلزم بنام دیش بھکتی میں کافی شدت سے ابال آیا ہے اب یہ نیشنلزم آگے بڑھ کر بی جے پی ازم ہوگیا ہے کہ جو بھی اس کے نظریہ یا اس کی پالسی کے خلاف بولے چاہے وہ صحیح واجبی اور ضروری ہی کیوں نہ ہواس کی دیش بھکتی مشکوک قرار دے کر اسے ڈائریکٹ انٹی نیشنل قرار دیا جارہا ہے۔

اسی طرح حال ہی میں ایک خبر یہ بھی آئی کہ گجرات میں ایک یسا ویڈیو سوشل میڈیا میں گشت کر رہا ہے جس کی شروعات اس کیپشن سے ہوتی ہے کہ ’گجرات میں ۷بجے کے بعد ایسا ہو سکتا ہے ‘کیا ہو سکتا ہے وہ اس ویڈیو میں یوں دکھا یا گیا ہے کہ نو عمر لڑ کی بہت عجلت میں ایک عوامی راستہ طئے کر رہی ہے اور بیک گراؤنڈ میں اذان کی آواز رہی ہے دوسری طرف گھر میں اس کے ماتا پتا بے چینی سے اسکا انتظار کر رہے ہیں ، گھر میں کرشنا کی مورتی بھی دکھائی دے رہی ہے، جیسے ہی لڑکی گھر پہنچتی ہے اسکی ماں اسے گلے لگالیتی ہے اور باپ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے کہ بائیس سال پہلے گجرات میں ایسا ہی ہوتا تھا اور اب اگر وہ لوگ اقتدار میں آگئے تو پھر ایسا ہی ہوگاجس پر لڑ کی کہتی ہے کہ پریشان مت ہوئیے کوئی نہیں آئے گا کیونکہ یہاں موی ہے‘ ویڈیو کا اختتام اس کیپشن پر ہوتا کہ’ اپنا ووٹ اپنی حفاظت‘۔ ( انڈین ایکسپریس ن لائن ۱۷نومبر ۲۰۱۷) یعنی ترقی گڈ گورننس بلیٹ ٹرین اور وکاس کا عویٰ کر نے والی بی جے پی اپنی اوقات پر آگئی گجرات کی ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے ڈرا کر ان کے ووٹ اپنے حق میں کیش کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ گجرات سے باہر بھی مسلمانوں کے خلاف ہندو شدت پسندوں کی جو کارروائیاں ہو رہی ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بھی گجرات الیکشنس کے پس منظر میں ہی ہو رہی ہیں ۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے راجستھان میں ایک تنظیم ہندو اسپرچول اینڈ سروس فاؤنڈیشن(Hindu Spritual and Service Foundation  ) نامی تنظیم نے ایک ۵ روزہ میلہ منعقد کیا تھا جس میں لو جہاد، ہندو راشٹر اور رام مندر کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار کر نے والی کتابیں اور پمفلیٹ بیچے اور مفت تقسیم کئے گئے اور خاص بات یہ کہ سرکاری شعبہء تعلیم نے سرکاری اسکولوں کے طلباء کو اس میلے میں شرکت کر نے کا حکم جاری کیا۔ اسی طرح حال ہی میں راجستھان میں گؤ رکشا ے نام ایک اور مسلم شخص کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اسی طرح یوپی میں تین مسلمانوں کو مار پیٹ کر کے چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا۔یہ ساری باتیں دراصل پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اکسانے اورخاص طور سے گجرات الیکشنس میں انہیں ووٹوں کی صورت کیش کر نے کی انتہائی گندی سیاست ہے جو اگر با ضابطہ طور پر بی جے پی نہیں بھی کر رہی ہے تو اس سے فائدہ بی جے پی کو ہی ہونے والا ہے یعنی جو کوئی بھی کر رہا ہے وہ اس لئے کر رہا ہے کہ بی جے پی کو فائدہ پہنچے۔ اب دیکھئے گجرات میں مسلمان سیاسی طور پرکوئی اشو ہی نہیں ہیں نہ بی جے پی کے لئے اور نہ ہی اس کے مخالفین کانگریس اور ہاردک پٹیل کے لئے۔ لیکن سیاست ہورہی ہے ہمارے ہی نام سے، ہمارے ہی بہانے سے اور ویسے بھی ملکی سیاست میں ہمیں ایسا اشو بنادیا گیا ہے کہ ہمارا نام آئے تو ہندو ترقی وکاس اور ریزرویشن وغیرہ سب کچھ بھول کر بی جے پی کی طرف چلے جاتے ہیں ۔

 سو ان حالات کو کنٹرول سے باہر ہونے سے روکنے کے لئے ہماری ذمہ اری بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلم مخالف فرقہ وارانہ سیاست کا یہ دا ؤاسی وقت زیادہ کامیاب ہوتا ہے جب ہم مسلمان اس کے خلاف شور مچانا شروع کردیتے ہیں میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس کے خلاف لمبی لمبی بحثیں کر نے لگتے ہیں اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر نے کے لئے یا اپنے لوگوں کو’ جگانے‘ کے لئے یا اس گندی سیاست کی ’پول کھولنے ‘  کے لئے اس طرح کے پیغامات کو اپنی کمینٹس کے ساتھ سوشل میڈیا میں شیئر کر کے پوری دنیا میں پھیلانے کا سامان کر تے ہیں اور پھر اس سیاست کے ایجنٹ ان پیغامات کو ہماری کمینٹس کے ساتھ مزید مرچ مسالہ لگا کر دوبارہ پھیلاتے ہیں اوراس طرح انہیں ہندو اکثریت کو ہمارے خلاف مزید اکسانے کے لئے خود ہمارا ہی تیار شدہ آسان اور مزید کارگرحربہ مل جاتا ہے، جس سے ہند ووٹ مزید متحرک ہو کرخود بخو ان فرقہ وارانہ سیاست کر نے والی پارٹیوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ گجرات کے انتخابات میں یہ سب نہ ہو اس کے لئے ہمیں انتہائی ذمہ داری سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ میڈیا سوشل میڈیا اور عام بول چال کے ذریعہ مسلم فرقہ واریت یا اس پر اپنے ردعمل کو پھیلنے سے روکنے کی بھر پور کوشش کر نی چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ سیاسی پارٹیاں یہ بھی چاہتی ہیں کہ جس لہجہ میں وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتی ہیں مسلمانوں میں سے بھی کوئی اٹھے اور اسی لہجے میں ان کے خلاف بولنے لگے تاکہ ایک طرف ہندو، مسلمانوں کو خطرہ سمجھ کرہندوتوا کا جاپ کرنے والے ان لوگوں کو اپنا محافظ سمجھیں اور سیدھے ان کے خیمے میں چلے آئیں اور دوسری طرف مختلف پارٹیوں میں بٹے مسلمان اپنی طرف سے بولنے والے کی طرف جھک کر مزید تقسیم ہو جائیں ۔ سو ہمیں ان کی اس چال کو بھی ناکام کر نے کا سامان کرنا چاہئے،اور اس کے لئے خود بھی جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا اور اپنے مفادات اور مسلم ووٹ بنک کی سیاست کر نے والوں کی اشتعال انگیز باتوں کو بھی رد کر نا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔