خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

خواتین پر ظلم وستم کی روک تھام کے حوالے سے ہرسال 25 نومبر کو صنف نازک پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایاجاتاہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 25 نومبر 1960ء میں ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے جابر وظالم حکمراں رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں کو قتل کردیا گیا تھا؛جو ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔ 17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا، اور اب دنیا بھر مختلف ممالک میں 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا، انہیں ہر طرح کا تحفظ مہیا کرنا اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے سولہ روزہ تقریبات کا بھی آغاز ہوتا ہے ؛جس کا اختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر عمل میں آتا ہے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالمی تحریک کے باوجود دنیا کے بہت سارے ممالک میں خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاپارہی ہیں، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 33 فیصد اور یورپ میں 12 سے 15 فیصد خواتین روزانہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ؛ جبکہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی یا ذہنی طور پر بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1820 میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے تاہم دُنیا کے کئی ممالک میں اِس جرم کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ملکوں میں میانمار بھی شامل ہے، جہاں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ زیادتی کے مرتکب حکومتی فوجیوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی، میانمار میں زیادتی کی شکار خواتین کی مدد کے لئے قائم تنظیم SWAN کی کارکن Hseng Nouong Lintner بتاتی ہیں کہ میانمار میں قائم فوجی حکومت کے ارکان روزانہ انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کرتے ہیں ؛ کیونکہ جس خاندان کی کوئی خاتون اِس زیادتی کا نشانہ بنتی ہے، وہ بعد میں گھر بار چھوڑ کر وہاں سے کہیں اور چلی جاتی ہے۔ اِس طرح میانمار کی فوج ہر ہر علاقے کوانسانوں سے خالی کروا رہی ہے۔

تقریبا پندرہ سال پہلے قائم ہونے والی SWAN نامی تنظیم کی طرف سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق چھ سال کے عرصے کے اندر اندر صرف میانمار میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 625 ٹھوس واقعات ریکارڈ میں لائے گئے اور جو غیر محفوظ ہیں ان کی تعدادتو شمار سے باہر ہے۔

تحریکِ حقوق ِنسواں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہر سال صنف نازک پر جسمانی تشدد، نفسیاتی استحصال، غصب شدہ حقوق اور صنفی عصبیت کا نگر نگر واویلا کرتی ہے۔ عظیم الشان فیو اسٹارہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ ہیں ؛مگر تعصب کے دبیز پردوں کو چاک کرکے غیرجانب دارانہ طور پرتجزیہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ اسلام نے 1400 سال پہلے عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اور حقوق نسواں کے تحفظ کا جو آسمانی بل پیش کیا ہے اسکی مثال لبرل، سیکیولر، نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور این جی اوز تاقیامت پیش کرنے سے قاصرہیں اور رہیں گے۔

اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطاکیا ؟قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔

 آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقائق سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے، ؛ کیوں کہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف ِحقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں۔

عورت کی چار حیثیتیں :

اسلام نے عورت کو جہاں ذلت و رسوائی کے قعرعمیق سے نکال کر اعلیٰ وارفع مقام عطا کیا، وہیں بہت سے حقوق و فرائض سے بھی نوازا۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جو کل تک عورت کو بے حیثیت سمجھتے تھے، اسلام کی آمد کے بعد عورت کے متعلق بات کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ؛اسی لئے اسلام ہی بجا طور پر اس کا مستحق ہے کہ اسے فطرت انسانیت کاشاہ کاراورعدل و مساوات کا علم بردار قرار دیاجائے۔

مجموعی طور پر صنف نازک کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی چار حیثیتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں :  ۱)ماں  ۲)  بہن  ۳)  بیوی  ۴)بیٹی

اسلام نے ماں کی حیثیت سے عورت کا مقام اس قدر بلند کیا ہے کہ معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں میرے والد حاضر ہوئے کہ یا رسول اﷲ ﷺمیں چاہتا ہوں کہ جہاد کروں اور آپؐ سے مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماں زندہ ہے ؟ عرض کیا کہ زندہ ہے، تو آپؐ نے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ رہو، اس لیے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔ (نسائی)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ تو آپ ؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ تیری والدہ اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرے والد۔ (بخاری)اس روایت سے معلوم ہوا کہ باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت و مرتبہ استحقاقِ خدمت میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ماں کافر بھی ہو تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ حضر ت اسماء نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺمیری والدہ اسلام سے نفرت کرتی ہے اب وہ میرے پاس آئی ہے، وہ میرے حسن سلوک کی مستحق ہے یا نہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔ (بخاری)رسول اکرمؐؐ نے ایک صحابیؓ کو والدہ کے بعد خالہ کے ساتھ ماں کے برابر حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ (مسند احمد)

قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا وہیں بہ طور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے۔ بہ طور بہن، عورت کی وراثت کا حق بڑی ہی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ذکر فرمایا۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے، وہ جنت کا حق دار ہوگا (ترمذی)

 اسلام کی آمد سے پہلے بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بل کہ اسے وراثت کا حق د ار بھی ٹھہرایا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔

ارشاد ربانی ہے ‘‘ اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو، اور اﷲ نے اس میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھی ہو’’۔ (سورہ نساء)

رسول اکرمؐ نے  بیوی سے حسن سلوک کی تلقین وتاکید فرمائی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی ازواج مطہرات کی عملی طور پر بہت سے مواقع پر دل جوئی فرمائی۔ رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ کبھی دوڑ لگا رہے ہیں او ر کبھی ان کو حبشیوں کے کھیل (تفریح)سے محظوظ فرما رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ سفر میں تھیں، فرماتی ہیں کہ میں اور آپؐ دوڑے، تو میں آگے نکل گئی تو پھر دوبارہ جب میں اور آپؐ دوڑے، تو آپؐ آگے نکل گئے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے تُو پہلے آگے نکل گئی تھی۔ یعنی اب ہم برابر ہوگئے۔ (ابوداؤد)

اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خواتین کے انفرادی حقوق، عائلی حقوق، ازدواجی، معاشی اور دیگر حقوق کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ اسلام ہی نے عورتوں کو عزت و تکریم عطا کی، عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار ہے، وہ اپنے نام جائیداد خرید سکتی ہے اور اپنی ملکیت میں رکھ سکتی ہے، اسے اپنے خاندان، خاوند اور دوسرے قریبی رشتے داروں سے وراثت میں حصہ ملتا ہے، جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کے ذریعے نکاح تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے۔

اسلام نے انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے خواتین کوجوحقوق دیے ہیں ان کی پاس داری ہمارا اولین مذہبی فریضہ ہے۔

 آزادیٔ نسواں کا فریب ایک تشدد :

دورحاضرمیں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑ ی مخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے وہ اشتہاری کمپنیوں کا جز ء لاینفک ہے، بلکہ یہاں حالت اس درجہ ابتر ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گیا ہے، اورمردوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون سے اسے ایک کھلونا بنالیا ہے۔

عصر حاضر میں عورت نے جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں بحیثیت ریسیپشن، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، مخلوط تعلیم گاہوں میں بحیثیت طالبات اور ٹیچرس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھادیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس ناک نگاہوں کا مرکز بن گئی، فحش رسائل واخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کرکے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کرکے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ جس کی نظر آج کی فحاشیت وعریانیت پر ہے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا، نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ آزادی کے عنوان سے عریانیت کے کون سے رسواء کن مناظر پیش نہیں کئے جاتے، اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت وتکریم اور اس کے حقوق کی بازیابی ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت وآبروپر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

یاد رہے کہ یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اس میں مردوں کی کشش کا سامان، ابھرتی جوانی کی بہار، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب وکباب کی رونق رہتی ہے، لیکن جب اس کی جوانی میں پژمردگی آجاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے، بازاروں میں اس کی قیمت لگنی بند ہوجاتی ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ کافرمعاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کوچھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔

یہ ہے آزادیٔ نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام، آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقمطر از ہے :وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت وثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کرکے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات وروابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے۔

خواتین پرتشدد کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے نام:

جو لوگ آزادیٔ نسواں، مساوات مرد و زن اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور صحیح انداز میں عورتوں کو ان کے اسلامی حقوق دلواناچاہتے ہیں تو ان کا فرض صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ سال بھر میں ایک بار جلسے جلوس کی چہل پہل دکھادیں، چند دانشوروں کو بلاکرکسی بزم میں تقریریں کروادیں، خواتین کے تحفظات پر کوئی لٹریچر شائع کروادیں ؛بل کہ یہ تو ادائے فرض کی صرف تمہید ہے، کتاب کا فقط دیباچہ ہے، عمارت کی محض بنیاد ہے۔ یہاں پہنچ کر بے ساختہ علامہ اقبالؒ کا یہ شعرنوک قلم پر آجاتا ہے :

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں، معذور ہیں، مردان خرد مند

کیا چیز ہے  آرائش وقیمت میں زیادہ

آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند

تبصرے بند ہیں۔