عمران پرتاپ گڑھی شاعر یا مقرر؟

لقمان عثمانی

18 نومبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کی تاریخی سرزمین پر، اوکھلا ودھان سبھا کے ایم ایل اے ―جناب امانت اللہ خان صاحب― کی جانب سے ہر سال کی طرح اس سال بھی مشاعرے کا انعقاد ہوا؛ جس میں گلزار دہلوی، حق کانپوری، الطاف ضیا، معین شاداب، خورشید حیدر، وارث وارثی جیسے نامور شعراء، ابرار کاشف جیسے مدیر مشاعرہ و عمران پرتاپ گڑھی جیسے لچھے دار مقرر کی تشریف آوری تھی اور ساتھ ہی مہمان خصوصی کے طور پر، دہلی کے چیف منسٹر ―جناب اروند کیجریوال صاحب― کو بھی مدعو کیا گیا تھاـ

جب میں نے ان قابل و مقبول شعرا کا نام اشتہار میں دیکھا تو میرے ذوق ادب و شوق غضب نے مجھے بھی دہلی جانے و مشاعرے میں شرکت کرنے کیلیے ابھارنا شروع کر دیا، لیکن میں خود کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کہ: "جب نیٹ پر آجائے گا تو سن لونگا”؛ لیکن بس! "دل ہیکہ مانتا نہیں "ـ

ابھی میں خود کو سمجھانے کی ناکام کوشش کر ہی رہا تھا کہ ادھر سے میرے رفیق درس ―مولوی محمد اسامہ مونگیری― کا فون آگیا؛ "علیک سلیک” اور پھر سب سے پہلا سوال یہی کہ: "مشاعرے میں چلنا ہے”؟ اب اندھے کو کیا چاہیے؟ "دو آنکھیں "، اور بھوکے کو کیا چاہیے؟ "دو روٹی” ـ

پہلے تو "نا، نا”ہوتا رہا؛ پھر مل ملا کر "ہاں ” ہوگیا اور سارے منصوبے بھی تیار ہوگئے ـ

ٹرین کا وقت ہوا تو بے سر و سامانی کی حالت میں ہی اسٹیشن کی طرف اس طرح قدم رنجہ ہوئے جیسے کوئی سفر نہیں بلکہ دارالعلوم کے احاطۂ مولسری میں پانی پینے جا رہے ہوں ؛ کیوں کہ کسی سمجھدار شاعر نے کہا ہیکہ:

منزل کا ارادہ ہے تو کچھ ساتھ نہ لینا

دورانِ سفر رختِ سفر تنگ کرے گا ـ

بالآخر دہلی میں کسی ساتھی کے پاس پہنچا، فریش ہونے کے بعد کھانا کھایا اور مشاعرے کا وقت شروع ہوتے ہی تمام ساتھیوں کے ساتھ جامعہ کا رخ کیا ـ

مشاعرہ شروع ہو چکا تھا، ابرار کاشف صاحب اپنے خوبصورت انداز میں نظامت فرما رہے تھے، تمام شعرا و شاعرات تشریف لا چکے تھے، جناب اروند کیجریوال صاحب بھی اسٹیج پر براجمان تھے، سب کچھ مشاعرے جیسا ہی چل رہا تھا؛ لیکن جس وقت الطاف ضیا صاحب مائک پر کھڑے، اپنے عمدہ و مترنم لب و لہجے اور اپنی شاندار و جاندار شاعری کے ذریعہ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کررہے تھے اسی وقت اسٹیج کے پیچھے سے اک شور بپا ہوا اور مجمع میں عجیب سی ہلچل مچنے لگی اور یہ سب اس دھواں دھار مقرر کی آمد پر ہو رہا تھا، جسے عمران پرتاپ گڑھی کہتے ہیںـ

عمران پرتاپ گڑھی کی اس شاہانہ انٹری نے الطاف ضیا کی شاعرانہ سنچری پر پانی پھیر دیا اور لوگوں کی تمام تر توجہات کے وہ تنہا محور بن گئے ـ

آپ سوچ رہے ہونگے کہ: میں انہیں بار بار مقرر کیوں کہہ رہا ہوں ، جبکہ وہ تو اک شاعر ہیں ـ

در اصل وہ شاعری کم اور تقریر زیادہ کرتے ہیں نیز لوگ انہیں اب بطور شاعر نہیں ، بطور مقرر بلاتے ہیں ؛ جس کا احساس مجھے اس وقت بھی ہوا جب امانت اللہ صاحب نے لوگوں کے ابلتے ہوئے جذبات پر قابو پانے اور انکی کھل بلی کو کم کرنے کیلیے اعلان کرتے ہوئے یہ کہا کہ: "آپ لوگ سکون سے بیٹھ جائیں ، ابھی تو ہمیں عمران کو بھی سننا ہے اور کیجریوال صاحب کو بھی”ـ

ساتھ ہی عمران کے تئیں کیے جانے والے امتیازی آؤ بگھت و خاطرداری سے بھی صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسکو دیگر بڑے بڑے شعرا پر فضیلت دی جا رہی ہے، بلکہ شعرا کی صف سے نکال کر سیاسی لیڈر کی صف میں شامل کیا جا رہا ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پورا اسٹیج صرف اسی کیلیے سجایا گیا ہے ـ

خیر! کچھ دیر تک تو یہی سب چلتا رہا، پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد عمران صاحب کو مائک پر بلایا گیا ـ

وہ آئے تو جانا بھول گئے تھے شاید اور دو گھنٹے تک مسلسل اپنے پرانے موضوع: "حالات حاضرہ” پر نیا نیا کلام پیش کرتے اور ساتھ ہی اپنی عادت کے مطابق بھاشن بھی دیتے رہے ـ

مزا تو مجھے بھی بہت آرہا تھا؛ کیوں کہ انکی شاعری کا تو نہیں ، پر انکی تقریر کا مداح میں بھی ہوں ؛ لیکن  ساتھ ہی مقصد کے فوت ہونے پر غصہ بھی آرہا تھا؛ کہ آیا تو تھا یہاں مشاعرہ سننے، مگر یہاں تو جناب کی ریلی نکلی ہوئی ہے ـ

جو دوسرے شعرا تھے، وہ تو بیچارے اس طرح سر لٹکا کے بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں بلایا ہی نا گیا ہو اور وہ زبردستی مشاعرے میں چلے آنے پر پشیماں بھی ہوں ـ

جناب نے دو گھنٹے کے بعد جب مائک سے ہٹنے کی زحمت گوارا کی، تو پھر کیجریوال صاحب کا نمبر آیا اور انہوں نے کہا کہ: میں عمران کے بعد اب کیا بولوں ؛ جو مجھے بولنا تھا وہ تو انہوں نے بول ہی دیا…………. وغیرہ وغیرہ! ـ

کچھ بہت لوگ جو عمران کے بعد بچے تھے، کیجریوال صاحب کے بعد وہ بھی جانے لگے، کیوں کہ وہ مشاعرے میں بھاشن ہی سننے گئے تھے ـ

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مشاعرہ عمران سے عمران تک ہی تھا، اب مشاعرہ ختم ہوچکا ہے؛ لیکن پھر بہت مشکل سے سب کو دوبارہ بٹھایا گیا اور مشاعرے کو آگے بڑھایا گیا ـ اسکے بعد ہاشم فیروز آبادی صاحب آئے اور انہوں نے عمران کو خوب لوٹا اور مذاق مذاق میں ہی انہوں نے بہت سارے طنزیہ کلمات بھی کہے ـ

لیکن مشاعرے کا "دی اینڈ” اتنا برا نہیں رہا اور کچھ ہی دیر کے بعد مشاعرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بحال ہوگیا ـ

ویسے بھی شاعری اور موسیقی ایسی چیزیں ہیں جس کا صحیح لطف اخیر حصے میں ہی آتا ہے:

ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں

کچھ رات ڈھلے ساقی مئے خانہ سنبھلتا ہے

اور پھر ابرار کاشف کی نظامت ―جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں ―، معین شاداب صاحب کی طلسماتی شاعری، گلزار دہلوی صاحب کی ساحری، خورشید حیدر صاحب کی سخن طرازی، وارث وارثی صاحب کی نغمہ پردازی اور الطاف ضیا صاحب کی نغمہ سرائی نے مشاعرے کو نئی زندگی بخش دی اور اسکے بگڑے ہوئے رنگ ڈھنگ کو صحیح موڑ دے دیا بلکہ میں تو کہونگا کہ مشاعرے کا صحیح حق بھی ان حضرات نے ہی ادا کیا، ساتھ ہی یہ احساس بھی کرا دیا کہ چار گھنٹے کے اس پروگرام میں دو گھنٹے ریلی کیلیے تھے اور دو گھنٹے مشاعرے کیلیے؛ لیکن غلطی سے دونوں کا نام "مشاعرہ” ہی رکھ دیا گیا تھا، یا پھر یوں کہیے کہ عمران صاحب لوگوں کو بیوقوف بنا تے ہوئے، مشاعرے میں ہی بھاشن دے کر چلے گئے  اور افسوس کی بات تو یہ ہیکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ان میں شامل ہوتے ہیں : "جو دیدہ ور ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا” ـ

آخر غلطی کس کی ہے؟ آیا عوام کی غلطی ہے کہ وہ مشاعرے کے ادبی اسٹیج پر ہونے والی ایران تران کی باتوں کو ہی پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی سلیقے کا شعر سنائے بھی تو انہیں پسند نہیں آتا؛ یا پھر ان شعرا کی غلطی ہے، جنہوں نے مشاعرے کو اپنا اسٹیج بنا کر مشاعرے کے بنیادی مصقد کے خلاف کام کرنے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے؟

یقینا عمران پرتاپ گڑھی ایک قابل انسان ہیں ، تاریخ کے شہسوار و حالات حاضرہ کے شہکار ہیں ، کل ہوئے حادثے کو قلم کے آبشار میں بہا دینا انکا فن ہے اور انکی قابلیت کی دلیل بھی، اور ان کے اسی ہنر نے مجھے بھی اپنا گرویدہ و دلدادہ بنایا ہوا ہے؛ لیکن جب وہ مائک پر آتے ہیں تو انہیں خود کو دوسرے شعرا سے ممتاز نہیں سمجھنا چاہیے، انہیں تقریر سے زیادہ اپنی شاعری پر دھیان دینا چاہیے؛ کیوں کہ وہ شاعروں کا اسٹیج ہوتا ہے، مقرروں کا نہیں ـ

نکلنے کو تو دل کی آرزو اے نازنیں نکلی

مگر جیسی نکلنی چاہئے ویسی نہیں نکلی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔