گرمائی تعطیلات کو کار آمد بنائیے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

 موسم ِ گرما میں عصری اسکولوں کی سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور تقریبا دیڑھ دو مہینہ کی طویل تعطیلات کاسلسلہ رہتا ہے۔کالجوں میں زیر تعلیم طلباء کو بھی فرصت کے لمحات میسر ہوتے ہیں اور فراغت کی گھڑیاں حاصل رہتی ہیں، سال بھر عصری اسکولوں اورکالجوں میں انگلش ، تلگو اور دیگرمیڈیم میں ہمارے طلباء تعلیم پاتے ہیں، اور صبح سے شام تک ایک نظام کے تحت ان کے شب وروز اور اوقات گزرتے ہیں، اسکولوں کا اپنا ایک نصاب ہوتا ہے، اسی کی پڑھائی ہوتی ہے، ان اسکولوں میں دینی تعلیم حاصل کرنے اور دینیات سے واقفیت پیدا کرنے مواقع اکثر میں ہوتے ہی نہیں ہیں اور جہاں اس کا نظام ہوتا ہے وہ بھی مختصر اور معمولی ہوتا ہے، نیزوہ اسلامی تربیت پر بھرپور توجہ بھی نہیں دیتے، اگرچہ اس وقت بعض اسکولوں کا قیام عمل میں آرہا ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور وہ ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے جب کہ دوسری طرف بڑی تعدا د ایسے اسکولوں کی ہے جہاں دین اور دینیات نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ تہذیب اور ثقافت اور اخلاق وکردار جیسے قیمتی جوہر سے آراستہ کرنے کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی ہے۔

 چھٹیوں کا یہ موسم اور تعطیلات کے یہ ایام ایک عظیم نعمت ہے، ان کا صحیح استعمال کرکے ہم بچوں کو دینی تعلیم وتربیت سے بہترین انداز میں آراستہ کرسکتے ہیں۔ تعطیلات کی قدر دانی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دینی فکر کریں، اچھی تعلیم، معیاری سہولتوں کے لئے ہزاروں، لاکھوں روپئے خرچ کرکے عصری اسکولوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور سال بھر اسکول کی تعلیم پر خوب محنت کی اور کروائی جاتی ہے، بہتر نتائج کے حصول کے لئے پڑھائی پر بہت زور دیا جاتا ہے،دنیا کی ہر مصروفیت سے دوررکھ کر صرف تعلیم پر ہی توجہ رکھی جاتی ہے۔ تو کیا ہم چھٹیوں کے اس زمانہ کوا ن کی دینی تعلیم کے لئے استعمال نہیں کرسکتے؟کیاہماری غیرت ِ ایمانی کا تقاضا نہیں ہے کہ ہمارے بچے بھی اسلامی سانچے میں ڈھل کر اور تعلیمات ِ نبوی سے آراستہ ہوکر پروان چڑھیں ؟اگر دنیا میں قابل بنانے، اعلی ڈگریاں، بلند عہد ے کے لئے ہم جد وجہد کرسکتے ہیں اوراپنی تمام تر توانائیوں کو کھپا سکتے ہیں تو اس سے بڑا اور اہم مسئلہ آخرت کا ہے، کہ آخرت کی حقیقی زندگی کو کامیاب بنانے اور والدین کے گزرجانے کے بعد بھی اولاد صحیح راستہ پر گامزن رہے تو اس کے لئے لازمی طور پر دینی تعلیم وتربیت کی فکر کرنا ضروری ہے۔

ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ موجود ہ نظام ِ تعلیم کو کن اصولوں پر ڈھا ل کر تیار کیا گیا اور ان کے پیچھے کیا عزائم کارفرما ہیں ؟آج اگر چہ تعلیم کی ظاہری روشنی سے دیہات کی تاریک فضاؤں میں بھی روشنی پھیل چکی اور غریب کے گھر میں بھی اجالا آچکا مگرباطن بد اخلاقیوں سے تیرہ وتار ہورہا ہے، اخلاق و کردار، انسانی ہمدردی و خیر خواہی کے جذبے مفاد کی تہہ میں دبے جارہے ہیں اورتہذیب و ثقافت پامال ہورہی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان کا ایمان و عقیدہ متزلزل ہورہا ہے اور دین و تعلیمات ِ اسلام میں شکوک و شبہات نظر آرہے ہیں، اسلاف واکابر کی قربانیاں بے کار دکھا ئی دے رہی ہیں، ان کے کارنامے اور اسلام کے تحفظ و دین کی اشاعت کے لئے ان کی محنتیں بے سود معلوم ہورہی ہے، یہ در اصل موجودہ نظام ِتعلیم اور اسلام کے خلاف منصوبہ بند ذہن رکھنے والے افراد کی کوششیں ہیں جو آج پوری کامیابی کے ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کررہی ہیں۔ اور اس بات کو بھی پیش ِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمارے ملک کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے، ملک کو خاص رنگ میں رنگنے اور یہاں کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو ختم کرکے یکساں نظام کو قائم کرنے کوشش کی جارہی ہے، اسکولوں میں یوگا، سوریہ نمسکار، وندے ماترم، وغیرہ کو ضروری قرار دینے کی بھی سعی چل رہی ہے، اور عقیدہ ٔ توحید کو متزلزل کرنے والے نظریات اور افکار کو عام کرنے کی مستقل جد وجہد جاری ہے، آنے والے دنوں میں مذموم عزائم کی بنیاد پر وطن عزیز کا نقشہ بدلنے کے خواہاں ہیں، ایسے پرُ خطر حالات میں ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کی فکر کریں، ایمان و اسلام کی امانت کو ان تک پہنچانے میں کسی قسم کی لاپرواہی کا مظاہر ہ ہونے نہ دیں، ورنہ نظام و نصاب کی تبدیلیاں کہیں ایمان و عقیدہ کو تباہ کرنے والی نہ بنیں۔

 اس لئے یہ ضروری ہے گرمائی تعطیلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم دلانے کا منظم انتظام کریں، گرمائی تعطیلات کے پیش ِ نظر مختلف مقامات پر ’’سمر کیمپس ‘‘ چلائے جاتے ہیں، ان سے استفادہ کرنا چاہیے، قریب میں مکتب ہوتو وہاں بجھوائیں، مدرسہ ہوتو اس میں جزوقتی تعلیم کے لئے شریک کروائیں، مسجد میں دینی تعلیم ہوتو اس میں ضرور شریک کروائیں، وقت بہر حال کسی بھی طرح گزرجائے گا، چاہے اس کو فضول چیزوں میں گزاراجائے، تفریح و دل لگی میں بسر کیا جائے، گھومنے پھرنے میں لگایا جائے، تقریبا ت اور دعوتوں میں شرکت کے لئے استعمال کیا جائے، اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیاجائے یا غیر ضروری کاموں کے لئے بہر صورت وقت نہ رکا ہے اور نہ ہی کبھی رکے گا، اس لئے وقت کو کار آمد بناتے ہوئے ان تعطیلات کے ایام کو دینی تعلیم کے حصول کے لئے ضرور استعمال کریں۔ حالات اور مواقع کے لحاظ سے وقت کاصحیح استعمال اور اس کو مفید کاموں میں لگانا عقل مندی کی بات ہے، انسا ن کو اللہ تعالی نے یہ زندگی بنانے اور بہتر سے بہتر انداز میں سنوارنے کے لئے دی ہے، انسان اس دنیا میں جیسی زندگی گزارے گا اسی کے مطابق کل آخرت میں اس کے ساتھ فیصلے ہوں گے، لاپرواہی اور غفلت میں گزرے زندگی کل افسوس وندامت کی شکل میں ظاہر ہوگی اور اگر اس مختصر زندگی کو بنانے کی فکر وکوشش کی گئی تو دنیا بھی کامیاب رہے گی اور آخرت میں انسان سرخرو ہوگا۔

 اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اور وقت و عمر کی قدردانی کرتے ہوئے اولاد کی تربیت کی فکر کریں۔ لایعنی اور فضول مشغلوں میں ان کے اوقات کو ضائع کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تر بیت کا مستقل انتظام کریں اورموسم گرما میں چھٹیوں کے پیش ِ نظر چلائے جانے والے’’ سمر کلاسس‘‘ سے بھر پور فائدہ اٹھا کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں تو انشاء اللہ جہاں ان کی چھٹیاں بھی صحیح مصرف میں لگیں گی وہیں والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے معاملہ میں کوتاہی کرنے سے بھی بچنے والے ہوں گے، کیوں کہ قرآن کریم والدین کی یہ بڑی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرماگیا کہ : یا ایھا الذین اٰ منوا قوا انفسکم واھلیکم نا را وقود ھا الناس والحجارۃ(التحریم  :6)ائے ایمان والو! اپنے آپ کو او ر اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسا ن اور پتھر ہوں گے۔حضرت عمر ؓ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ اپنے آپ کو تو جہنم سے بچانا سجھ میں آگیا لیکن گھر والو ں کو کیسے بچائیں تو آپ نے فرمایا کہ جس سے تم کو منع کیا گیاان کو منع کرواور جن کاتم کو حکم دیا گیا ان سے ان کو بھی روکو۔اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ : قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں وہ ہوگا جواپنے گھر سے بے خبر رہا۔( روح المعانی:28/156)

دینی تعلیم کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اسلامیات سے گہری وابستگی رکھنے والے افراد کی تیاری اور اعلی دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی مزاج کے حامل نوجوانوں کی تیاری وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اعتدال ِ فکر، سلامتی ٔ مزاج اور دینی ذوق سے مزین نوجوان اگر میدان عمل میں آئیں گے تو پھر ان شاء اللہ دین ِ حق کی صحیح ترجمانی ہوگی اور دشمنوں کی ہزار کوششیں بھی ہماری نسلوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائیں گی۔چناں چہ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ اس وقت جو گرمائی تعطیلات ملی ہوئی ہیں ان کا صحیح استعمال کیا جائے، گرمائی دینی کلاسس سے بھر پور فائدہ اٹھا یا جائے اور ہمارے بچے جو سال بھر غیر دینی ماحول میں رہے ا ن کو ایک مکمل دینی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔تاکہ وہ چنددن دینی ماحول میں کچھ وقت ہی سہی گزارسکیں اور اس اسلامی نظام اور ماحول سے مستفید ہوسکے،ماحول کا ایک غیر محسوس اثر ہوتا ہے، چند ایام کا دینی اثر،قرآن وسنت والی تعلیمات کا اثر ان شاء اللہ ان کے لئے سال بھر حرارت ِ ایمانی کو برقراررکھنے کا ذریعہ بنے گا،وہ دعائیں سیکھیں گے،احادیث ِ رسول یاد کریں گے،سیرتِ طیبہ کوپڑھیں گے،نمازاور دیگرفرائض کاعلم ہوگا،اخلاق وکردار کی تعلیمات سے بہرورہوں گے،اسلامی تہذیب کو جاننے کا موقع ملے گا،تلاوتِ قرآن میں وقت گزارنا نصیب ہوگا،چند گھنٹوں کی یہ پڑھائی ان شاء اللہ ایک فکر اور شوق پیدا کرے گی اور ایک بچہ کو مسلمان بن کر جینے کا طریقہ سکھائی گی۔

والدین اس سلسلہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں، بلکہ پوری فکر مندی کے ساتھ ان کی تعطیلات کو دین کے لئے لگائیں، معمولی معمولی بہانوں پر دینی تعلیم سے محروم ہونے نہ دیں، تفریح اور دعوتیں کے نام پر اپنی اولاد کو دین سے دور نہ رکھیں، یہ حقیقت ہے کہ والدین اگر دلچسپی کے ساتھ لگے رہیں گے تو پھر بچوں کے لئے فائدہ اٹھانا آسان ہوگا ورنہ وہ بھی لاپرواہی اور سستی کا شکار ہوکر اپنی قیمتی چھٹیوں کو گزاردیں گے اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :’’آئندہ نسلوں کو کھلی ہوئی بت برستی سے، مشرکانہ عقائد سے بچانے کے لئے اپنے گھٹنے ٹیک دیجیے،ہر ممکن کوشش کرڈالئے،اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لئے خالی وقتوں میں پرائیویٹ کلاسزکا انتظام کرائیے،یاان مدارس ومکاتب میں داخل کرائیے۔‘

تبصرے بند ہیں۔