گوری لنکیش کا خونِ ناحق

عبدالعزیز

 گوری لنکیش ایک مشہور و معروف صحافی تھیں جن کا تعلق بنگلور سے تھا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ان لڑکے اور لڑکیوں کو جو ہندو فسطائیت اور دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے تھے یا لڑرہے ہیں ان کو اپنے بیٹوں سے تعبیر کیا تھا۔ وہ ہندو راشٹر کے سخت خلاف تھیں۔ وہ آر ایس ایس کی اقلیت دشمنی، انسان دشمنی کی سخت مخالفت کرتی تھیں۔ ان کی مخالفت کا حال یہ تھا کہ ان کے قتل کے بعد کرناٹک کے ایک بی جے پی ایم ایل اے نے کہاکہ آر ایس ایس کے خلاف اگر وہ ایک مضمون نہیں لکھتیں تو وہ زندہ رہتیں۔ ان کے قتل پر فرقہ پرستوں میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ سورت کے ایک کپڑے کے تاجر نیکھل دادھچ نے گوری کے قتل پر ٹوئٹ کیا کہ ’’ایک کتیا کتے کی موت کیا مری کہ سارے پلّے ایک سُر میں بلبلا رہے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ٹوئٹر کو اپنے ٹوئٹ میں جگہ دی یعنی اس کی ایک طرح سے پیروی کی ہمت افزائی کی۔ اس سے آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سنگھ پریوار میں گوری کے قتل سے نیچے سے لے کر اوپر تک کتنی خوشی و مسرت پائی جاتی ہے۔

  وزیر اعظم اور ان کے فدائی یا شیدائی جو کچھ ادھم مچا رہے ہیں۔ فساد و فتنہ برپا کر رہے ہیں۔ ان کی پیٹھ بڑے یاان کے بزرگ تھپتھپاتے ہیں تو یہ ایک بڑا موضوع ہے اور اس کے سلسلے میں مختصراً جو بات کہی جاسکتی ہے کہ قتل خواہ کسی کا ہو اس پر خوشی منانا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے اور اس حرکت سے وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ انسانیت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ حیوانیت کی صف میں جا کھڑا ہوا ہے۔اس کے واپس ہونے کے چانسز (امکانات) کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

آوازِ حق یا اظہار رائے کو دبانے یا کچلنے کیلئے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے بنگلور ہی میں ایم ایم کلبرگی کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مہاراشٹر میں نریندرا دابھولکر اور گووند پنسارے کا قتل کیا گیا۔ یہ سب قتل ایک کے بعد ایک ہوئے۔ دراصل ایسے لوگوں کو نوٹس تھا کہ جو لوگ اس طرح سنگھ پریوار کے خلاف منہ کھولتے ہیں یا منہ کھولیں گے ان کا یہی حشر ہوگا۔ ایک طرح سے یہ پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر دینا ہے تاکہ کوئی آر ایس ایس یا ان کے پیروکاروں کے خلاف آواز بلند نہ کرسکے۔

 یہ کام آر ایس ایس والے پہلے بھی کرتے تھے مگر اب حالت یہ ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ والی پوزیشن ہے۔ اب قانون شکنی یا قتل جیسی واردات کرنے سے ذرا بھی ایسے لوگوں کو ڈر نہیں ہے۔ کرناٹک میں اگر کانگریس کی حکومت ہے مگر اس قدر نکمّی سرکار ہے کہ کلبرگی کا قاتل آج تک گرفتار نہ کیا جاسکا جبکہ یہ قتل دو سال پہلے ہوا۔ کرناٹک سرکار کو دکھ ضرور ہوا ہے مگر گوری لنکیش کے قاتل کا سراغ اب تک نہیں لگایا جاسکا۔ نہ کسی کی اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔ گوری کے بھائی اور بہن یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کی بہن جن لوگوں کے خلاف لکھتی اور بولتی تھیں انھوں نے ہی ان کی جان لی ہے۔ اس سے پہلے گوری پر ہتک عزت کا ایک مقدمہ بی جے پی کے ایک ممبر نے کیا تھا جس کے نتیجہ میں انھیں جیل جانا پڑا تھا۔

 معاملہ اس وقت ہندستان میں ایساہی ہے جیسے 9/11 کے بعد پوری دنیا کی حالت ہوگئی تھی، سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے جو کر دیا تھا کہ جو ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہے وہ ان کے خلاف ہے، ان کا دشمن ہے۔ اس وقت بی جے پی یا آر ایس ایس والے بھی سیاسی اقتدار پانے کے بعد یہی کہہ رہے ہیں جو ان کی طرح ’وندے ماتر‘ نہیں بولے گا، ان کی طرح نہیں کھائے پئے گا اس کا دیش میں وہ رہنا دوبھر کر دیں گے۔ اب تک مسلمانوں میں 32 افراد کو بے دردی کے ساتھ فرقہ پرستوں نے تہمت لگاکر یا شک و شبہ کی بنیاد پر یا جانوروں کے لانے لے جانے کے معاملے میں قتل کر دیا کہ یہ ان کی گئو ماتا کو جس طرح وہ مانتے ہیں یہ مسلمان نہیں مانتے۔ ایک طرح سے انھوں نے ملک میں اب ایک لکیر کھینچ دی ہے کہ جو ان کی لکیر کے اندر نہیں ہے ان کا دشمن ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ انسانیت کچلی جارہی ہے ، آزادی رائے اور اختلاف رائے پر حملے ہو رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی پر حملہ ہے۔ آزادی اور جمہوریت نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دستور ہند پر حملہ ہے۔ اسے بدلنے کی بھی کوشش شروع ہوگئی ہے۔

در اصل ایسے لوگ جو فسطائی ہوتے ہیں وہ نہ دستور کو مانتے ہیں نہ جمہوریت ان کیلئے کوئی چیز ہے اور نہ وہ قانون کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا اب ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ ملک میں اپنے نظریہ، کلچر اور دھرم کے مطابق ایک ریاست قائم کریں گے جس میں کسی دوسرے نظریہ ، کلچر اور دھرم کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ جو لوگ بھی ان کے نظریہ یا ان کے جارحانہ کلچر یا جارحانہ عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہیں وہ ان کا دیر یا سویر سر قلم کر دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے ملک میں جنگ جیسی کیفیت برپا کر رکھی ہے۔ ان کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ اس سے انسانیت پامال ہورہی ہے۔ ملک بدنام ہورہا ہے۔ ملک کا وقار مجروح ہورہا ہے اور اگر وہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ لڑنے بھڑنے کے سوا ان کے پاس کوئی راہ اور طریقہ نہیں ہے تو ان کو روکنے اور ان سے لڑنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کام مل جل کر ہی ہوسکتا ہے۔ کوئی ایک پارٹی یا کسی فرد سے یہ کام ممکن نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔