تعلیم میں درآئی مجرمانہ ذہنیت اور اسلام کا نظریۂ تعلیم وتربیت

عمیر کوٹی ندوی

بچوں کے ساتھ کیا جانے والا ناروا سلوک، ان پر کیا جانے والاہرقسم کا تشدد اور خود بچوں میں فروغ پزیر مجرمانہ ذہنیت اور  اس مجرمانہ روش سے گھراور اسکول کا محفوظ نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس المیہ سے  بچوں کے سرپرست، اساتذہ، اسکول انتظامیہ،  ملک کی انتظامیہ اور ارباب حکومت سب ہی نہ صرف واقف ہیں  بلکہ اس پر باتیں بھی کرتے رہتے ہیں ۔ ہاں اس پر باتیں ہی کرتے رہتے ہیں ، اس وجہ  سے مسئلہ نہ صرف جوں کا توں برقرار ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایک خبر پرانی بھی نہیں ہوپاتی کہ اسی نوعیت کی دوسری خبر آجاتی ہے۔ معصوم بچپن  ناروا سلوک، تشدد اور مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ واقعہ گڑگاؤں میں جس کا نام اب گروگرام ہوگیا ہے پیش آیا ہے۔یہاں پر واقع ریان انٹرنیشنل اسکول کے ایک سات سالہ طالب علم کو چاقو سے گلا کاٹ کر ہلاک کردیا گیا۔

دوسری جماعت میں پڑھنے والے  پردیومن نامی بچے کی لاش اسکول کے بیت الخلا کے سامنے پڑی ملی۔بربریت دیکھئے کہ قاتل نے بچے کے گلے کو ہی نہیں ریتا بلکہ اس  نے اس کا ایک کان بھی کاٹ لیا۔ ڈسٹرکٹ پولس کمشنر سمت کُہر کے مطابق”مبینہ قاتل نے دوسرے کلاس کے طالب علم کے ساتھ بدفعلی کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن طالب علم نے اس کی مخالفت کی اور چلایا۔  اس کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اور قاتل چھری چھوڑ کر فرار ہوگیا”۔ پولس کے مطابق اس واقعہ کو اسکول کی بس کے کنڈکٹر اشوک کمار نے انجام دیا ہے اور اس نے اقبالِ جرم  بھی کرلیا ہے۔

بچوں پر تشدد اور بچوں کے ذریعہ برتے جانے والے تشدد کا سلسلہ لامتناہی اور بے شمار ہے۔ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔مرکزی وزیر برائے بہبود خواتین واطفال مینکا گاندھی نےگزشتہ برس 25؍فروری کو راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ”نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں (2010-2014) میں نابالغوں سے متعلق جرائم کے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوا ہے”۔ یہ اضافہ ایک دو فیصد کا نہیں بلکہ ان کے مطابق "5برسوں میں 47 فیصد سے بھی زیادہ” کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اس سے قبل سابقہ حکومت  میں اسی وزارت  کے سرکاری سروے  کمیشن نے اپنی رپورٹ میں  اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ "ہندوستان میں 53 فیصد سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن زیادہ تر بچوں نے کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتایا”۔

اس سروے کے ذریعہ جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے مختلف اقسام جسمانی، جنسی اور جذباتی وغیرہ کا احاطہ کیا گیا تھا یہ معلوم ہوا کہ ہر تین بچوں میں سے دو کے ساتھ جسمانی طور پر زیادتی کی گئی ہے۔ 53 فیصد سے زائد بچوں کا جنسی زیادتی کا شکار ہونا بہت ہی سنگین بات ہے۔ مذکورہ دونوں   باتیں کسی غیر سرکاری ادارے، تنظیم یا فرد کی  طرف سے نہیں کہی گئی ہیں ، نہ ہی یہ اپوزیشن کا الزام ہے  اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی طرف سے یہ باتیں آئی ہیں ۔ بلکہ دونوں  ہی باتیں حکومت کی طرف سے کہی گئی ہیں اور ایک ہی وزارت کی طرف سے آئی ہیں ۔پہلی بات گزشتہ برس کہی گئی جبکہ دوسری بات آج سے دس برس پہلے کہی گئی تھی۔ حالات اس پر توجہ کی نہیں اضافہ کی چغلی کھارہے ہیں ۔

بچوں میں تشدد، مجرمانہ ذہنیت اور جنسی زیادتی  جوایک بڑے مسئلہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اگر بات ان کے اسباب کی کی جائے تو یہ بہت واضح ہیں ۔بے فکر، لاپروا، غیر ذمہ دار اور بے سمت تفریحات، بے راہ رو ٹی وی کلچر، مفاد پرست اور فرقہ پرست سیاست، نشہ خوری  حتی کہ بچوں تک میں اس کے تئیں بڑھتا ہوا رجحان کے ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت  کی روح کا فقدان ہے۔منفعت پسند تعلیم اورتاجرانہ طرز فکر نے  تعلیم کی روح کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔  اسکول، اساتذہ اور معاون اسٹاف کا طالب علم اور اس کے سرپرست سے خیرخواہانہ اور مشفقانہ نہیں تاجرانہ تعلق ہوتا ہے۔طلبا ء اور ان کے سرپرست کنزیومر ہوتے ہیں جب کہ اسکول، اساتذہ اور معاون اسٹاف کاروباری ہوتے ہیں ۔

فی زمانہ کاروباری  کے نزدیک منفعت خوری اور عیش وعشرت کے لئے کنزیومروہ طبقہ ہوتا ہے جس کے ساتھ استحصال کا ہر ممکنہ رویہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ وہاں اخلاقیات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ اس کے برخلاف اسلام کا نظریۂ تعلیم وتربیت  ہے جہاں پورا زور اخلاقیات، انسانیت،فلاح وبہبود اور خیرخواہی پر ہوتا ہے۔یہاں تمام بچوں پر شفقت کی جاتی ہے اور بچوں کو عزت واحترام کے آداب سکھائے جاتے ہیں ۔اس کے نتیجہ میں وہ نسل تیار ہوتی ہے جو تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کے مقام بلند پر فائز ہوتی ہے۔انسانیت کے لئے سودمند اور دنیا کے لئے نفع بخش ہوتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس صفت کو اختیار کیا جائے اور عام کیاجائے۔

تبصرے بند ہیں۔