گوری لنکیش کا قتل: مت بول کہ لب پر پہرہ ہے 

فیصل فاروق

دوستو، گزشتہ دنوں نامعلوم بندوق برداروں نے گولی مارکر سینئر کنڑ صحافی گوری لنکیش کا قتل کردیا۔ گوری لنکیش ایک عرصہ سے ہندوتوا، سنگھ پریوار اور بی جے پی کے خلاف بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ لکھتی رہی تھیں۔ اور شاید یہی ان کی موت کی وجہ بنا۔ موجودہ حکومت کے قیام سے اب تک نہ جانے کتنے حق پرست اور خاص طور سے ہندوتوا کی مخالفت کرنے والوں کو یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں ایسے سنگین واقعات کا رونما ہونا بیحد تشویش ناک ہے۔

صحافیوں اور حق کے علمبرداروں کا اتنی تیزی سے قتل ہونا اس بات کا غماز ہے کہ اس ملک میں حق بولنے والوں کا اب تو خدا ہی محافظ ہے۔ حکومت کی خاموشی کئی سوال پیدا کرتی ہے کہ آخر حکومت ان قاتلوں کے سامنے مجبور، بے بس اور لاچار کیوں نظر آرہی ہے؟ آخر جکومت ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام کیوں ہے؟ آخر کیوں کسی کی گرفتاری ممکن نہیں ہو پا رہی؟ کہیں ایسا تونہیں کہ گرفتار کرنے اور سزا دینے والے اداروں کو ان کے مکھیاؤں نے جکڑ رکھا ہے۔ اس لئے قتل پر جشن منانے والے ہی نہیں بلکہ ہمارا اقتدار ان ہلاکتوں کو اکسا رہا ہے۔ وہ ہر روز نئے طرح کا قتل کروا رہا ہے۔ جس سے عالمی میڈیا کے زریعہ پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔

آخر کب تک دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور اقلیتوں کے قتل عام پر ہم فقط احتجاج کرتے رہیں گے؟ آخر ہم کس دن کے منتظر ہیں اور ابھی کیا کچھ دیکھنا باقی ہے؟ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صرف احتجاج، جلسہ و جلوس اور کینڈل مارچ ہی ہر مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

امن پسند، غیر جانبدار اور رواداری کا نظریہ رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جانا دراصل جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ سچ بولنے اور سچ لکھنے والوں کو کتنی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے یہ بنگلور میں ہوۓ اس واقعہ اور اس جیسے تمام واقعات سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ سچ بولنے والی آوازوں کو دبا دینے سے سچائی چھپ نہیں سکتی اور نہ ہی حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔