گوری لنکیش کا قتل: ہم شرمندہ ہیں

راحت علی صدیقی قاسمی

حق گوئی، صدق بیانی، سماج کے چہرے پر ابھرتے نقوش کو لفظوں کا پیرہن عطا کرنا، سیاسی نظریات کی کوتاہی کو عیاں کرنا، لوگوں کو دھوکہ دینے والے چہروں کو بے نقاب کرنا، سماج کو گندگی سے پاک کرنا، غلط رجحانات کی بیخ کنی کرنا، دنیا کی چمک دمک خوبصورتی و رنگینی سے متاثر ہوئے بغیر حقائق کو بے نقاب کرنا عظیم صحافی کی نشانی ہے۔  صحافت کے اصول و ضوابط متقاضی ہیں کہ حقائق کو عیاں کیا جائے، سماج میں دبے کچلے طبقات کے مسائل کو اجاگر کیا جائے، ان کے حقوق کے لئے نعرہ بلند کیا جائے، حکومت وقت کی توجہ ان کے مسائل کی جانب مبذول کرائی جائے، ان کی زندگی کا درد و کرب پیش کیا جائے، اس کا درماں تلاش کیا جائے، مسائل کی گتھیاں حل کی جائیں، لائحہ عمل پیش کیا جائے، نفرت، بغض و عناد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، یہی صحافت کا مقصد اور منشاء ہے۔جو شخص اس طریقہ پر کاربند ہے وہ سچا صحافی اور قلم کا سپاہی ہے، اس کی زندگی جمہوری نظام کی تقویت کا باعث ہے، اس کے خیالات ملک کی ترقی کے ضامن ہیں، اس کا قلم جھوٹ کو لرزہ بر اندام کرنے کے لئے کافی ہے، اس کی تحریر معاشرہ کے لئے آب حیات ہے، وہ سماج سے گندے خیالات کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے،سیکولر ازم کی حقیقت سمجھانے پر قادر ہوتا ہے، خیالات کے دھارے کو موڑنے کے قابل ہوتا ہے، جذبات کے سمندر میں طغیانی پیدا کرنا اس کے لئے مشکل کام نہیں ہوتا۔

ان ہی اوصاف کی حامل صحافی گوری لنکیش کا قتل ہوا ہے جو ملک کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے، صحافت کے لئے انتہائی نقصان کا باعث ہے، آنکھیں آبدیدہ ہیں، قلب ماتم کناں ہیں، جذبات مشتعل و بے قابو ہیں، افکار پر اندیشوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اس صورت حال میں قلم کو جنبش دینا، صورت حال پر اظہار خیال کرنا انتہائی مشکل امر ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے بھلا دیا جائے، آنکھیں موند لی جائیں، گذرنے والا وقت اس قلب شکن واقعہ کو حافظہ سے محو کردے، گوری لنکیش بس یاد بن کر رہ جائیں، اس واقعہ کو ہمیں یاد رکھنا ہے، گوری لنکیش کو زندہ رکھنا ہے، ان کے نظریات کو باقی رکھنا ہے،سچائی کی جنگ کو لڑنا ہے، انگریزوں نے بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اشفاق اللہ خاں کو شہید کیا، مگر ان کے نظریات کو سولی نہ چڑھا سکے، ان کے مشن کو قتل نہ کرسکے، ان کی چاہت و منشاء کو نہ مار سکے، اس لئے ہم آج آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں، ہمیں بھی اس نظرئیے کو زندہ رکھنا ہے جس کے لئے ایم ایم گلبرگی نے، دھابولگر نے، گوری لنکیش نے جان گنوائی اور ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی حکومت میں اب تک 18صحافی قتل کئے جاچکے اور کوشش کرنی ہے، سماج میں سب کو یکساں حقوق میسر آئیں، باطل کے لئے گوری کا قتل سبق ثابت ہو ان کے خون کے قطرات رائیگاں نہ ہوں، پھر کسی صحافی کو حق کی تلاش میں موت نہ ملے –

گوری لنکیش وہ عظیم صحافی ہیں صحافت جن کے خون میں تھی، ان کے والد نے 1980میں ہفتہ واری اخبار نکالا، کنڑ زبان میں عوام کے مسائل کو پیش کیا، غرباء ومساکین کی زندگی سے کھادی پہننے والوں کو رو برو کرایا، ملک کی ترقی سے متعلق گفتگو کرنے والوں سے ملایا، زندگی بھر یہی کوشش کرتے رہے، ہمیشہ پسماندہ طبقات کی مدد کے لئے ان کے قلم نے تلوار کا کام کیا، غلط نظریات کے خلاف ان کا قلم دلیل قاطع بن کر واضح ہوتا تھا، ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ساہتیہ ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ 2000میں ان کا انتقال ہوا، پھر اس اخبار کو گوری نے نکالا حالانکہ وہ  ابتدا میں اس اخبار کو بند کرنا چاہتی تھیں، مگر پھر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر انہوں نے اس اخبار کو جاری رکھا، آپسی اختلافات بھی ہوئے، ان کے نظریات کو غلط بھی قرار دیا گیا، انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا، حملے کرواکر ان کا حوصلہ توڑنے کی کوششیں بھی کی گئیں، مگرنہ انہیں ٹوٹنا تھا نہ وہ ٹوٹیں، چٹان کی طرح اڑی رہیں اور اپنے مقصد کی جانب قدم بڑھاتی رہیں، بالآخر ان کے دشمنوں نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور اسے انتہائی بھیانک انداز میں اختتام تک پہنچایا، گوری پر سات گولیاں چلائی گئیں، تین گولیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کیا، ان کی روح پرواز کر گئی، گوری نے جان دے دی صحافت کی آبرو نیلام نہیں ہونے دی، صحافت کو امیروں کے پاؤں کی جوتی اور سیاسی لیڈروں کے گھر کی لونڈی نہیں بننے دیا اس کے معیار و وقار کی حفاظت کی، اپنی جان دے قلم کا پرچم بلند کیا اور زبان حال سے یہ کہتی رہیں :

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

ہمارے لئے شرم کی بات ہے، اس ملک کے باشندوں کی گردنیں جھکی ہیں جو ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دیتا ہے اور بیٹی کو حقائق بیان کرنے کے جرم میں سزائے موت دیتا ہے، اس کی موت پر پھبتیاں کستا ہے، اسے صحیح ٹھہراتا ہے، مرنے والی کو گالیاں دیتا ہے، بے شرمی کی انتہا ہے، جرم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ان کے بازؤوں کو قوت عطا کرتا ہے، سیاسی شعبدہ باز اپنی دکان چمکانے کے لئے ڈمرو بجانے لگے ہیں، راہل گاندھی نے گوری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہے، بائیں بازو کو ہدف تنقید بنایا ہے، اس پس منظر میں یہ سوال ذہن میں گردش کررہا ہے، کہ کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے، گوری کو عرصہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں، انہیں ڈرایا جارہا تھا، تب راہل کہاں تھے ؟ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سردھیہ کہاں تھے ؟ ان کے قتل کو پندرہ دن ہو چکے ہیں، بنگلور حکومت نے کیا کیا ؟ قاتل کہاں ہیں ؟ انہیں کب پکڑا جائے گا ؟ وہ کون تھے ؟ کچھ بھی علم نہیں ہے، کرناٹک سرکار کیا کررہی ہے ؟ یہ سوالات بتا رہے ہیں کہ راہل کے جملے کس قبیل کے ہیں ؟ہمیں دکھ ہے انسانی لاشوں پر بھی، سیاسی جماعتیں مفاد کو مقدم رکھتی ہیں اور مجرم ہمارے سامنے نہیں آپاتے، حالانکہ یہی سسٹم سیاسی لیڈروں کے جانور تک تلاش کرلیتا ہے، مگر قاتلوں کو تلاش کرنے میں کیوں ناکام ہے ؟

 وہیں شرمندگی سب سے زیادہ اس لئے ہے کہ صحافیوں نے اس قتل کے بعد جو روش اختیار کی ہے وہ مستقبل پر خوف کے سیاہ گہرے بادل تان رہی ہے اور صحافت کو بطور تجارت قبول کرنے کی دعوت دے رہی ہے، کیا پریس کلب میں جمع ہو کر اس حملہ کی تنقید کرنا کافی ہے ؟روش کمار کی ایک جذباتی تقریر کافی ہے؟ اور دیگر صحافیوں کی خاموشی درست ہے؟ سوالات چیخ رہے ہیں اور احساس دلا رہے ہیں، شرم سے ڈوب مرنے کے لئے اکسا رہے ہیں، مذہبی مسائل پر چیخنے والے، سیاسی مسائل پر گلا پھاڑنے والے ہندتوا کا راگ الاپنے والے صحافی کہاں ہیں ؟گوری کے قتل پر ان کی زبانیں کیوں خاموش ہیں ؟حالانکہ ان کا آخری اداریہ ان کے مخالفین کی جانب اشارہ کررہا ہے، آج بحثیں کیوں نہیں ہو رہیں ؟ حکومت پر دباؤ کیوں نہیں بنایا جارہا ہے ؟مجرموں کو پکڑنے کے لئے کیوں مجبور نہیں کیا جارہا ہے ؟ کیا ہم موت سے ڈر گئے ؟

کیا ہمیں سکوں کی کھنک نے متاثر کردیا ؟خدا نہ کرے اگر ایسا ہے تو مشکل ترین حالات ہمارا استقبال کرنے کے لئے بے تاب ہیں اور ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے، ملک کا ہر صحافی اس کا ذمہ دار ہوگا۔ تاریخ کا یہ بدترین واقعہ ہوگا کہ جمہوریت کا جنازہ صحافت کے کاندھوں پر ہوگا اور ہر صحافی سانس لے رہا ہوگا، چل پھر رہا ہوگا، لیکن وہ زندہ نہیں ہوگا، باضمیر ہوگا تو تمنا کرے گا، کاش گوری کی جگہ مجھے قتل کردیا جاتا، چوں کہ گوری سرخ رو ہوگئی، انہوں نے صحافت کو اپنے خون سے روشنائی دی ہے، اس روشنائی کو استعمال کیجئے، رائیگاں مت کیجئے، یہی وقت ہے باطل خیالات سے مقابلہ آرائی کا اور اس کی بیخ کنی کا، اندھیرا ہی روشنی کی خبر لاتا ہے۔ کوشش کیجئے آپ کے پاس طاقت ہے اسے استعمال کیجئے، گوری کو انصاف دلائیے، یہ ان کے لئے اور ان صحافیوں کے لئے خراج عقیدت ہوگا، جنہوں  نے صحافت کی آبرو کے لئے اپنی جان قربان کی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔