گول گلاب گڑھ سیاحتی نقشے پرآئیگا!

ایم شفیع میر

گول/ریاست جموں و کشمیرقومی شاہراہ کے عین وسط میں آباد،دریائے تُند مزاج’’چناب‘‘ کی قدرتی تقسیم کی حد کا شکار رام بن …’’سوہنی مہوال‘‘…کی داستانِ عشق کے آخیری پڑائوکے عقب میں ایک کوہستانی علاقہ فلک بوس ٹیڑھے میڑھے پہاڑوں کی آغوش میں …گول…کے نام سے موسوم ہے جو کہ قدرتی دلفریب رعنائیوں کا جلوہ بکھیرے آباد ہے۔ یہ خطہ ضلع رام بن کے نقشے پر ایک برائے نام سب ڈویژن کا رتبہ پایا ہوا علاقہ ہے جہاں پر ایس ڈی ایم بصورت ایس ڈی ایم تو بیٹھتا ہے مگر سیاسی دھونس دبائو کی وجہ سے مکمل اختیار استعمال کرنے سے قاصرہے یا یوں کہاجائے کہ کام کرنے کا من ہی نہیں ہے تو بیجا نہ ہوگا۔گو کہ اس مردم خیز خطہ ارض پہ مقیم ہندو مسلم فرقہ سے وابستہ شیخ و براہمن کے اجمال باہمی رابطہ کے قدر ِ مثالی بھی ہیں اور قابل ِ وضاحت بھی۔ لیکن لا مثال ، دلفریب سیاحتی مقامات سے مالا مال اس خطہ میں سیاحت کو فروغ دینا کبھی کسی بھی حکومت یا حکمران کے خیال میں نہ آیا۔

گو کہ اس خطہ ٔ ارض میں حکمرانوں کا ایک بہت بڑالشکروقتافوقتاً ریاستی سطح پر اقتدار کا ایک اہم حصہ بھی رہالیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ عوام کی طرف سے بار ہا فریاد کرنے کے بعد بھی انھوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔عوام کو مقامی سیاست دانوں سے گلہ ہے کہ انھوں اقتدار میں ایک اچھی جگہ پانے کے باجود بھی گول کو سیاحت کے نقشے میں لانے کا کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا بس اقتدار کی چٹنی کو لگاتار چٹنے کی خاطر تعمیر و ترقی کے نام پر عوام کو ہمیشہ گمراہ کرنے کا عمل اپنایا گیا۔کسی علاقہ یا خطہ کوتعمیر و ترقی طور خوشحال بنانے کیلئے اُسے سیاحتی طور خوشحال بنانا اشد ضروری ہے لیکن مقامی سیاست ہمیشہ انتقامی گیری کی آگ میں جلتی رہی اورعلاقہ سیاحتی اور تعمیر وترقی طور پسماندگی کی جانب گامزن رہا ۔اب2014 کے اسمبلی انتخابات میں موجودہ سرکار کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید نے الیکشن کے دوران گول میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے وعدہ کیا تھا کہ سرکار بننے کے فوراً بعد میں گول کو سیاحت کے نقشے میں ضرور لائوں گا یہ میرا آپ لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے ۔قدرتی حسن سے مالا مال اس خطہ ارض کو ٹورازم اتھارٹی دلانا مفتی سعید کا خواب تھا لیکن سرکار بننے کے بعد مفتی سعید عوام گول سے کیا گیا وعدہ وفا نہ کرسکے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد جلدی موت کا فرشتہ مفتی سعید کے ہاں حاضر ہوا اور عوام گول کو ایک بار پھر سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔

 سیاحتی مقام راما کنڈہ گول کا ایک اہم سیاحتی مرکز ہے جہاں پہنچ کر انسان کشمیر جیسے جنت بے نظیر کے سیاحتی مقامات کو بھول جاتا ہے ۔اسی طرح سے دگن ٹاپ جہاں ہر موسم میں مقامی و غیر مقامی لوگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے کیونکہ یہ سیاحتی مقام گول تا مہور شاہراہ کے بر لب واقع ہے یہی وجہ ہے یہاں سے گزرنے والے مسافروں کواس دلفریب سیاحتی مقام کا نظار ہ کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے اپنی گاڑی کو بریک لگانے کیلئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔دگن ٹاپ کافی اُونچائی پر واقعہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان ایسا محسوس کر رہا ہے گویا آسمان کو چھو رہا ہو، اس اُونچائی پر پہنچ کر اگر مغرب کی طرف نظر ڈالی جائے توعلاقہ مہور کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور مشرق کی جانب دیکھا جائے تو پتنی ٹاپ کا نظارہ بخوبی ہوجاتا ہے۔گو کہ اس سیاحتی مقام پر سیاحیوں کا رش ہر وقت بنا رہتا ہے لیکن ریاستی حکومت و مقامی سیاستدانوں کی عدم توجہی ، غفلت اور بے حسی کے باعث آج تک اس مقام پر کسی قسم کے ہٹس تک تعمیر نہیں کئے گئے ۔گول کی ان حسین وادیوں کا نظارہ مرتے دم تک انسان کے ذہن سے چمٹ کر رہ جاتا ہے اور انسان ساری عمر ان حسین وادیوں کے دلفریب نظارہ کے سحر میں جکڑ کر رہ جاتا ہے ۔

صدر مقام گول سے ان حسین سیاحتی مقامات تک پہنچنے کا سفر بذریعہ گاڑی صرف آدھے گھنٹے کا ہے لیکن ریاستی حکومتوں اور محکمہ سیاحت کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث ان مقامات کو سیاحت کے نقشے میں نہ  لانا علاقہ کو سیاحتی طور پسماندگی کی جانب دھکیلنا کسی بہت بڑ ی سازش کا شاخسانہ ہے ۔ حجام مرگ ، لپری ٹاپ ، درساں ٹاپ ،کھیتاں ، نرسنگاہ ، کوٹ اور گھوڑا گلی وغیرہ جیسے حسین اور دلفریب حسن سے مالا مال سیاحتی مقامات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں ۔ سیاح ان حسین اور پر فضا مقامات تک رسائی حاصل کر کے اپنے سیاحتی ذوق کی تسکین کر سکتے ہیں ،ان مقامات پر آپ کو رنگ برنگ جنگلی پھول، آسمان سے باتیں کرتے کائل ، دیارکے بلند و بالا درخت،سر سبز میدانوں میں چرتے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ،کہیں کہیں چرواہوں کی جانب سے اپنی رہائش کے لیے لکڑی و مٹی سے بنائی گئی عارضی رہائش گاہیں ،کھیتاں و کوثر ناگ کی سفید دودھیا آبشار ، جھرنے اور مرغ زریں ،تیتر و بن ککڑ کوئل کی خوبصورت بولیاں انسان پر سحر سا طاری کر دیتی ہیں لیکن گول کے ان سیاحتی مقامات کی دلفریبی اور دیدہ زیبی کا اگر کسی پر اثر نہیں ہورہا ہے تو وہ ہے حکومت ِ جموں و کشمیر اور مقامی نام نہاد سیاست دان !وادی گول کے ان سیاحتی مقامات کی دلفریبی اور خوبصورتی کا احاطہ قلم کے ذریعے ممکن ہی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی حکومت اور مقامی لیڈر شپ اگر ان مقامات تک سیاحوں کی رسائی آسان اور بنیادی سہولیات پر توجہ دیں تو بلا شبہ صر ف سیاحت کی مد میں اربوں روپے سالانہ حکومتی خزانہ میں جمع ہو سکتی ہیں ۔

وادی گول کے ان پر فضا سیاحتی مقامات کی دلکشی کو زیادہ نقصان جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جنگلات کی اندھا دھندکٹائی نے جہاں اس جنت ارضی سے یہاں پر پائے جانے والے چرندوں و پرند کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے وہیں محکمہ جنگلات کی کالابازاری سے سر سبز درختان اور ناجائز تجاوزات میں بے تحاشا اضافہ نے وادی گول کے ان سیاحتی مقامات کے حسن کو مسخ کرنے کا ناپاک عمل اپنا رکھا ہے ۔موجودہ سرکار اور محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور ناجائز تجاوزات کی روک تھام اور انہیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر پلان وضع کرے اور ان پلان پر سختی سے عمل درآمد کروائے بصورت دیگر آنیوالی نسلیں ان قیمتی قدرتی اثاثوں سے محرومی پر ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔وادی گول کے ان حسین سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے ماہ مئی سے ماہ ستمبر تک پانچ ماہ انتہائی موزوں ہیں ۔گول کو اگر سیاحتی مقام کا درج دیا جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ سیاح کشمیر جنت نظیر اور سوئزرلینڈکے سیاحتی مقامات کی خوبصورتی اور دلکشی پل بھر میں بھلا دینگے۔سوئزر لینڈ سے کہیں زیادہ دلکش اور خوبصورت سیاحتی مقامات ہمارے یہاں موجود ہیں اور سیاح سہولیات کے عدم فراہمی کے باوجود ان مقامات کی سیاحت بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری حکومت ، وزارت ِ سیاحت اور منتخب سیاسی نمائندوں کی سیروسیاحت کے فروغ کے سلسلہ میں کارکردگی صفر ہے جبکہ سیاحتی فروغ کے تئیں دعوے بلندبانگ ہیں ۔

  جنت نظیر وادی ٔ گول کے پر فضا سیاحتی مقامات سوئزر لینڈ کے خوبصورت پہاڑی قصبہ سے کہیں زیادہ دلفریب اور خوبصورت ہیں لیکن ہمارا محکمہ سیاحت صرف سیاحت کے فروغ کا دعویدار ہے۔عملی طور کام کرنے کیلئے کوئی بھی محکمہ یا حکمران کام کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ آج کے دور میں ہر ملک اور ریاست ہر سال صرف سیاحت کی مدپر اربوں کماتے ہیں لیکن ہماری ریاست کی بد قسمی دیکھئے کہ ہمارے نااہل حکمرانوں کی خود غرضی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے قدرتی وسائل سے مالا مال اس ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔وادیٔ گول کے دلفریب اور قدرتی حسن سے مالا مال پر فضا سیاحتی مقامات راماکنڈہ ، دگن ٹاپ ، نرسنگا، درساں ٹاپ، لپری ٹاپ ، کھیتاں ، حجام مرگ، گھوڑا گلی ،کوٹ ،سرکینٹھاکے سر سبز میدان سرے سے ہی حکومتی محکمہ سیاحت کی بے حسی پر ماتم کناں ہیں ۔صوبہ جموں میں صرف گول کوسیاحتی اور تعمیر و ترقی طور بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔تعمیر وترقی سطح پر گول کو الگ تھلگ رکھاجا رہا ہے ۔

حیرانگی کی بات ہے کہ جب بھی کوئی تعمیر وترقی کی بات ہوتی ہے تو اُس وقت گول کو نہ ہی خطہ چناب کے ساتھ گنا جاتا ہے اور نا ہی خطہ پیر پنچال کیساتھ شمار کیا جاتا ہے ۔عوام گول کو اگر سیاسی مداریوں کے اس ناپاک کھیل پر بے حد صدمہ وہیں خطہ چناب اور خطہ پیرپنجال کے لوگوں سے بھی عوام گول کا گلہ ہے کہ جب بھی کچھ مقصد کو حاصل کر نا مقصود ہوتا ہے تو گول کو اپنے ساتھ گنا جاتا ہے اور اگر تعمیر وترقی کا کوئی مسئلہ ہو تو گول والوں کی یاد ہر گزنہیں آتی ،گویا علاقہ گول اس ریاست یا پھر اس ملک کا حصہ ہی نہیں ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔