حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ سے باہر کیسے ہوئے؟

ترتیب: عبدالعزیز

 حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر سورۃ یونس، سورۃ انبیاء میں ہے۔ سورۃ الصآفات میں کچھ تفصیل سے آپؑ کا ذکر کیا گیا ہے۔

 ’’اور یقینا یونسؑ بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا، پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اور اس میں مات کھائی۔ آخر کار مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روز قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔ آخر کار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا۔ اور اس پر ایک بیلدار درخت اُگا دیا‘‘۔ (139-146)

 حضرت یونسؑ کی سرگزشت کے اہم واقعات: یہ تیسرا موقع ہے جب قرآن کریم میں آپؑ کا تذکرہ ہورہا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اور اہل نینوا کی طرف انھیں مبعوث کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آپ نے کتنے عرصے تک اہل نینوا کو سمجھایا، اپنی رسالت کی طرف بلایا، اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف انھیں مائل کیا۔ لیکن قوم نے جب مسلسل آپ کی دعوت کی ناقدری کی اور آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو آپ نے یہ سوچ کر کہ ایسے ناقدروں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرنا جو اس کی قدر نہ پہچانتے ہوں ، نادانوں کے سامنے موتی پھینکنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آپؑ ناراض ہوکر اور غیرتِ حق کے جوش میں قوم کی حدود سے نکل کھڑے ہوئے۔ ساحل سمندر معلوم ہوتا ہے بستی سے دور نہ تھا۔ آپ وہاں پہنچے، ایک سواریوں سے بھرا ہوا جہاز روانگی کیلئے آمادہ تھا، آپؑ اس میں سوار ہوگئے۔

معلوم ہوتا ہے کہ اسے شاید آخری سواری کی ضرورت تھی اور وہ آپ کو لے کر چل پڑا۔ قرآن کریم نے ناراض ہوکر قوم سے نکل جانے کو اَبَقَ سے تعبیر کیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ غلام اپنے آقا کے یہاں سے بھاگ جائے۔ حضرت یونس علیہ السلام کسی انسان کے غلام نہیں بلکہ آپ اللہ تعالیٰ کے غلام تھے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اہل نینوا کی ہدایت کیلئے آپؑ کو مبعوث کیا تھا۔ رسول ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے منتظر رہتے ہیں اور کسی کام میں نفس کی پیروی نہیں کرتے۔ پروردگار نے چونکہ اپنے انبیاء و رسل کو معصوم پیدا کیا ہے اس لئے وہ نفس کی پیروی میں کبھی ٹھوکر نہیں کھاتے؛ البتہ اتباع حق کے جوش میں کبھی کبھی وہ بھی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں ۔ یہ چیز غیر نبی میں ہو تو نہ صرف بری نہیں بلکہ پسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی علامت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے نبی چونکہ حق کی کسوٹی بن کر آتے ہیں اور وہ امت کیلئے ہر معاملے میں اسوۂ حسنہ اور معیارِ حق ہوتے ہیں ، اس لئے کوئی سی بھی بے اعتدالی ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ باقی نہیں رہنے دیتا، فوراً اس پر گرفت فرماتا یا اصلاح کر دیتا ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام ایک رسول کی حیثیت سے نینوا میں اپنے فرائض ادا کرنے کے پابند تھے چاہے قوم آپ کی دعوت کو قبول کرے یا نہ کرے، آپؑ وہاں سے ہجرت اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن آپؑ نے اپنی قوم کی ناقدری کو غیرتِ حق کے خلاف سمجھا، اس لئے برہم ہوکر اپنی قوم اور تبلیغ کے میدان کو چھوڑ دیا۔ اور انھیں تین دن تک اللہ تعالیٰ کے عذاب کی تنبیہ فرماکر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے؛ چنانچہ پروردگار نے اس پر گرفت فرمائی۔ جب وہ جہاز میں سوار ہوکر روانہ ہوئے تو راستے میں جہاز طوفان میں گھر گیا۔ جہاز والوں نے اپنی روایت کے مطابق یہ سمجھا کہ اس میں یقینا کوئی بھاگا ہوا غلام سوار ہے یا کوئی مجرم ہے۔ جب تک اسے الگ کرکے دریا میں نہیں ڈالا جائے گا جہاز اس طوفان سے باہر نہیں نکل سکتا؛ چنانچہ مجرم کو متعین کرنے کیلئے قرعہ کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر چہ اسلام کسی کو قرعہ اندازی کے ذریعے مجرم ثابت کرنے کو جائز نہیں رکھتا، لیکن جہاز والوں نے اپنی روایت کے مطابق اس پر عمل کیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے ہی قرعہ اندازی کروائی گئی؛ کیونکہ جہاز میں سب سے زیادہ ثقہ اور باوقار وہی نظر آرہے تھے، لیکن قدرت کی نیرنگی دیکھئے کہ قرعہ انہی کے نام نکلا۔ وہ اس قرعہ کے مطابق سمندر میں لڑھکا دیئے گئے۔

جیسے ہی حضرت یونس علیہ السلام پانی میں گرے ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا۔ وہ مچھلی یقینا ویل اور شارک کی قسم کی مچھلیوں میں سے ہوگی جو آدمی کو سموچا نگل جاتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگلا تو وہ ملیم یعنی ملامت کے سزاوار تھے، یعنی جو افتاد ان کو پیش آئی وہ اس کے سزاوار تھے؛ کیونکہ جو فعل ان سے سرزد ہوا وہ ایک پیغمبر کی حیثیت سے ایسا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مستحق تنبیہ ٹھہرایا۔ انھوں نے یہ اقدام اگر چہ غیرتِ حق کی بنا پر کیا تھا اور نیک جذبہ اس کا محرک تھا لیکن پیغمبر کے ہر کام کیلئے اللہ تعالیٰ کا اذن ضروری ہے۔ ان کا بلند و بالا مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا قریبی تعلق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی کام بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کریں ۔ اس وجہ سے ان پر سخت گرفت ہوئی۔

 ’’پس اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو وہ اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک‘‘۔ (الصآفات:144-143)

 تسبیح (آیت کریمہ) رحمتِ خداوندی کی ضمانت ہے: قرآن کریم میں دیگر مواقع پر حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہی حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو آپ سمجھ گئے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے عتاب نے پکڑ لیا ہے۔ میں اپنے محل تبلیغ و دعوت اور اپنے مورچے سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت کے بغیر نکل آیا ہوں ، اس کی وجہ سے یہ عتاب مجھ پر ہوا ہے۔ اب اس عتاب سے بچ نکلنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ جس نے عتاب فرمایا ہے اس کی رحمت کو پکارا جائے۔ اپنے قصور کا اعتراف کیا جائے اور اپنے آپ کو اس کے دروازے پر ڈال دیا جائے کیونکہ  ؎

جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے

 کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات

 چنانچہ بے ساختہ آپ کی زبان سے ہی نہیں بلکہ رگ و پے سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo(اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں پاک ہے تو بیشک میں قصور وار ہوں ) کی صدا گونجنے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا میں یہ شان رکھی ہے کہ جو اسے دل کی آمادگی کے ساتھ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان فرما دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کرم فرمایا اور مچھلی نے آپ کو دریا کی کسی ریتی پر اگل دیا۔ اور اگر آپ اللہ تعالیٰ سے یہ مناجات نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ قیامت تک کیلئے اسی مچھلی کے پیٹ میں پڑے رہتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر حضرت یونس علیہ السلام تسبیح نہ کرتے تو وہ مچھلی قیامت تک زندہ رہتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مچھلی کے پیٹ ہی کو حضرت یونس علیہ السلام کی قبر بنا دیا جاتا۔

 ’’پھر ڈال دیا ہم نے اسے چٹیل میدان میں اور وہ نڈھال تھا۔ اور ہم نے اس پر ایک بیلدار درخت اگادیا‘‘۔ (الصآفات: 146-145)

 اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور: آخر مچھلی نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا کی کسی ریتی پر حضرت یونس علیہ السلام کو اُگل دیا۔ آپ چونکہ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے بالکل مضمحل اور نڈھال ہوگئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کے جسم پر بال تک نہ رہے تھے۔ ایسی کمزور حالت میں نہ زمین کی سختی آپ کیلئے قابل برداشت تھی اور نہ موسم شدت۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک بیلدار درخت آپ کے اوپر اُگادیا تاکہ اس کے پتے آپ کیلئے سایہ فراہم کریں اور اس کا رس آپ کیلئے غذا کا کام دے۔ یَقْطِیْنِ اس درخت کو کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو۔ روایات میں ہے یہ کدو کی بیل تھی۔ اور شجرہ کا لفظ بتا رہا ہے کہ یا تو اس کدو کی بیل کو اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طور پر تنا دار بنا دیا تھا اور یا کوئی درخت تھا جس پر وہ بیل چڑھادی گئی تھی تاکہ اس سے گھنا سایہ میسر آسکے۔ ورنہ بیل سے سایہ ملنا مشکل تھا۔

 ’’ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا۔ پس وہ لوگ ایمان لائے اور ہم نے انھیں ایک وقت تک فائدہ اٹھانے دیا‘‘۔ (الصآفات:147-148)۔

قوم کی طرف مراجعت اور قوم کی خوش نصیبی: کچھ عرصہ بعد حضرت یونس علیہ السلام کی حالت سنبھلی، آپ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے غائب ہوجانے کے بعد جب آپ کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو وہ بچوں ، بوڑھوں اور جانوروں سمیت گھروں سے باہر نکل آئے اور اللہ تعالیٰ سے انتہائی گریہ وزاری کے ساتھ اپنی غفلت کی معافی مانگی، اپنے کفر اور شرک سے توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا۔ ان کے سر پر تلا ہوا عذاب ٹل گیا۔ یہ واحد قوم ہے کہ آیا ہوا عذاب اس سے واپس لے لیا۔ ان کے سر عذاب ٹلنے کی شاید وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر یہ سمجھ کر قوم سے نکل گئے کہ ان میں قبولیت ایمان کی صلاحیت نہیں ۔ لیکن بعد میں قوم کی توبہ نے یہ ثابت کیا کہ ان میں ایمان کی صلاحیت موجود ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے انھیں چھوڑ کر جانے میں جلدی فرمائی۔

 قوم نے توبہ کے ساتھ ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش بھی شدت سے جاری رکھی۔ حتیٰ کہ انھیں سمندر کے کنارے تلاش کرلیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو واپس اسی بستی یعنی نینوا میں جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ جیسے ہی آپ وہاں پہنچے لوگ دیوانہ وار آپ کی طرف لپکے اور ایمان لے آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس وقت تک انھیں ایمان کی سعادت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا اور جب تک انھوں نے اپنے ایمان کو شرک اور نافرمانی سے آلودہ نہیں کیا۔

 فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یونس کو ایک لاکھ یا زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بستی میں رہنے والوں کی صحیح تعداد کا علم نہ تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی ان کی بستی کو دیکھتا تو یہی اندازہ کرتا کہ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہی ہوگی کم نہ ہوگی۔ یہ عام گفتگو کا اسلوب ہے جسے یہاں ملحوظ رکھا گیا ہے۔

 ویسے بھی دیکھا جائے تو کسی منظم ادارے یا منظم گروہ کی تعداد جو ہمیشہ شمار کی جاتی ہو اس کا تو ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا، لیکن قوموں کی تعداد یا شہر کی آبادی کے بارے میں کوئی متعین بات کہنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ بڑی آبادی والے شہروں یا قوموں میں زندگی اور موت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لوگ مرتے ہیں تو تعداد کم ہوجاتی ہے۔ نابالغ، بالغ ہوجاتے ہیں تو تعداد بڑھ جاتی ہے۔ بچے جوان ہوجاتے ہیں جو دو چار سال کا عمل ہوتا ہے تو تعداد کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ بنا بریں ایک لاکھ کہنے کی بجائے اَوْ یَزِیْدُوْنَ فرمایا گیا تاکہ ان تمام امکانات کا احاطہ کرلیا جائے اور غلطی کا امکان باقی نہ رہے۔  (بحوالہ: تفسیر روح القرآن)

تبصرے بند ہیں۔