گؤ رکشا اور ہندو انتہا پسندی کا شتر بے مہار

ندیم عبدالقدیر

ملک میں پہلا سلاٹر ہاؤس انگریزوں نے قائم کیا تھا۔ اس مذبح میں گائے علی اعلان ذبح کی جاتی تھی۔ آج گائے کے گوشت کے شک میں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے والے ہندوتوا کے ٹولے میں سے  اُس وقت اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ملک میں کہیں بھی انگریزوں کی مخالفت کرسکے۔ اُس وقت کسی نے بھی نہیں کہا کہ

’گائے ہماری ماتا ہے اور انگریز اُس کو کھاتا ہے‘۔

انگریز گائے کا گوشت بہت شوق سے کھاتے تھے۔ گائے کے گوشت کے پکوان ان کی مرغوب غذاؤں میں سے تھے اور برطانوی حکومت کا طور طریقہ کانگریس حکومت سے یقیناً بہت مختلف تھا۔ اگر ہندو مہاسبھا اُس وقت فرنگیوں کو گائے ذبح کرنے یا گائے کا گوشت کھانے سے روکنے کی کوشش کر تیتو انگریز، کانگریس حکومت کی طرح پیش نہیں آتے بلکہ وہ ہندوتوا عناصر کو ایسا سبق سکھاتے کہ اُن کے چودہ طبق روشن ہوجاتے۔ انگریزوں کے عتاب کے ڈر سے ہندوتوا کا پرچم اٹھانے والوں نے گائے کا ذبیحہ اُس وقت حلال کررکھا تھا۔ انگریزوں کے وقت گائے تقدیس کی حامل نہیں تھی لیکن آزادی حاصل ہونے کے ساتھ ہی اچانک وہ مقدس ہوگئی۔ کیا آپ کچھ سمجھے؟ مطلب یہ کہ ہندوتوا کی عقیدت کے قانون، مخالف پارٹی کی طاقت پر منحصر ہوتے ہیں۔ مخالف فریق اگر طاقتور ہے تو ہندو دھرم میں عقیدت کے قانون کچھ اور ہوتے ہیں اور اگر مخالف کمزور ہوتو، تب اس کے ضابطے کچھ اور۔

برطانوی راج میں ہندوتوا کی سب بڑی شخصیت ساورکر نے گائے کو ماتا ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ساورکر نے لکھا تھا کہ گائے صرف ایک جانور ہے اور جانور انسانوں کی ماتا نہیں ہوسکتی۔ اس کے گوشت کو کھایا جاسکتا ہے۔ آزادی حاصل ہونے کے ساتھ انگریزوں کا خوف ختم ہوا اور حکومت برہمنوں کے ہاتھ آگئی۔ اب گائے نوش فرمانے والے صرف مسلمان رہ گئے۔ وہ مسلمان جو ہندوستان پر ۶۰۰؍ سال حکومت کرچکے تھے،  اس لئے اچانک ہی گائے مقدس ہوگئی۔ گائے کا ذبیحہ ہندو عقیدہ کے خلاف ہوگیا۔یکے بعد دیگرے ملک کی ریاستوں میں گائے کےذبیحہ پر پابندی لگنے لگی۔ ۲۰۱۴ء کے بعدسے گائے کی اس عقیدت میں نیا جوش آگیا۔

مسلم دشمنیکی ذہنیت کو گائے کی تقدیس کی صورت میں وہ بہانہ مل گیا ہے جس کی اسے شدت سے تلا ش تھی۔ مسلمانوں سے نفرت کرنے والا ہجوم تیار ہوا اور یہ ہجوم مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔

حکومت، پولس اور سسٹم کے پدرانہ دستِ شفقت اور سرپرستی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہجوم زنی کا آسیب آج اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔  مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آتش دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ جن پر اس آگ کو قابو پانے کی ذمہ داری ہے وہ اسے کم کرنے کے بجائے مزید بھڑکانے کےلئے کبھی مسلم منہ بھرائی، کبھی ہندو خطرہ میں ہے، کبھی گئو رکھشا، کبھی وندے ماترم، کبھی پاکستان، کبھی کشمیر اور کبھی بھارت ماتا جیسے ایندھن ڈالتے رہتے ہیں،تاکہ اس آتش کدے کی آگ سرد نہ پڑنے پائے، اور مسلمان اس میں جھلستا رہے۔

دراصل مسلمانوں پر ظلم سے ہندو انتہا پسند اور ان کی ہمدردان و متفقین کے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔ مسلمانوںپر ظلم ان کو اطمینانِ قلب فراہم کرتا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے ان پر جو ۶۰۰؍سال حکومت کی ہے۔ انہوں نے اس ۶۰۰؍سال کا تھوڑا بہت ہی سہی بدلہ لے لیا۔ مسلم حکمرانوں کا دورِ حکومت ان کے دلوں کی گہرائی میں کسی کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ یہ چبھن سب میں ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ سنگھ پریوار اسی چبھن کو ابھارتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جو گائے انگریزوں کے وقت میں مقدس نہیں تھی وہ آزادی حاصل ہونے کے بعد مقدس ہوگئی۔

 مسلمانوں پر ظلم کرنا ہندو دھرم کا کوئی مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ پولس، حکومت اور سسٹم سب مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کے دفاع میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس ظلم کیلئے کسی بھی بہانے کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں پر حملے کرنے، ان کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے، ان کی دکانوں کو لوٹنے، انہیں قتل کرنے، ان کی خواتین کی عصمتیں لوٹنے کے بعد ظالم یا قاتل کو گھبرانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے، کیونکہ اس کی مدد کیلئے پوری مشینری کھڑی  رہتی ہے۔ اس ظلم کے بعد ظالم کو قانون کے شکنجہ سے بچانے کیلئے نیز صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بتانے کیلئے ماہرینِ قانون، سیاستداں، بی جےپی لیڈران اور میڈیا سب کچھ اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔

کوئنٹ انڈیانے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ دو سال میں گائے کے بہانے مسلمانوں کو زدو کوب کرنے کے ۵۰؍سے زائد واقعات ہوئے ہیں۔ بے رحمی کا عالم یہ رہا کہ ان میں ۱۵؍معاملات میں خواتین تک کو نشانہ بنایا گیا۔ ان ۵۰؍واقعات میں سے ۲۴؍واقعات میں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ہر واقعہ میں ایک ہی  داستان مختلف نام، مختلف مقامات اور مختلف وقت کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی  ہے۔ ہر واقعہ  میں وہی بہانے، وہی اسباب، وہی باتیں اوروہیں الزامات۔ ہر ایک میں ظلم سہنے والے مسلمان نہتے، کمزور اور بے بس تھے۔

یوپی میں قاسم کا ظالمانہ قتل اسی داستان کی سب سے تازہ کڑی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ واقعات کا تعلق شمالی ہندوستان یا ہندی بیلٹ کی ریاستوں سے رہا ہے۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں سے نفرت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہندوتوا انتہاپسندی، شتر بے مہار کی طرح تباہی مچا رہی ہے اور اس پر نکیل کسنے والا کوئی نہیں ہے۔   گئوکشی کے نام پر قتل کرنے والے ان واقعات میں ایک   بھی ملزم کو سزا نہیں ہوئی ہے، کچھ  زیر سماعت ہے اور کچھ میں  ملزموں کو ضمانت بھی مل گئی۔ حکومت کو ملزمین کو سزا دینے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے بلکہ اس کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملزمین کو راحت دینے کیلئے کوشاں ہے۔  بی جےپی کے لیڈران ہجوم زنی کے ملزمین کی کھل کی حمایت کررہے ہیں۔ دادری میں اخلاق کو قتل کرنے والے ایک ملزم کی جب موت ہوئی تو اس کی لاش پر ترنگا تک لپیٹا گیا۔ یہ ترنگا اسے صرف اسلئے نصیب ہوا کیونکہ اس پر ایک کمزور، نہتے اور بے بس مسلمان کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ یہی کارنامہ اسے ہندوتوا طاقتوں کی نظر میں عظیم بنادیا۔

گزشتہ دو سال میں گئورکھشکوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمان

قاسم عمر     (ہاپوڑ، یوپی )    ۹؍مئی ۲۰۱۸ء
سراج    (ستنا، مدھیہ پردیش)    ۱۷؍مئی۔ ۲۰۱۸ء
افروزل خان (راج سمند، راجستھان)    ۷؍دسمبر ۲۰۱۷ء
عمر خان     (الور، راجستھان)     ۹؍نومبر ۲۰۱۷ء
احمد خان     (جیسلمیر، راجستھان)     ۲۷؍ستمبر ۲۰۱۷ء
حافظ شیخ     (جلپائی گڑی، ویسٹ بنگال) ۲۷؍اگست ۲۰۱۷ء
انور حسین     (جلپائی گڑی، ویسٹ بنگال) ۲۷؍اگست ۲۰۱۷ء
علیم الدین     (رام گڑھ، جھارکھنڈ)     ۲۹؍جون ۲۰۱۷ ء
محمد ناصر     (شمالی دیناج پور، ویسٹ بنگال) ۲۲؍جون ۲۰۱۷ء
سمیر الدین      (شمالی دیناج پور، ویسٹ بنگال) ۲۲؍جون ۲۰۱۷ء
ناصر الحق     (شمالی دیناج پور، ویسٹ بنگال) ۲۲؍جون ۲۰۱۷ء
جنید     (بلب گڑھ، ہریانہ)     ۲۲؍جون ۲۰۱۷ء
*ظفر     (پرتاپ گڑھ، راجستھان )     ۱۶؍جون ۲۰۱۷ء
شیخ سراج (خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ)     ۱۸؍مئی  ۲۰۱۷ء
شیخ سجو  (خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ)     ۱۸؍مئی ۲۰۱۷ء
شیخ نعیم  (خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ)     ۱۸؍مئی ۲۰۱۷ء
ریاض الدین (ناگاؤں، آسام)     ۳۰؍اپریل ۲۰۱۷ء
ابو حنیفہ (ناگاؤں، آسام)         ۳۰؍اپریل ۲۰۱۷ء
پہلو خان (الور، راجستھان)     یکم اپریل ۲۰۱۷ء
عنایت اللہ خان (لتی ہار، جھارکھنڈ )     ۱۷؍مارچ ۲۰۱۷ء
محمد مجلوم ( لتی ہار، جھارکھنڈ )         ۱۷؍مارچ ۲۰۱۷ء
نعمان (سراہن، ہماچل پردیش)     ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء
زاہد احمدبھٹ (اودھم، جموں )     ۹؍اکتوبر ۲۰۱۵ء
محمد اخلاق، (دادری، یوپی)     ۲۸؍ستمبر ۲۰۱۵ء

اس فہرست میں ظفر اور افروزل کو گئو ہتیا کے بجائے، دیگر الزامات کے تحت قتل کیا گیا۔ افروزل کو لوجہاد کا جھوٹا الزام لگاکرکیمرہ کے سامنے قتل کیا گیا اور ظفر کو راجستھان کے سرکاری ملازمین نے اس لئے مار دیا کیونکہ وہ ملازمین کو رفع حاجت کرتی خواتین کی تصویر کھینچنے سے منع کررہا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔