نہ خود کھاﺅں گا، نہ کسی کو کھانے دوں گا

مدثراحمد

نہ خود کھاﺅں گا نہ کسی کو کھانے دوں گا، یہ جملہ ہندوستان میں اب عام ہوچکا ہے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی ہی اس جملے کو انتخابات سے قبل استعمال کیا تھا، بھلے ہی وہ اپنے اس جملے پر قائم نہیں رہے اور انکے دور اقتدار میں بینکوں سے لے کرحکومتی محکموں میں تک لوٹ مار جاری ہے، بھلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی خود نہ کھارہے ہوں البتہ ان لوگوں کو کھلا رہے ہیں جو انکے اور انکی پارٹی کے ساتھ ہیں یا تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ خود کھاﺅں گا نہ کسی کو کھانے دوں گا کا جملہ قریباََ پانچ سال پہلے اپنے انتخابی تشہیر کے دوران کہی ہے لیکن اس جملے پر ہم مسلمان تو کافی عرصے سے عمل کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز، دکانیں، اسپتال یہاں تک کہ سیاسی میدان میں بھی ہم نہ خود کھاتے ہیں نہ ہی کسی کو کھانے دیتے ہیں۔ ہندوستان پر مسلمانوں نے اندازََ 650 سالوں تک حکومت کی، اس طویل مدت کے بعد جب انگریز وںنے اس ملک پر قبضہ جمایا پھر جنگ آزادی کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت بھی مسلمانوںنے اپنے وجود کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔

جب ہندوستان کو آزادی ملی اور ہندوستان و پاکستان الگ الگ ممالک قرار دئےے گئے وہیں سے ہندوستانی مسلمانوں کا زوال شروع ہوا اور ہر مسلمان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے اپنے ضمیروں کو داﺅ پر لگانے لگا جس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج ملک کے ہر علاقے میں مسلمانوں کی سیاسی کردار پر نظر ڈالیں اور انکی قیادت کا معائنہ کریں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوگا کہ ہم مسلمان سیاسی طور پر اب بھی لاشعور ہیں۔ ہمارے نزدیک ہمارا حریف یعنی اپوزیٹ پارٹی غیر نہیں ہوتا بلکہ اپنا مسلمان بھائی ہی ہوتا۔ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہو وہاں پر ہم مسلمان کسی ایک کو اپنا قائد تسلیم نہیں کرتے بلکہ ہر ایک اپنے آپ میں قیادت کرنے والا کہلاتا ہے، الیکشن کے موقع اس کی بدترین مثال ملتی ہے۔

جب کوئی مسلمان کسی وارڈ، اسمبلی حلقے یا پارلیمانی حلقے میں منتخب ہونے کے لئے الیکشن لڑتا ہے تو ایسے موقع پر ہمارے درمیان سے درجنوں امیدوار میدان میں اترتے ہیں جبکہ غیرمتحد ہوکر اپنی جانب سے کسی ایک کو امیدوار بناتے ہیں۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود نہ خود کوئی کامیاب ہوتاہے نہ ہی کسی کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جاتاہے، انہیں وجوہات کی بناءپر ہم مسلمان ہر مورچے پر ناکام ہونے لگے ہیں۔

سیاست جتنی آسان دکھائی دیتی ہے اتنی آسان نہیں ہے، اگرچہ کوئی ایک دو انتخابات میں کامیاب ہوجائے تو وہ لیڈر تو نہیں بن سکتاالبتہ وقتیہ طورپر عہدیدار بن جاتاہے۔ ہمیں ہماری قوم کے درمیان لیڈر بنانا ہو تو یہ امید نہ کریں کہ ہمارے درمیان کوئی پیدائشی لیڈر بنے گا،ہمیں لیڈروں کو بنانا ہوگا اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے آپ سے زیادہ قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کو سامنے رکھ کر فیصلے لئے جائیں۔

رہی بات قوم و ملت کی خدمت کرنے کی اسکے لئے سینکڑوں راہیں ہیں، سیاست ہی واحد راستہ نہیںہے جس سے ہم قوم وملت کی خدمت کرسکیں گے، جو لوگ سیاست میں آگے آنا چاہتے ہیں انہیں آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے ہم خود بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ حاصل کرنے کا موقع دیں ورنہ آج جو حالت وزیر اعظم نریندر مودی نے بنا رکھی ہے وہی حالت ہماری قوم کی بھی ہوجائیگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔