ماں کی تلاش

سالک ادؔیب بونتی

ذکرہےان دِنوں کاجب فراغت کےبعدسرِدست ملازمت کےلیے میں کنیاکُماری میں مقیم تھا…

روز مغرب کے بعد چائے نوشی کےلیے عزیزدوست خالد کےہمراہ جہاں تک مجھےیادآتا ہے کایل پٹنم مارکیٹ کی پہلی ٹرافک کے دائیں سمت ایک ہوٹل میں ہماری بیٹھک ہوتی تھی…

ہمیشہ میں ایک پاگل نُماشخص کووہاں دیکھتاتھا… لمبےاور اُلجھےہوئےبال،بڑےہوئے ناخن،غبارآلودچہرہ،پھٹےہوئےتہبندمیں لپٹاہوا بدن….

اس حلیےسے کوئی قریب ہونانہیں چاہتاتھا… ہرکوئی ڈانٹ ڈپٹ کردھتکاردیتا… لیکن ایک چیز اس میں مجھےعجیب لگتی تھی کہ اس کےہاتھ میں ایک چھوٹی سی لکڑی ہوتی تھی جِس سے وہ راستےکےکنارےکچھ بنانےکی کوشش کرتاپھر مٹانےکےاندازمیں ہاتھ کوباربارحرکت دیتاتھا… کوئی اخبارکاٹکڑا نظرآتاتواٹھالیتااور یوں نظرجماکر دیکھتاجیسے وہ  کسی عبارت کوسمجھنےاور کچھ تلاش کرنےکی کوشش کررہاہو…

صبح جب اسکول بس ٹرافک سےہوکرجاتی تو میں اُسے تلاش کرتا… میں نے دیکھاوہ سنگنل سے قریب ہی ٹھہرکرآتی جاتی اسکول بسوں کی طرف مسکراتےہوئے دیکھتا…

اتوارکےدِن میں ٹہلنےکےلیےنکلتاتو اُسےایک زیراکس دُکان کےسامنے دیکھتا جہاں وہ کوڑےدان سے کاغذ کے چھوٹے بڑے پُرزےاکٹھےکرتا اور انھیں اُلٹ پھیرکرتا..میری اس پاگل سے دلچسپی بڑھنےلگی… میں اس کی شخصیت سےمتعارف ہونا چاہتا تھا مگر…  "زبانِ یار مَن تُرکی ومَن تُرکی نمی دانم” والامعاملہ تھا… مجھے تمل زبان زیادہ نہیں آتی تھی اور اِشاروں میں ایک پاگل سے زیادہ کچھ نہیں سمجھاسکتاتھا…. اور کسی سے اس پاگل کےبارےمیں پوچھنابھی میرےلیے مشکل تھا…

مجھےیادآتاہے کسی سبب اسٹرائک ہوئی تو اسکول چھٹی تھی میں ٹہلنےکےلیے ساحل سمندرپرجاپہنچاجومیری قیام گاہ سےقریب پڑتاتھا… موسم بڑاحسین تھا،ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہوائیں دل کولبھارہی تھیں… پانی کی لہروں اور موجوں کی مستیاں اپناجادوچلارہی تھیں اتنےمیں کچھ دور مجھےوہ پاگل نظرآیامیں اس کی جانب چل پڑا لیکن اس سےقریب ہوتےہوئےمجھےجھجک محسوس ہونے لگی… میں اس کےاردگرداب تک تین چارچکرلگاچکاتھامیری حیرت کی انتہانہ رہی جب میں نےاُسےایک ہندی گیت گنگناتے ہوئے سُنا…  یوں سمجھیےمیرانوےفیصدمسئلہ حل ہوچکاتھا… مجھےمسرت ہورہی تھی کہ اب مجھےاس سےمتعارف ہوناآسان ہوجائےگا…

میں نے ہمت جمع کرکے اس کی طرف بادام بڑھاتےہوئےاس کانام پوچھاتو اس نے ٹوٹی پھوٹی مدراسی زبان میں اپنانام بتانےکی کوشش کی اور ہنستےہوئےآگے نکل گیا…

دوسرےدن میں نے چائےکےلیےجاتےہوئےایک علاقائی شناسا کوکال کرکےبُلالیا… جومیرے لیے تمل سے ہندی میں ترجمہ کرنےکی استطاعت رکھتےتھے… ہم نے بہت تلاش کی پر وہ پاگل ہمیں کہیں نظرنہیں آیا…

اس طرح دوچار روز گزر گئے … اِدھر میرےساتھی اکتاہٹ ظاہرکرنےلگےتھے… پرمجھےاب بھی اس کی تلاش تھی .. پونگل کی تہوارتھی میں نے پتہ لگایاتومعلوم ہُوا آس پاس کہیں ایک کتاب میلہ لگاہےجومسلسل ایک ہفتےتک رہتاہے، مجھے اندازہ لگانے میں دیرنہیں لگی کہ یہ پاگل وہیں کہیں بھٹک رہاہوگا…

دوسری شام میں کتاب میلہ میں حاضرہُوا جہاں تمل اور انگریزی زبان کی بےشمار کتابیں سجی ہوئی تھیں … پروہ پاگل نظرنہیں آیا..
دوسری شام پھرمیں نےآخری بارکاوعدہ کرکےاپنےدوست کوساتھ چلنےکےلیےراضی کرلیا…

میلہ میں ایک کنارےمجھےوہ نظرآگیاپھرکیاتھا… میں اس کاتعاقب کرنےلگا… شایداس نےبھی مجھےنوٹ کیااس لیے قدرےگریزاں ہونےلگا…

بالآخرمیں نے ساتھ میں چارٹ اسٹال تک چلنےکےلیے راضی کرلیا… سب لوگ میری طرف حیرت سے دیکھ رہےتھےمگرمجھےکسی کی پرواہ نہیں تھی…

اس نے بتایاکہ میں نےبی.کام کیاہے…میرےساتھی مضحکہ خیزاندازمیں میراچہرہ تکنےلگے اور میں بمشکل غصّہ روکےہوئےتھا…
شایدپاگل کوبھی یہ ادا نہیں بھائی وہ چارٹ کاپلیٹ چھوڑکرچلنےلگےمیں نے روکنے کی کوشش کی پراس نے مسکراہٹ سےزیادہ کوئی ردِّعمل نہیں کیا…

اب میرےذہن میں اس پاگل کاحلیہ،حرکتیں اور بی.کام گردش کررہےتھے…

رات میں میں نےدوست سے کہاکہ مجھے کسی بھی طرح اس پاگل سےمتعلق جانکاری چاہیے…

چائےوالابھی میری حرکتوں پرغورکرنےلگاتھا… ایک شام جب میں چائےسےفارغ ہوکر چلنےلگاتواس نے تمِل میں کہا”کُنج وکارینگے” (تھوڑا بیٹھیے) میں رُک گیا… اس نے پاگل کی طرف دلچسپی کےبارےمیں پوچھا تو میں نے پاگل کی عجیب اور نرالی حرکتوں کےبارےمیں بتایاتو وہ بھی متحیرتھا…

پھراس نےپاگل کےبارےمیں اتوارکی شام جانکاری فراہم کرنےکاوعدہ کیا … مجھے شدت سے اتوار کاانتظارتھا… میں بار بار کال کرکے بھی انھیں یاددِہانی کرواتارہا…

انھوں نے بتایاکہ اس کانام "الوک ہے” قریبی گاؤں "ستیابھومی”اس کاآبائی علاقہ ہے،کسی زمانےمیں یہ شخص(پاگل) کالی کٹ یونیورسیٹی کا ہونہار اسٹوڈینٹ ماناجاتھا…

پڑھائی میں غیرمعمولی دلچسپی رکھنےکےساتھ ساتھ اِسے پینٹنگ کاشوق بھی تھا…

ذہانت اور لیاقت کےسبب کانچی پورم میں ایک اچھے جاب سے وابستہ تھالیکن گھرسےاُسے بہت کم دلچسپی تھی…وہ اپنی دنیامیں مگن رہتاتھا… گھرمیں اس کی بوڑھی اور مریض ماں اُسے بہت یادکرتی تھی…اچانک اسے ماں کےمہلک مرض اور خستہ صحت کی اطلاع مِلی تو گھرپہنچا… مگر بہت دیرہوچکی تھی…

ماں کوشمشان گھاٹ میں جلادیاگیا…

اب اس کی زندگی کازاویہ بدل گیا… روز صبح شام شمشان گھاٹ کاچکّرلگاتااور چشم تر بےنشان گھومتاپھرتا… سمجھانےکی لاکھ کوشش کی گئی مگر اس کےذہن سےماں کی تصویر اور زبان سے ماں کاوِرد چھینانہیں جاسکا…. طبیبوں کےمشورے اور حکیموں کے نسخےبھی کچھ کام نہیں آئے…

اُسےجاب اور اپنےحال وحلیےکی بھی کچھ فکرنہیں رہی…

حدسےزیادہ صدمےکےسبب وہ اپناذہنی توازن کھوبیٹھا…

گھروالوں کی کوششوں کےباوجود وہ شمشان گھاٹ سے رشتہ نہیں توڑسکا…

میں اب یہ جاننےکی کوشش میں لگاتھا کہ اخباروں کے ٹکڑے اور ہاتھ کی لکڑی میں کونساراز مضمرہے…مجھےرفتہ رفتہ ادراک ہُوگیا کہ وہ لکڑی سے ماں کاچہرہ بنانےکی کوشش کرتاہے اور کوئی ایساکاغذ جس پر ماں لکّھاہو اس سےیہ بہت پیار کرتاہے…. جب اُسےیقین ہوچلاکہ شمشان گھاٹ میں ماں نہیں مِل سکتی تووہ کاغذکےٹکڑوں میں ماں کو تلاش کرنےلگا،اسی لیے اسکول بسوں کااحترام کرتاہےکہ طلباءہی مدرس ڈےمناتےہیں اور ماں کےمتعلق پڑھتےہیں… اسی لیے وہ بُک اسٹالوں کاچکّرلگاتاہے کہ وہاں موجود کتابوں میں بےشمار مقامات پرلفظِ”ماں” لکھاہوگا…

ہاں یہی وجہ ہے….

یہی وجہ ہےکہ ہرجگہ وہ ماں کوتلاش کرتاہے ـ

تبصرے بند ہیں۔