ہم پھر اسی سوراخ سے ڈسے جانے کو تیار ہیں

ممتاز میر

 برسوں سے ہمارے رہنمایان اور برادران وطن کے دانشور قوم کو یہ لالی پاپ دیتے آرہے ہیں کہ وطن عزیز میں فرقہ پرست، فسطائی صرف چند فی صد ہیں۔ کوئی کہتا، یہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ اور دوسروں کی طرح ہم بھی اس لالی پاپ کو چوستے رہے ہیں۔ پھینکو ؍فیکو (یہ ہم نہیں گوگل سرچ کہتا ہے)جناب نریندر مودی کے ۴ سالہ دور اقتدار نے نہ صرف ہماری بلکہ ہم جیسے تمام احمقوں کی خوش فہمی دور کردی ہے۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ نریندر مودی کے زیر قیادت بی جے پی کا یہ اقتدار کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹھان کر ہی تخت  اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تھے کہ غلط یا صحیح ایسی حکمرانی کرونگا کہ کبھی بھلایا نہ جا سکوں۔ یہ تو تاریخ داں ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ہمارے چائے والے وزیر اعظم کا دور حکومت تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا یا لکھ کر اس پر چائے گرادی جائے گی۔

ہم بچپن ہی سے یہ سمجھتے آرہے ہیں کہ جہاں گیری و جہانبانی دونوں ہی بڑے مشکل کام ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلمان و دیگر اقوام جہاں گیری کرتی رہی ہیں۔ لیکن جہاں بانی دیگر اقوام کیا آج مسلمانوں کے بھی بس کی بات نہیں۔ جہاں بانی سوائے مومن کما حقہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر جہاں گیری کے تعلق سے بھی ہندتو کے متوالے بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی پر(ملک کے باہر نہیں کیا۔ ملک کے اندر روز کرتے ہیں ) حملہ نہیں کیا۔ ہم بڑے خلوص سے غلام تو بنے ہیں کبھی کسی کو غلام نہیں بنایا۔ ہاں، غلام بنانے کے لئے اپنے ہی وطن میں بسنے والے دیگر عقائد کے لوگوں پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری چیز ہے کہ جو اپنے ہی ابنائے وطن سے لڑتے رہتے ہوں وہ کسی بیرونی طاقت سے کس طرح پنجہ آزمائی کر سکتے ہیں۔

   بات کہاں پہونچ گئی۔ ۔ بات تو ہو رہی تھی مودی جی کے اقتدارکی۔ جناب نریندر مودی کے ۴ سالہ دور حکومت میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اس سے بات عیاں ہوئی کہ اب فرقہ پرست صرف چند فی صد یا آٹے میں میں نمک سے کم نہیں بلکہ کہیں زیادہ ہوچکے ہیں ان کے دور اقتدار میں ہونے والے تمام انتخابات کے ووٹنگ پرسنٹیج کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگاکہ انھیں ہر الکشن مین ۳۰ سے ۴۰ فی صد کے درمیان ووٹ مل رہے ہیں اور یہ اس کے باوجود مل رہے ہیں کہ بطور وزیر اعظم ان کی کارکردگی زیرو ہے۔ بلکہ منفی کہا جائے تو بجا ہوگا۔

گوگل انھیں پھینکو کہتا ہے۔ کوئی انھیں جھوٹا کہتا ہے۔ کوئی انھین این آر آئی وزیر اعظم کہتا ہے۔ ان کے بیرونی اسفار پر لطیفے بنائے گئے۔ اکثیریت کے نزدیک نوٹ بندی ان کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ اس لئے نہیں کہ اچانک انھوں نے پرانے نوٹ بند کر دئے تھے۔ بلکہ اسلئے کہ نوٹ بندی سے پہلے متبادل نوٹوں کا مناسب انتظام انھوں نے کیوں نہیں کیا؟اور اپنی حماقت کی وجہ سے سو سوا سو لوگوں کے مرنے  کا تماشہ دیکھتے رہے۔ مگر اپنی غلطی قبول نہ کی۔ اور اب خود رزرو بینک کو اس غلطی کو قبول کرنے سے روک نہیں پا رہے ہیں۔ پھر جی ایس ٹی  کا نفاذ کیااور اس پر اب تک کئی قلابازیاں کھا چکے ہیں۔ اب تک چھوٹے تاجروں کاپورا گروہ جی ایس ٹی کے ذریعے تہہ تیغ کیا جا چکا ہے  وطن عزیز میں بہت جلد وہ وقت بھی آئے گا جب کیلے، آم، جام، بیر جیسے پھل بھی ٹھیلوں پر نہیں بڑے بڑے شاپنگ مالوں میں ملیں گے  اگر آپ کے پیروں میں شاپنگ مال تک جانے کی طاقت نہیں تو کوئی بات نہیں جیب میں فون پر یا نیٹ پر آرڈر دے کر گھر منگانے کی طاقت ہونی چاہئے۔

مثال کے طور پر پہلے آپ میڈیکل اسٹورجا کر پرسکرپشن کی پرچی دکھا کر دوائیں لیتے تھے اب ترقی یافتہ ہندوستان میں میڈیکل اسٹور جانے کی ضرورت نہین۔ گھر بیٹھے دوائیں منگوائیے اور حکمرانوں کو دعا دیجئے۔ دکانوں پر بیٹھے فارماسسٹوں کو ممنوعہ دوائیں بیچنے پر جیل بھیجنے اور لائسنس رد کردئے جانے کا ڈر دکھایا جاتا ہے۔ مگر بڑے بڑے شاپنگ مالس تو سب مودی جی کے منظور نظر لوگوں کے ہونگے۔ پھر ان کے پرافٹ سے مودی جی کو حصہ بھی ملے گا پھر ان کو کاہے کا ڈر؟

خیر یہ بھی ہندوستانی عقل کا ایک نمونہ ہے کہ دوا جیسی نازک چیز کو بھی آن لائن شاپنگ کی چیز بنا دیا گیا۔ ممکن ہے مستقبل میں پیشہء طب کو بھی کوڑے دان کے حوالے کردیا جائے۔ حیرت ہے کہ وہ لوگ جنھیں ہر دوچار ماہ میں الکشن کا سامنا ہوتا ہے وہ چند پونجی پتیوں کی خاطرپورے مڈل کلاس کا صفایا کردینا چاہتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ الکشن کمیشن ان کا ہے۔ EVM  ان کی ہے، ایک تہائی ووٹرس ان کے ہیں۔ پھر ڈر کاہے کا؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ ایک تہائی آئے کہاں سے ؟وطن عزیز کے سارے سیکولر تو یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں  پھر یہ ایک تہائی کیسے ہو گئے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ہندو ہندوستان میں ۱۵ فی صد سے زیادہ نہین۔ پھر اگر بی جے پی کو ہر الکشن میں  ملنے والے ووٹ ۳۵ فی صد سمجھے جائیں تو تو سوال یہ پید ا ہوگا کہ یہ ۲۰ فیصد ووٹ کہاں سے آئے۔ اس کی بہت سی وجوہاٹ ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ کانگریس ۱۸۸۵ میں وجود میں آئی۔ اور RSS ۱۹۲۵ میں۔ پھر آر ایس ایس کی بنیاد رکھنے والوں کو دیکھئے کم وبیش سب کے سب کانگریس ہی سے تھے۔ آر ایس ایس کی ضرورت کیا تھی؟جس طرح امریکہ میں سیاست صیہونی تھنک ٹینکس کنٹرول کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہندوستانی سیاست اور سماج کو کنٹرو ل کرنا تھا۔ اسلئے برہمنوں نے آر ایس ایس بنائی۔ انھوں نے ۱۵  فی صد ہندو ہونے کے باوجودان لوگوں میں بھی ہندو ہونے کا شعور پیدا کیا جو ہندو نہیں تھے۔

ہم اس سے پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ  وطن عزیز میں سوائے مسلمانوں کے کسی قوم طبقے یا گروہ کو اپنی شناخت کا شعور نہیں ہے۔ گذشتہ ۷۰ سالوں سے RSSاور کانگریس مل کر دلتوں، پسماندوں، پچھڑے طبقات اور مختلف قبائل کو اور ہندتو سے بالکل الگ عقائد رکھنے والوں کو بڑی کامیابی سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خود مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ گذشتہ ۷۰ سالوں میں کانگریس نے آر ایس ایس کے سانپ کو دودھ پلا پلا کر اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ اب وہ کسی کے قابو میں آنا تو دور اس نے پورے ملک کو قابو میں کر رکھا ہے۔ اور ۳۰؍۴۰ فی صد عوام اس سے ہپنو ٹائزڈ ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ نوٹ بندی میں سوا سو دیش واسیوں کو مار کر، جی ایس ٹی میں پورے چھوٹے تاجروں کا صفایا کر کر، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود خانگی ضروریات کے لئے مہنگا کرکے، گیس سبسڈی لوگوں سے چھین کر لاکھوں کروڑ کے قرضداروں کو ملک سے بھگا کر بھی مودی جی کرناٹک مین ۳۶ فیصد ووٹ لے لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ملک میں ۳۰ سے ۴۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جنھیں ملک کی ترقی یا زوال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ملک مٹتا ہے تو مٹ جائے۔ بنٹتا ہے تو بنٹ جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پھر سے آتی ہے تو آجائے، مگر دلتوں مسلمانوں پر ظلم بہت ضروری ہے۔ اور وہ اس کے لئے بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لئے کم، ہندؤں کے شوشل سائنسدانوں کے نفسیات دانوں کے

لئے بڑا لمحہء فکریہ ہے۔ انھیں سوچنا چاہئے کہ ایسی منفی ذہنیت کے حامل لوگ ملک کے لئے مفید ہین یا مضیر؟ساتھ ساتھ ان مذہبی طبقات  اورگروہ کو بھی غور و فکر کرنا چاہئے جن کے افراد ۱۵ فیصد ہندؤں کے ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر اقلیتوں پر ظلم کرکے خوش ہوتے ہیں۔ تاریخ تو نام ہی دہرائے جانے کا ہے۔

   ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ملک کو کانگریس اور بی جے پی مکت مہم چلانی چاہئے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۷۰ سالوں میں بھی ملک کے لیڈروں کو  صحافیوں کو، دانشوروں کو اتنی عقل نہ آسکی کہ مسائل کی اصل جڑ کا اندازہ کر سکتے۔ ۲۰۱۹ کے الکشن کے لئے پھر کانگریس کی قیادت میں حزب اختلاف کے اتحاد کی باتیں  ہو رہی ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنی وزارت عظمیٰ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی پر بجا طور پر گالیاں کھانے والی کانگریس اپنا وقت آنے پر آر ایس ایس کے لیڈروں کی دیش سے غداری کی کہانیاں ٹی وی پر چلوا سکے گی؟

اب تو یہ تاریخ ہے کہ ہمیشہ کانگریس ہی آر ایس ایس کو بچاتی آئی ہے ورنہ کب سے آر ایس ایس کا خاتمہ ہو جاتا۔ کانگریس کے  یہ ۷۰ سال تو اس کی نیت کی نفی کرتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر وہ پھر اقتدار میں آجاتی ہے تو سوچئے ہماری مجبوریاں اسے کتنا  نڈر بنادیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔