گھر گھر کی کہانی 

وصیل خان

گذشتہ دنوں صبح صبح گھر سے نکلتے ہی ایک عجیب و غریب مگر دلدوز واقعے سے دوچار ہونا پڑا پڑوس کے مکان میں کچھ شور سن کر ہمارے بڑھتے قدم رکے تو دیکھاکہ بوڑھے والدین گھر کے باہر غم زدہ چہروں کے ساتھ مجرموں کی طرح کھڑےہیں اور اندر سے تیز اور سخت آوازیں آرہی ہیں کہ تم لوگوں کے ساتھ ہمارا نباہ نہیں ہوسکتا آج سےآپ لوگ اپنا بندوبست کہیں اور کرلیںاب برداشت کی حد ہوچکی ہے میں نے ان ضعیف والدین سے ازراہ ہمدردی استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مکان ہمارا ہے اورہم اپنے اکلوتے بیٹے اوربہوکے ساتھ رہتے ہیں اور دونوں کی مرضی یہ ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں، ان کے مطابق ہماری موجودگی ان کے امن و سکون کیلئے غارت گر ہے، ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں اور اس بڑھاپے میں کہاں جائیں۔ ہم نےبیٹےکے سکھ کیلئےہمیشہ اپنی جانیں قربان کیںلیکن آج وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بننے کو تیار نہیں اس طرح کے واقعات اب روز مرہ کے معمول بنتےجارہی ہیں۔ قدروں کا زوال اس قدر تیز رفتار ہے کہ اب یہ کہانی ہر تیسرے گھر میں دوہرائی جارہی ہے۔ اخلاقی بگاڑ انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ خود غرضی نے ہمیں اندھا کردیا ہے ہم بہترمعاشرے کے خواہش مندضرور ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ بہتر سماج بہترین خاندان کے ذریعے تشکیل پاتا ہے خاندان وسیع تر سماج کا ایک چھوٹا یونٹ ہوتا ہے اچھے سماج کیلئے اس چھوٹے یونٹ کو درست کرنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے اس میں ذرا سی بھی غفلت بدترین معاشرےکا  اعلانیہ بن جاتا ہے۔

ایک اور واقعہ ذہن میں ابھر رہا ہے اتفاق سے اس واقعے کا بھی میں ہی چشم دید راوی ہوں۔ دو سگے بھائی ہنسی خوشی ایک ساتھ رہتے تھے ضعیف بیوہ والدہ بھی ساتھ تھیں، بچوں کی شادیاں ہوئیں تو پھر آپسی اختلاف و انتشار کی بھی آندھیاں چلیںبالآخر دونوں بھائیوں میں بٹوارہ ہوگیا، آنگن میں دیوار کھڑی ہوگئی۔ ماں کا بوجھ اٹھانے کو کوئی تیارنہ تھا اس طرح ماں کو بھی تقسیم کردیا گیا آخرکار اک اک ماہ ساتھ رکھنے پر سمجھوتہ ہوگیا اس طرح زندگی کی گاڑی جیسے تیسےگھسٹنے لگی، اس دوران جب ماں چھوٹےبیٹے کے ساتھ تھی بڑے بیٹے کے گھر گئی، بڑی بہونے کچھ خاص پکوان ماں کے سامنے رکھ دیئے، اسی دوران بڑا بیٹا آگیا بھائی کی رقابت میں اس نے ماں کو الٹی سیدھی سنائی اور طیش میں آکر ماں کے سامنے سے پلیٹ چھین لی، ماںدل مسوس کر رہ گئی اسےاس قدر تکلیف پہنچی کہ اس کےمنھ سے بددعا نکل گئی، اللہ نے اس کی فورا ً سن لی، دوسرے ہی دن بیٹے کو بخار آیا اور، سارا بدن تپنے لگا پھرکچھ ہی دنوں میںوہ کوڑھ جیسے موذی مرض کا شکارہوگیا انجام کار اسی مرض میں اس کی موت ہوگئی۔ عجیب بات ہے جس قوم کو خیر امت کےاعزاز سے نوازا گیا آج اسے ہی سب سے زیادہ اصلاح کی ضرورت درپیش ہے۔ کون سی برائی ایسی ہے جو مسلمانوں کے درمیان نہیں پنپ رہی ہے۔ زندگی کے دھارے ہی غلط سمت بہنے لگے ہیںبقول اقبال بجلیاں جن میں ہوں خوابیدہ وہ خرمن تم ہو ‘۔ آج مسلمان کہاں جارہا ہے اور کس قدر بے راہ روی کا شکار ہے۔ پہلے ہی خطاؤں کا بوجھ کیا کم تھا، اب سوشل میڈیا اور فیس بک کا ایک نیا عذاب بھی سر پر مسلط کرلیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اللہ کی بڑی نعمت ہے جس سے ڈھیروں مثبت کام کئے جاسکتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین کیلئے ماضی میں اس سے بہتر مواقع نہیں حاصل تھے لیکن اس سے کوئی مثبت فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے جو کچھ کیا جارہا ہے بالکل برعکس اور منفی۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا قیمتی وقت بری طرح ضائع کررہی ہے۔ سوشل میڈیا پر لایعنی اور غیر ضروری سوالات و جوابات اور بحث و مباحثے کئے جارہے ہیں جو کسی بھی صورت نہ ان کے حق میں بہتر ہیں نہ ہی قوم و ملت کو اس سے کوئی فائدہ پہنچنے والاہے۔ لوگ اپنی بڑی بڑی تصویریں فیس بک پر شو کرتے ہیں اور ماشا ءاللہ، بہت خوب، نہایت شاندار کے جوابات کے منتظر رہتے ہیں اور اسی سے ذہنی  سکون حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہی علامتیں ہیں دنیا میں عظیم اورمثالی انسان بننے کی۔ ایک اور بڑی خرابی ذکر کرتے چلیں جس نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ آج ہم اندر سے کچھ، اور باہر سے کچھ اور نظر آتے ہیں، ہمارے پاس ایک نہیں کئی کئی چہرے ہوگئے ہیں اور جہاں جیسا موقع ہو ان چہروں کا استعمال کررہے ہیں۔

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہے کئی بار دیکھئے 

جیسا دیس ویسا بھیس ایک منفی مثل ہے جو مکاری، فریب دہی اور مطلب پرستی کیلئے وضع کی گئی تھی آج اپنے قول و عمل کے ذریعے ہم اسی کی تصدیق و تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی اصول ہےنہ ضابطہ۔ اب تو ہم نے یہ عادت بھی بنالی ہے کہ سامنے تعریف کے پل باندھ دیتے ہیں اور پشت بدلتے ہی غیبت، چغلیوں اور برائیوں کے انبار لگادیتےہیں، ان خرافات کا ہم اتنا زیادہ شکار ہوگئے ہیں، کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو یہ لعنتیں پوری طاقت سے ہر جگہ اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیںاور کبھی کبھی تو یہ مغالطہ ہونے لگتا ہے کہ غیبت، بہتان اور جھوٹ جیسی برائیاں ہم پر مباح تو نہیں ہوگئی ہیں، یا پھر اپنے فائدے کیلئے ہم نے انہیں جائز قرار دے دیا ہے۔ ماضی میں مسلمانوں نے اپنے اعلیٰ ترین کردارو عمل سے ایسی شناخت بنائی تھی کہ غیرمسلم بھی کہہ اٹھتے تھے کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا اور وہ اثبات و نفی کے درمیان نہیں رہتا، یعنی  ’ ہاں  ‘ اور ’ نہیں ‘ کے بیچ کی کوئی چیز وہ نہیں جانتا۔ ظاہر ہے اثبات و نفی کے درمیان کا عمل خود غرضی اور فساد کا ہی سبب بنتا ہے اور سماج و معاشرے کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اب ہماری شناخت یہی ہوگئی ہے کہ ہم ہاں اور نہیں کے درمیان ہی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ہمارا کوئی معیار ہی نہیں رہ گیا ہے۔ آج جب ہم اپنے گردوپیش کاجائزہ لیتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ہمارا وجود اللہ و رسول کے وضع کردہ نظام واصول پر کہیں فٹ نہیں بیٹھتا، ہمارے اندر فکری بے راہ روی جڑپکڑتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے ساری اخلاقی حدیں پار کررہے ہیں، اپنےمعمولی فائدے کیلئے دوسروں کا بڑے سے بڑانقصان بھی ہمیں منظور ہے۔  اصلاح معاشرہ کیلئے قرآن اور اسوہ ٔ رسول سب سے بڑا مآخذہے، اس سے تعرض و انحراف انتہاکو پہنچ رہا ہے۔ علماءاوردینی مدارس تو ہیں لیکن سب نفسانفسی کا شکار ہیں۔ خانقاہیں تو ہیں مگر وہاں سے وہ روحانی نظام غائب ہےجس سے دل کی کھیتیاں شاداب ہوجایا کرتی تھیں، مسجدیں آباد ہیں لیکن دل کی دنیا ویران ہے۔ فرقہ بندی اور مسلکی انتہاپسندی عروج پر ہے۔ کیا ہمارے پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔