گھڑیال کے آنسو

آج کے دن مسلم خواتین کی ہم دردی میں خوب آنسو بہائے جائیں گے۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

        گھڑیال (مگر مچھ) کے آنسو بہانا اردو کا مشہور محاورہ ہے۔  اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب گھڑیال کسی جانور کو شکار کرکے اسے نگل رہا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ ان آنسوؤں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گھڑیال کو شکار ہونے والے جانور کے انجام پر رونا آرہا ہے، لیکن دیکھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے شکار کی موت پر افسردہ ہے اور آنسو بہا رہا ہے۔ اسی لیے سیانے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ گھڑیال کو آنسو بہاتا دیکھ کر دھوکے میں نہیں آجانا چاہیے، بلکہ اس کے مکر سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

       آج ( یکم اگست کو) ہندوستان میں ‘مسلم خواتین کے حقوق کے دن’ کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ملک کے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نے کہا ہے کہ

” وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے یکم اگست 2019 کو ‘طلاق ثلاثہ’ کو قانونی جرم قرار دیا تھا۔ اس قانون کے ذریعے مسلم خواتین کی خود انحصاری، خود اعتمادی اور عزَّتِ نفس کو مضبوط بناتے ہوئے ان کے آئینی، بنیادی، جمہوری اور مساوی حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس لیے اس کی یاد میں ہر برس یکم اگست کو مسلم خواتین کے حقوق کے دن کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ "

اس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دن پورے ملک میں سرکاری سطح پر اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کی جانب سے بھی جلسے منعقد کیے جائیں گے، جن میں مسلم خواتین کی مظلومیت کا رونا رویا جائے گا، اسلام کے عائلی قوانین کو ظالمانہ اور خواتین مخالف قرار دیا جائے گا، طلاق کے جھوٹے اعداد و شمار خوب بڑھاچڑھا کر پیش کیے جائیں گے اور یکساں سِوِل کوڈ کو ان تمام مسائل کا حل بتایا جائے گا ۔ غرض آج کے دن مسلم خواتین کی ہم دردی میں خوب آنسو بہائے جائیں گے۔ لیکن میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور خاص طور پر اپنی مسلمان بہنوں اور بیٹیوں کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمدردی کے ان ‘بھاشنوں’ سے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہ گھڑیال کے آنسو ہیں، جو دکھاوے کے طور پر ان کی ہم دردی میں، لیکن حقیقت میں انہیں دین سے برگشتہ کرنے کے لیے بہائے جاتے ہیں۔

        مسلم خواتین کے حقوق کا دن منانے والوں کو اگر خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے وہ ہندو خواتین کے حقوق کا دن مناتے، جن میں طلاق کا تناسب مسلم خواتین سے زیادہ ہے۔ اگر انہیں خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے وہ ان ہندو خواتین کی فکر کرتے جو طلاق نہ ہونے کے باوجود طویل عرصے سے علیٰحدگی (separation) کی زندگی گزار رہی ہیں۔ اگر انہیں خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے ان ہندو خواتین کی فکر کرتے جنہیں نہ طلاق ہوئی ہے نہ علیٰحدگی، پھر بھی انہیں ازدواجی زندگی کا سُکھ اٹھانا نصیب نہیں ہے اور وہ گُھٹ گُھٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ اگر انہیں خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے وہ ان ہزاروں بیوہ ہندو خواتین کی باعزّت رہائش کا انتظام کرتے جو متھرا ضلع (اترپردیش) کے مندروں کے شہر ورِنداون میں دَر دَر بھٹک رہی ہیں اور انتہائی کس مَپُرسی اور ذلّت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ اگر انہیں خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے وہ کشمیر کی ان ہزاروں خواتین کی داد رسی کرتے جن کے شوہر غائب کردیے گئے اور جو سہاگن ہوتے ہوئے بیواؤں  (Half widows) جیسی زندگی گزار رہی ہیں۔ اگر انہیں خواتین سے واقعی ہمدردی ہوتی تو پہلے وہ ان خواتین کو انصاف دلاتے جن کے بیٹے، شوہر یا بھائی ہجومی قتل (Mob lynching) کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جن کا اب کوئی پُرسانِ حال نہیں بچا ہے۔ انہیں ان خواتین کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہیں تو بس ان مسلم خواتین کے لیے گھڑیال کے آنسو بہانے ہیں جنھیں کسی وجہ سے طلاق ہوگئی ہے اور جن کی مدد کے لیے دو برس قبل تین طلاق کے جرم ہونے کا قانون بنایا گیا ہے۔

           اسلام کا نظامِ طلاق اس کے ماننے والوں کے لیے رحمت تھا، لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے اپنی بد عملی کے سبب اسے زحمت بنادیا ہے۔ طلاق کا آپشن اس لیے رکھا گیا تھا کہ ازدواجی زندگی میں ناموافقت کی صورت میں زوجین گُھٹ گُھٹ کر پوری زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں، بلکہ علیٰحدگی اختیار کرکے نئی خوش گوار ازدواجی زندگی کا آغاز کریں۔ طلاق کسی عیب، نقص یا داغ پر دلالت کرنے والی چیز نہ تھی، اسی لیے ابتدائی صدیوں میں طلاق کے بعد عورت کا بہت آسانی سے دوبارہ نکاح ہوجاتا ہے، لیکن موجودہ دور میں طلاق کو عورت کے لیے اتنا بدنما داغ بنادیا گیا کہ اس کا دوسرا نکاح بہت زیادہ دشوار ہوگیا ہے۔ تین طلاق اصلاً طلاق کے تین مواقع تھے، جنھیں الگ الگ استعمال کرنا مطلوب تھا، لیکن ذہنوں میں ایسا تصور بیٹھ گیا اور بٹھادیا گیا کہ کسی معمولی بات پر بیوی سے ناراضی کا اظہار ایک سانس میں تین طلاق دے کر کیا جاتا ہے۔ قرآن میں طلاق کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اصلاحِ احوال اور مصالحت کی تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی اگر نباہ ممکن نہ ہو تو سوچ سمجھ کر اور شائستگی کے ساتھ صرف ایک طلاق دی جائے، عدّت پوری ہوتے ہی رشتۂ ازدواج ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا  اور زوجین اپنا نکاح کسی دوسری جگہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اس طریقے کا فائدہ یہ تھا کہ اگر علیٰحدگی کے بعد کچھ عرصہ گزر جانے کے باوجود مرد اور عورت کا نکاح کہیں دوسری جگہ نہ ہوپایا ہو اور وہ دوبارہ باہم نکاح کے بندھن میں بندھنا چاہیں تو اس کی گنجائش باقی تھی۔ اس طریقے کا یہ بھی فائدہ تھا کہ ایسا وہ دو مرتبہ کرسکتے تھے، لیکن ایک ہی سانس میں تین طلاق دینے والے خود کو ان سہولیات سے محروم کرلیتے ہیں جو قرآن انہیں فراہم کرنا چاہتا ہے۔

      مسلم خواتین کی نام نہاد حمایت میں منظور کیا جانے والا قانون اپنے اندر متعدد خامیاں اور تضادات رکھتا ہے۔ ان پر بحث کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے درمیان یہ بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ وہ بہ یک وقت تین طلاق کا استعمال ہی نہ کریں۔  زوجین کو چاہیے کہ وہ رشتۂ ازدواج میں بندھنے کے بعد ایک دوسرے کے حقوق خوش دلی سے ادا کریں۔ اس معاملے میں مرد کی ذمے داری بڑھ کر ہے۔ اگر تمام تدابیر اختیار کرنے کے باوجود نباہ ممکن نہ ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس طرح مذکورہ قانون کی نامعقول سزا سے بچا جاسکتا ہے اور قرآنی طریقۂ طلاق پر عمل کرکے اس کے فوائد سے بھی فیض یاب ہوا جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔