گیان واپی مسجد بھی بابری مسجد کی راہ پر

کلیم الحفیظ

ایک بار پھر ملک میں بابری مسجد کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ وہی سب کچھ ہورہا ہے جو بابری مسجد کے لیے کیا گیا تھا۔ پہلے بیان بازی،پھر بھگوان کو فریق بنا کر مقدمہ کا اندراج، پھر عدالت کے ذریعے تحقیقات کا حکم، میڈیا پر مباحثے،آستھا اور عقیدے کی بحث،یہاں تک کا سفر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ظاہر ہے کسی دن وہاں شدت پسند جمع ہوں گے، مسجد پر چڑھیں گے اور توڑ دیں گے۔ کچھ سیاست دان گھڑیالی آنسو بہائیں گے۔ عدالتوں میں سماعت ہوگی۔ مسلم لیڈر شپ سے عہد لیا جائے گا کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ اس کے بعد آستھا کو بنیاد بنا کر ہندو فریق کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا۔ اس طرح ایک اور مسجد کا زمین سے نام و نشان مٹادیا جائے گا۔ یہ عمل ٹھیک اسی طرح ہو گا جس طرح بابری مسجد کے مقدمہ میں ہوا تھا۔ مسلمان صبر کریں گے اور ہندواپنی فتح کے بعد متھرا کی شاہی عید گاہ مسجدکی جانب کوچ کریں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گاجب تک کوئی عدل پسند حکومت برسر اقتدار نہ آجائے۔ موجودہ حکومت سے کسی بھی خیر کی توقع کرنا فضول ہے۔ اس کا اپنا ایجنڈا ہے۔ اس کا ایک نظریہ ہے۔ جس کی بنیاد ہی بھید بھائو،اونچ نیچ اور ظلم پر رکھی ہوئی ہے۔

مسجدوں کو توڑ کر مندر بنانے کے سلسلہ کو جاری رکھنا ملک کی سیاست کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ نہیں کیا گیا تو عوام کا رخ حقیقی مسائل کی جانب ہوجائے گا۔ مسجد، مندر کی سیاست کو ہوا دینے کی دوسری وجہ مسلمانوں کو ذہنی پریشانی دینا ہے تاکہ وہ اپنی تعمیر و ترقی کے بارے میں نہ سوچ سکیں۔ مسلم قیادت کو بھی الجھا کر رکھنا ہے کہ وہ کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نہ کرسکے، اپوزیشن کو بھی امتحان میں ڈالنا ہے کہ وہ اگر مسجد کی حمایت کرے تو ہندو ئوں کی ناراضگی مول لے۔ اگر مسجد کے خلاف بیان دے تو مسلمانوں کے ووٹ سے محروم ہوجائے۔ ہم پچھلے چالیس سال سے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ بابری مسجد کے معاملے میں رتھ یاترائوں سے لے کر انہدام تک اور انہدام سے لے کر عدالت کے فیصلے تک پوری مذہبی اور سیاسی قیادت اسی میں الجھ کر رہ گئی تھی۔

موجودہ فسطائی سرکار کے دور میں درجنوں بار آئین کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر اس بار یہ مذاق خود عدلیہ کی جانب سے اڑایا جارہا ہے۔ جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ 1991میں اس وقت کی کانگریس سرکار نے پارلیمنٹ میں ایک قانون THE PLACES OF WORSHIP (SPECIAL PROVISIONS) ACT, 1991 بنایا تھا۔ جس کے مطابق بابری مسجد کو چھوڑ کر باقی تمام مذہبی مقامات کی وہی حیثیت رہے گی جوآزادی کے وقت 1947میں تھی۔ یہ قانون موجود ہے۔ اس قانون کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سناتے وقت آئین کی بنیاد کا خاص حصہ بتایاتھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ نے اس ایکٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کی سزا حال کو نہیں دے سکتے۔ اس لیے یہ ایکٹ لایا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کے یہ الفاظ بھی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں درج کیے ہیں۔

جب تک یہ قانون موجود ہے کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کی موجودہ صورت بدلنے پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی۔ نہ کوئی اپیل کی جاسکتی ہے۔ قانون کے مطابق اپیل کرنے پر تین سال کی سزا کا حکم ہے۔ اسی ایکٹ کی بنیاد پر یوپی ہائی کورٹ پہلے ہی اپیل خارج کرچکی ہے۔ اس کے بعد فریق بدل کر ضلع عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت نے قبول کرلیا اور سروے کا حکم دے دیا۔ یہ سارا عمل آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ ہائی کورٹ سے خارج ہوجانے کے بعد ضلع عدالت کا سنوائی کرنا ہائی کورٹ کی توہین ہے۔ اس معاملہ میں ہندو فریق کی بد نیتی اور عدالت کا غیر آئینی عمل یہیں تک نہیں رکا۔ بلکہ16مئی کو جب  8بجے سروے شروع ہوا۔ چونکہ سروے کے دوران کسی کو موبائل لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن وشنو جین نے جھوٹ بول کر کہ میرے والد کی طبیعت خراب ہے، موبائل دے دیجیے۔ میں ان سے بات کرکے دیتا ہوں۔ انھوں نے فون سے اپنے والد سے بات کرکے انھیں کورٹ بھیج دیااورسروے کی رپورٹ بھی لیک کردی۔ بنارس کی عدالت کا معمول ہے کہ کوئی دخواست ۱۲ بجے سے پہلے داخل ہو تو اس کا فیصلہ دو بجے کے بعد سنا یا جاتا ہے۔ مگر عدالت نے وشنو جین کے والد کی اپیل پر 12بجے ہی فیصلہ سنادیا۔ اس حال میں کہ دوسرا فریق وہاں موجود نہ تھا۔ کلکٹریٹ کی چھٹی تھی اوربار ایسویس ایشن نے یہ آرڈر جاری کیا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کسی فریق کے غائبانہ میں نہ دیا جائے۔ اس طرح کا کھیل بابری مسجد کے معاملے میں بھی ہوا تھا۔ 1949میں عشاء کے بعد چوری سے مورتیاں رکھی گئیں، صبح کو شور مچادیا کہ رام للا پرکٹ ہوگئے۔ پھر ضلع عدالت نے مسجد پر تالا لگادیا۔ یہاں پر بھی عدالت نے اپنے بنائے ہوئے کمیشن کی رپورٹ سے پہلے، مسلم فریق کی غیر موجود گی میں، بار ایسوسی ایشن کے فیصلے کے خلاف، وضو خانے کو سیل کرنے کا حکم دے دیا۔ جب کہ اسی عدالت کے حکم پر فریقین سروے کرارہے تھے۔

بھارت ایک قدیم ملک ہے۔ یہاں حکمران بدلتے رہے ہیں۔ قدیم شہروں کے زیر زمین بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ کوئی زمانہ تھا جب بھارت کی سرزمین پر بودھوں اور جینیوں کا راج ہوا کرتا تھا۔ پھر آدی شنکر آچاریہ نے ہندو مذہب کی تبلیغ کی اور انھیں ہندو بنایا گیا۔ اسی کے ساتھ بودھ اورجین عبادتگاہوں کو مسمار کرکے مندر تعمیر کیے گیے۔ آپ قدیم مندوروں کی جڑوں میں جاکر دیکھیے۔ آپ کو بودھ اور جین عبادت گاہوں کے آثار نظر آئیں گے۔ اسی طرح قدیم آبادیوں کی کھدائی کریں گے تو آپ کو زمانہ ٔ قدیم کی بہت سی چیزیں مل سکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جڑوں کو کھود کر بھارت کو کھوکھلا کردیں۔

اس معاملہ میں میڈیا کا رویہ بھی متعصبانہ ہے۔ گودی میڈیا کے تمام چینلس پر بحثیں کی جارہی ہیں۔ مسجد کے سروے کی تحقیقات لیک کی جارہی ہیں۔ میڈیا پورے ملک کے ماحول کو خراب کرنے میں سو فیصد کردار ادا کرہا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا رہا ہے۔ آئین کے بجائے آستھا کی بات کررہا ہے۔ یہ سب کچھ آر ایس ایس کے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔ انگریزوں کے سامنے سر جھکانے والے بھارت کے مغل حکمرانوں کو حملہ آور کہہ رہے ہیں۔ انھیں اورنگ زیب ؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی پر بھی اعتراض ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس کا کیا حل ہے؟ سب سے زیادہ مضبوط کسی بھی ملک کا قانون ہوتا ہے۔ جس کو مضبوط وہاں کی عدالتیں بناتی ہیں۔ لیکن جب عدالتیں ہی غیر جانب دار نہ رہیں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ جب منصف ہی بے وفا ہوجائے توپھر کس سے امید وفا کی جائے۔ میری رائے ہے کہ ان حالات میں مایوس ہوکر بیٹھ جانے اور تماشہ دیکھنے کے بجائے اپنے حصے کا کام کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ایک کام تو یہ ہے کہ مسلم جماعتیں اور ملی تنظیمیں الگ الگ کچھ کرنے کے بجائے ایک مشترکہ کمیٹی بنائیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ کام کرسکے، اور فریق ثانی کو بھی حسب موقع بات کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن خدا را ایسا نہ ہو کہ بابری مسجد رابطہ کمیٹی کی طرح گیان واپی کمیٹی بھی تقسیم کا شکار ہو۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت دونوں کل ہند سطح کے ادارے ہیں جن میں تقریباً سبھی مسالک کے نمائندے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے یہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس کے بعد کسی فرد واحد یا کسی تنظیم کو کسی بھی قسم کا بیان دینے اور کارروائی کرنے کا حق نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ پابندی لگانا ایک مشکل کام ہے۔ یہ ذمہ داری تو ہم میں سے ہر فرد کی ہے کہ جب کسی معاملے پر ہمارے اجتماعی ادارے کوئی فیصلہ لے لیں تو انفرادی طور پر ہم اس معاملے میں اپنی زبان خاموش رکھیں۔

دوسرا کام اس کے پیچھے کی سازش کو ناکام کرنے کا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عوام کی توجہ سنجیدہ اور بنیا دی مسائل، مثلا ً بے روزگاری اورمہنگائی سے ہٹ جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مسائل کو ہر سطح سے اٹھائیں۔ ہمارے اسٹیج سے ہمارے قائدین، ہمارے اخبارات میں ہمارے قلم کار،ہماری مساجد سے ہمارے ائمہ وخطباء ان مسائل پر بات کریں۔ سڑکوں پر احتجاج کریں۔ اہل ملک کی توجہ مندر،مسجد کے بجائے ان کی زندگی اور ان کی نسلوں کے مستقبل سے وابستہ مسائل کی جانب مبذول کرائیں۔

حکومت کا منصوبہ ہے کہ جذباتی سیاست کے ذریعے اہل ملک کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دیا جائے،طبقات میں عدم اعتماد پروان چڑھے اور باہمی تعاون کی فضا ختم ہو۔ اس کے سد باب کے لیے برادران وطن کے ساتھ اچھے رشتے بنانے ہیں۔ ان سے محبت کرنا ہے۔ ان کے کام آنا ہے۔ ان پر یہ باور کرنا ہے کہ اسلام اور مسلمان ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ بحث و مباحثے میں جنگ و جدال کے بجائے اپنی گفتگو دلائل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ صرف ایک مسجد کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اسلامی شعائر کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت اور اہل ملک کی فلاح و کامیابی بھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہئے۔ موجودہ آئین کے تحت عدالتی کارہ جوئی کے ساتھ ساتھ عوامی رابطہ کی ضرورت بھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔