گیند نسیم زید ی کے پالے میں!

حفیظ نعمانی

کل شام سے ہر چینل نے اپنی کار کردگی کا ڈھول بجانا شروع کردیا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ ہر الیکشن کے بعدیہ ذہنی عیاشی ہوتی ہے اور عیاشی اور حقیقت میں سینٹی میٹر کا نہیں میٹر کا فرق نکلتا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ ہر الیکشن کے بعد وہی پھٹر بازی ہونے لگتی ہے اور ایسی بحث ہوتی ہے جیسے یہ قیاس آرائی یا اندازے نہیں ہیں بلکہ مشین کے اندر کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ 2013ء میں دہلی میں عام آدمی پارٹی کو آج تک نے 4 سیٹیں دی تھیں اور اس میں اضافہ کی بات سننے پر بھی تیار نہیں تھے۔ دوسرے چینل بڑی فیاضی سے 8۔13۔11 دے رہے تھے اور جب حقیقت سامنے آئی تو 28 عام آدمی پارٹی کے تھے اورکانگریس کو جو 15 سال سے حکومت کر رہی تھی اسے صرف ۸ سیٹیں ملی تھیں ۔

اور جب 2015 میں دوبارہ دہلی کا الیکشن ہوا تو این ڈی ٹی وی انڈیا کے ایک منجھے ہوئے رپورٹر منورنجن بھارتی ہر شام کو دہلی کے پارکوں میں جاتے تھے ا ور چہل قدمی کرنے اور چاٹ سے شوق کرنے والوں سے معلوم کرتے تھے کہ دہلی میں کیا ہوگا؟ تو جواب میں وہ بی جے پی کی حکومت بتاتے تھے اور جب اروند کجریوال کی بات کرتے تھے تو جواب ملتا تھا کہ وہ غیر مستقل مزاج ہیں ان کا کوئی سوال نہیں ۔ اور سامنے ہے کہ صرف کجریوال ہی کجریوال ہیں ۔

یو پی کے حالیہ الیکشن کے بارے میں جو قیاس آرائیاں ہوئی ہیں اس میں کسی نے لڑتا بھڑتا دکھایا ہے اور کسی نے بی جے پی کی حکومت بنا دی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں جب یہ اخبار ہوگا تو نتیجے آرہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ مودی جی کو اتنی سیٹیں مل جائیں کہ وہ اپنی حکومت بنا لیں ۔ انہوں نے یہ الیکشن بی جے پی کا نہیں اپنااوراپنی حکومت کا بناکر لڑاہے۔اور انہوں نے جو نہ پنجاب میں کیا نہ اترا کھنڈ میں اور نہ منی پورمیں  وہ اتر پردیش میں بھر پورطریقہ سے کیا ہے کہ الیکشن کو ہندو مسلم بنا دیا۔ اور پانچویں رائونڈ سے انہوں نے وہ روپ اختیار کرلیا جو گجرات میں 2002 میں اپنا یا تھا اور وہ گجرات کے ایک کٹر ہندو لیڈر بن کرسامنے آئے تھے جہاں مسلمان کے لئے سانس لینے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

نریندر مودی نے اپنی وزارت عظمیٰ کو بھی دہلی میں رکھ دیا تھا اور وہ ڈاکٹر پروین توگڑیا، ونے کٹیار اور ساکشی مہاراج کی صف میں کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ کلدیپ نیر جو ملک میں سب سے بزرگ صحافی ہیں انہوں نے بھی ۸ مارچ کے کالم میں اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا ہے۔لیکن ہمیں حیرت تھی کی سپریم کورٹ کے اس حکم کے باوجود کہ مذہب یا ذات برادری کے نام پر ووٹ مانگنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اور اس کی پابندی الیکشن کمیشن کو کرانا تھی۔ لیکن سب سے زیادہ اور انتہائی تلخ لہجہ میں نریندر مودی نے پورے الیکشن کو ہندو مسلم بنا دیا۔ اسے ٹی وی کی لعنت کہا جائے گا کہ جو بات وہ کتنی ہی خطرناک ہو ایک بار کہی جائے گی لیکن ٹی وی اسے پچاس بار کہے گا اور نفرت میں جو کسر رہ گئی ہے وہ پوری کردے گا۔ جیسے مودی ایک بار بابا وشو ناتھ مندر گئے اور وہاں جو انہوں نے کیا یا جو ان سے کرایا گیا وہ ایک واقعہ تھا لیکن ہر چینل نے بار باراسے دکھایا جس سے ہندو یہ سمجھیں کہ مودی جی صرف پوجا پاٹ کرتے رہے۔

 یہ بھی ۵ ویں رائونڈ کی بات ہے جو انہوں نے گلا پھاڑ کر کہی کہ اگر گائوں میں قبرستان کو زمین دی جائے تو شمشان کے لئے بھی دی جائے اور رمضان میں بجلی دی جائے تو دیوالی میں بھی دی جائے۔ اور یہ نفرت بھری بات کم ازکم 25۔25 مرتبہ سب نے سنوائی ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنرنسیم زیدی صاحب مسلمان ہیں ۔ اگر اس کرسی پر ہندو بھی ہوتا تو کیا وہ یہ ہمت کرسکتا تھا کہ مودی کی یہ نفرت پھیلانے والی آواز بند کردیتا؟ بات صرف یہ تھی کہ اب تک وہ بی جے پی کی حکومت کے وزیر اعظم بن کر الیکشن لڑ رہے تھے۔جس میں یہ کہا جاتا تھا کہ صوبہ کو ۱۵ برس لوٹا گیا ہے۔یہ یہ یہ نہیں کیا گیا۔ اور جب ہماری حکومت بنے گی تو ہم وہ وہ وہ کریں گے۔ اور مودی جی نے 2014 ء سے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔ اور اکھلیش نے اتنا کیا کہ ہر کسی نے دیکھا بھی اور تعریف بھی کی اس لئے مودی نے اتر پردیش کو وہ کردیا جو گجرات میں کرتے رہے ہیں ۔اور اس لئے کردیا کہ وہ وزیر اعظم ہیں ۔ ان کا کون کچھ بگاڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن تو جمہوریت کا کھلونا ہے۔رہا سپریم کورٹ تو کون مسلمان ہے جو اس کی ہمت کرے گا کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف فریاد لے کر جائے۔ اور اکھلیش یا مایاوتی کیوں سامنے آئیں گی؟ انہوں نے بار بارکہا کہ مودی جی نے بجلی اور زمین کو بھی ہندو اور مسلمان بنا دیا۔ نریندر مودی صاحب گجرات میں 12 برس وزیر اعلی رہے ہیں اور مولانا وستانوی جیسوں سے بھی ان کے تعلقات ہیں ۔گجرات میں مسلمان کم ضرور ہیں لیکن بہت دین دار ہیں ۔ مودی خوب جانتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کو بجلی جلانے کا شوق نہیں ہے اور نہ ضرورت ۔ہر مہینہ کہ طرح رمضان میں بھی ضرورت بھر بجلی خرچ ہوتی ہے۔لیکن ان کا مقصد صرف ہندو کو اکھلیش سے ناراض کرنا تھا اور نہ قبرستان اور شمشان کاکوئی مسئلہ تھا۔ لیکن جاہل ہندووزیر اعظم کی بات کو غلط کیسے مانے گا؟

اب اگر اتر پردیش میں مودی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر مودی پورے ملک میں فرقہ پرستی کی آگ لگا دیں گے۔ا ور اگر اس کے بعد بھی ہار گئے تو ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے سے بچ جائے گا۔ مودی جی کے لئے اگلے سال گجرات ہے جو ان کی ناک کا سوال ہے اور پھر 2019ء میں لوک سبھا کا الیکشن ہے۔جس میں جھوٹے وعدوں کی گنجائش نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا اس کا انتظار کرنا چاہئے۔

چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی صاحب نے اکھلیش یادو کو سماجوادی پارٹی اورسائیکل دے کر جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ فیصلہ مودی جی کو ہضم نہیں ہوا ہوگا۔ لیکن سیاسی حلقوں میں سب نے داد دی تھی۔مودی جی نے الیکشن کو جو رنگ دے دیا وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن زیدی صاحب سپریم کورٹ میں ان کی شکایت نہیں کرسکتے۔ اور سپریم کورٹ از خود کچھ کرے اس کا امکان نہیں ۔ لیکن اگر ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے سے بچانا ہے تو نسیم زیدی صاحب کو استعفی دے کر باہر آجانا چاہئے۔ اور پریس کانفرنس بلا کر کہنا چاہئے کہ کمشنر کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم کو طلب کرکے ان سے جرح کرے۔ اور وہ اس پر خاموش رہ کر فرقہ پرستی کی پرورش کا گناہ بھی نہیں کرسکتا اس لئے ع استعفی میرا با حسرت دیا۔ اگر وہ ایک بار اور جرأت کا مظاہرہ کریں تو اپنی شخصیت میں چار چاند لگا لیں گے اور ملک کو گجرات بننے سے بچا لیں گے اور ہندوستان کے محسنوں میں اپنے نام کا اضافہ کرادیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔