امامِ انقلاب: مولانا عبیداللہ سندھی

نایاب حسن

 آج امام انقلاب مولاناعبیداللہ سندھی کایومِ پیدایش ہے،وہ 10مارچ 1872ء کوسیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیداہوئے تھے،اِدھرانھوں نے اس دنیامیں آنکھیں کھولیں اور ادھر ان کے والد آں جہانی ہوگئے،والدہ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ماموکے پاس سندھ بھیج دیا،وہاں توانھوں نے ایک الگ ہی تعلیم حاصل کرلی،خدارسیدہ انسانوں سے ملاقات ہوئی،مولانا عبیداللہ پائلی کی کتاب ’’تحفۃ الہند‘‘نے دل میں ایمان کی قندیل روشن کی ،پھر شاہ اسماعیل شہیدکی’’ تقویۃ الایمان‘‘نے اس کی روشنی کوتیزترکردیا اوردیکھتے ہی دیکھتے بوٹاسنگھ عبیداللہ میں تبدیل ہوگیا،1888ء میں دیوبند آئے،یہاں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کی شاگردی و ہم نشینی حاصل رہی،مولانانے انہی سے قاسمیت کاعرفان حاصل کیا اور ولی اللہی افکار کے اَعماق میں اترنے کی صلاحیت پیداکی، استاذوشاگرد میں ایسی گاڑھی چھنی کہ مستقبل میں شیخ الہند کے نفسِ ناطقہ کے طور پر متعارف ہوئے،ان کے جوش و جذبۂ آزادی کوعملی جامہ پہنانے کے لیے وہ سب کچھ کیا ، جو شیخ الہند چاہتے تھے ، عین جوانی میں دیوبند سے دہلی ،دہلی سے کابل، کابل سے روس ،روس سے ترکی اورترکی سے حجاز کی خاک چھانتے رہے۔

مسلسل چوبیس سال کی خانہ بدوشی کے بعد عبیداللہ سندھی جب 1938ء میں ہندوستان لوٹے ،تومنظرنامہ بہت کچھ بدل چکاتھا اور بہت کچھ بدل رہا تھا،خود ان کی زندگی آخری پڑاؤ پر پہنچ رہی تھی،البتہ حالات کے جبر اور انقلابات کی سفاکیت نے ان کے چہرے کے خطوط کوتومتاثر کیاتھا؛لیکن ان کا فکر نہایت آبدار تھا،انھوں نے افغانستان کی تیزی سے بدلتی سیاست کامشاہدہ کیا؛بلکہ اس میں شریک رہے اور1915ء میں افغانستان میں راجہ مہندرپرتاپ کے زیرقیادت قائم ہونے والی موقت حکومت میں وزیر براے امورِداخلہ تھے، عالمی جنگ کے دوران اوراس کے بعد کے حالات کوبہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا،روس میں لینن کی سربراہی میں اٹھنے والے طوفانِ انقلاب کامشاہدہ روس میں جاکر کیا،ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کی رخصتی اور کمال پاشاکی قیادت میں نئے ترکی کی تاسیس دیکھی،حجازمیں آل سعود کی زیرقیادت وجودمیں آنے والی نئی حکومت کے طریقہ ہاے کارکوبھی پرکھا اور جانچا، الغرض جب وہ ہندوستان لوٹے ،توان کے ذہن و دماغ میں عالمی سیاست کے احوال و انقلاب کا صرف شنیدہ خاکہ نہیں تھا؛بلکہ ان تمام انقلابات سے وہ خود گزرکر آئے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ ہندوستانی سیاست کو وہ رخ دیں ،جوپوری قوم کے لیے نفع بخش ہو۔

 عبیداللہ سندھی کاعلمی و ایمانی سانچہ شیخ الہند کی صحبت میں تیارہوا،شاہ ولی اللہ کے افکارومصنفات نے اسلامی فکرو فلسفہ پر ان کے ایقان کوتقویت بخشی اور عالمی سیاست کے عملی تجربے نے ان کے سیاسی افکار و تصورات کی تعمیر و تشکیل میں اپنا رول اداکیا،برصغیر میں مولاناسندھی ایک واحدایسی شخصیت ہیں ،جس نے شاہ ولی اللہ کے افکار و فلسفے کی کماحقہ توضیح وتشریح کی ہے،پھرمولاناسندھی خود فکرونظر کی اس بلندی پر پہنچ گئے تھے کہ وہاں تک دیکھنے میں ہی بڑے بڑے جغادریوں کی ٹوپیاں گرنے لگیں ،سوبجاے اس کے کہ افکارِسندھی کی تفہیم کی کوشش کی جاتی اورسماج و سیاست کی اصلاح کے تعلق سے ان کی تجاویزوتحاریر پر عمل درآمد کامنصوبہ بنایا جاتا،اُنھیں نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی،اپنے لوگ بھی جب سندھی کا ذکر کرتے ،توانھیں تحریکِ ‘‘ریشمی رومال ‘‘میں مولاناکی حصے داری سے آگے بڑھنے کی توفیق نہ ہوتی۔اس کی وجہ کیا تھی؟یہ سمجھنے کے لیے ہمیں سندھی کے افکار وتصنیفات کامطالعہ کرنا چاہیے۔ جب اکثراربابِ علم و فکر مولاناسندھی کی باتوں اور ان کی تقریر و تحریر کو مختلف بہانوں سے عملی طورپرناقابلِ اعتناسمجھ رہے تھے،تبھی گجرات(پنجاب)میں جنمے حقیقت پسند،وسیع العلم والمطالعہ انسان اورجامعہ ملیہ اسلامیہ وجامع ازہرکے فاضل پروفیسرمحمدسرورنے اس گوہرِ نایاب کی قدر پہچانی اوران کے ذریعے سے افکارِ سندھی سینے سے منتقل ہوکراوراق ومصنفات میں محفوظ ہوگئے ۔

مولاناسندھی نے مسلمانوں کی ہمہ گیر اصلاح کے لیے اصل منابعِ شریعت ،اپنے استاذشیخ الہندکے طرزِفکراورشاہ ولی اللہ دہلوی کی تشریحاتِ دین کی روشنی میں جوخاکہ بنایاتھا اورجسے انھوں نے اپنی تصنیفات، افادات اور ملفوظات میں جگہ جگہ بیان کیا ہے،انھیں اختیار کرکے مسلمانوں میں عالمی سطح پر خوشگوار سیاسی،سماجی وعلمی انقلاب کی شروعات ہوسکتی ہے،مولانا کوان تمام طبقات سے شکایت تھی،جو مسلمانوں کو فکری جمود،علمی تعطل اور جذبۂ عمل سے عاری بنانے میں کسی بھی قسم کاکرداداداکرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کئی بار نئی روشنی میں نہائے ہوئے اربابِ فکر ونظر کے ساتھ صاحبانِ جبہ و دستار کے ذہنی افلاس کوبھی زد پرلیااوراس وجہ سے بھی انھیں علماکے ایک بڑے طبقے کی جانب سے جان بوجھ کرنظرانداز کیاگیا،مولاناسندھی کی فکری بلند پروازی اور علم و نظرکی وسعت ایسی تھی کہ اگر وہ دیارِ یورپ میں ہوتے ،توان کا فکری اسکول ہزارہاافراد کی تحقیق و تقلید کامحور ہوتا،ہماری گذشتہ وموجودہ نسلوں کاانھیں فراموش کردینا ایک افسوس ناک المیہ اورایک اجتماعی جرم ہے!!

’’مولاناعبیداللہ سندھی:حالات،تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘(مرتب:پروفیسرمحمدسرور)سے چنداقتباسات،انھیں دل کی آنکھ سے دیکھیے اورمولاناسندھی کے اقوال وافکار کی واقعیت ، وسعت پذیری ومعنویت پرسردھنیے:

(1)’’ہمارے موجودہ مذہبی طبقے ناکارہ ہو چکے ہیں ، وہ آسانی سے رجعت پسندی کا آلۂ کار بن جاتے ہیں ، نیز اب تک مذہب کے نام سے ہمارے یہاں جو تحریکیں چلیں ، ان سے خود مسلمانوں کے اندر افتراق اور جھگڑے پیدا ہوئے‘‘۔

(2)’’خالص اور بے میل انسانیت ہی قرآن کا صحیح اور مکمل نصب العین ہے،جو تعلیم عام انسانیت کے تقدم اور ترقی میں ممد و معاون ہے، وہ حق ہے اور جو تعلیم انسانیت کے ارتقا میں حارج ہو، وہ تعلیم حق نہیں ہو سکتی‘‘۔

(3)’’جب کسی وجہ سے قوم کا ذہین طبقہ، جو اخلاق اور افکار کا مالک ہوتا ہے، اپنے فرضِ منصبی سے غفلت برتتا ہے، تو اس کی یہ صلاحیتیں ذلیل کاموں میں صرف ہونے لگتی ہیں ، ان کی ذلت کا پہلا قدم تملق ہے، یعنی حکمراں طبقے کی خوشامد کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی کوشش‘‘۔

(4)’’خدا پرستی کی پہچان اس دنیا میں تو یہی ہے کہ خدا پرست انسان کو خدا کے سارے بندوں سے محبت ہو اور وہ خدا کی خوشنودی، اس کی مخلوقات کی خدمت اور اس کی بہبودی میں ڈھونڈے‘‘۔

(5)’’ہم اس وقت جس مذہبیت کا شکار ہو رہے ہیں ، یہ روگی ہو چکی ہے، یہ سُنی کو شیعہ سے لڑاتی ہے، اہلحدیث کا دل حنفی سے میلا کرتی ہے، احمدی اور غیراحمدی میں نفرت ڈالتی ہے، ہندؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بناتی ہے؛ اس مذہبیت کے طفیل انسان انسان کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے، میں اس روگی مذہبیت کو مٹانا چاہتا ہوں ‘‘۔

(5)’’دس ہزار آدمیوں کی ایک بستی ہے، اگر اُس کا اکثر حصہ نئی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف نہیں رہتا ،تو وہ ہلاک ہو جائے گی، ایسے ہی اگر ان کا بڑا حصہ تعیش میں مبتلا ہو گیا، تو وہ قوم کے لیے بار بن جائے گا اور اس کا ضرر بتدریج ساری آبادی میں پھیل جائے گا، یوں ان کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے انھیں دیوانے کتے نے کاٹ کھایا‘‘۔

(6)’’مولانا (تب متحدہ)ہندوستان میں یورپ کی قسم کا مادی انقلاب چاہتے ہیں ،اس سے ان کا مقصود علم اور سائنس کی وہ برکات ہیں ،جن سے آج کل یورپ مستفید ہو رہا ہے، وہ اسے اپنے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں ؛ لیکن ان کی نظر صرف اس مادی انقلاب تک محدود نہیں ، ان کے پیشِ نظر تو ہر فرد ِانسانی کا تعلق کائنات کی رُوحِ کل سے جوڑنا ہے اور اسی کو وہ اسلام سمجھتے ہیں ،تاہم ان کے نزدیک جب تک انسان مادی دنیا پر قابو نہ پا لے اور علم و سائنس کی برکتیں ہر شخص کے لیے عام نہ ہو جائیں ، انسانیت بحیثیتِ مجموعی اسلام کے قریب نہیں آ سکتی، اسلام کی حکومت خدا کی حکومت ہے،خدا کی حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نعمتیں اس کے سارے بندوں کے لیے عام ہو جائیں ‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔