ہادیہ کی آدھی آزادی، مکمل آزادی کب ملے گی؟

عبدالعزیز

 ہادیہ کیرالہ ریاست کی ایک بالغ لڑکی ہے۔ اس کا بار بار میڈیا اور عدالتوں میں یہ بیان آچکا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے دین اسلام قبول کیا ہے۔ اس پر قبول اسلام کیلئے نہ کوئی دباؤ تھا اور نہ حرص اور لالچ کا کوئی معاملہ تھا۔ شادی بھی اس نے کیرالہ کے شافعین جہاں سے جو خلیج کی ایک کمپنی میں ملازم تھا، راضی خوشی سے کی ہے۔ کیرالہ ہائی کورت میں کیرالہ کی پولس نے بھی کورٹ کے سامنے اپنی رپورٹ میں صاف صاف بتایاتھا کہ ہادیہ کے معاملہ میں نام نہاد لو جہاد کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ بالکل نارمل معاملہ ہے اور قبول اسلام میں کسی قسم کے لالچ یا دباؤکا معاملہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود کیرالہ ہائی کورٹ نے ہادیہ اور شافعین جہاں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا اور ہادیہ کو اپنے والدین کے گھر میں رہنے کا حکم صادر کیا۔

اس فیصلہ میں جہاں شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا وہیں لڑکی کے قبول اسلام کو بھی غیر قانونی کہا گیا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک بالغہ شہری کی جسے اپنی مرضی سے مذہب بدلنے اور شادی کرنے کا دستور اور آئین نے حق دیا ہے ایسا ہر گز نہیں کیا جاتا۔ شافعین نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ شنوائی سے پہلے ماہر قانون کا خیال تھا کہ سپریم کورت کیرالہ ہائی کورٹ کے غلط فیصلہ کو بالکل رد کر دے گا اور ہادیہ کا مکمل آزادی مل جائے گی مگر سپریم کورٹ نے ہادیہ سے اس کا براہ راست بیان سننے کے باوجود مکمل آزادی دینے سے گریز کیا۔ ماں باپ کی قید سے کالج کے ہوسٹل کی قید میں رہنے کا حکم سنایا جبکہ ہادیہ نے ججوں کے سوال پر مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ سپریم کورت نے تبدیلیِ مذہب اور شادی کے معاملہ کو این آئی اے (NIA) جیسی ایجنسی سے تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

اپنے سابقہ فیصلہ حق رازداری (Right to Privacy) کو بھی یکلخت نظر انداز کردیا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کاغذ پر مکمل آزادی دیتا ہے۔ ہندستان کے آئین میں اس کی مکمل آزادی کی صراحت ہے مگر جب زمین پر اس اصول اور ضابطہ کو نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو کچھ اور ہی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہادیہ کے معاملہ میں ہوا ہے۔ سابق جج کے ایس یوٹا سوامی بنام حکومت ہند کے مقدمہ میں 9ججوں نے ہر شہری کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس ڈی وائی چندر چد نے اپنے ریمارک میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ حق راز داری کے تصور کو انفرادی آزادی سمجھتا ہے تاکہ ایک شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر آزادانہ فیصلہ لے سکے۔

 کیرالہ ہائی کورٹ نے تشدد پسندوں کے نام نہاد لو جہاد کے فیصلہ کو مانتے ہوئے ہادیہ اور شافعین کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا جبکہ کیرالہ پولس نے دونوں کے نکاح نامہ کو درست ٹھہرایا ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ہادیہ کے شوہر شافعین کی اسلام پسندی پر بھی جانچ کا پہرہ بٹھا دیا۔ سپریم کورٹ کے جج نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو پہلی سماعت کے وقت تعجب اور حیرت کا اظہار کیا تھا۔ جسٹس چندرا چد نے کہاکہ ہائی کورٹ نے اکثریت کی حقارت (Disdains of Majorities) کو تسلیم کرلیا جبکہ کورٹ پر دستور کی سرپرستی اور شہریوں کے حق کی سرپرستی کی ذمہ ڈالی گئی ہے۔ مشہور و معروف صحافی مکل کیساون نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

          ” Instead of protecting Hadiya’s fundamental freedoms, the higher judiciary serially constrained them by committing Hadiya to the custody of her parents one moment and hostel superintendents the next. The NIA is now arguing that the definition of incapacity in the matter of choice and consent be expanded to include ‘indoctrination’. Given the steadfastness of Hadiya’s positions throughout her ordeal and the inability of the NIA to work up a shred of evidence for its lurid jihadist conspiracy, ‘indoctrination’ seems a desperate modern spin on the medieval notion of possession. The Supreme Court should remind the NIA that it is an investigative arm of a modern nation, not the Holy Inquisition, and that it does not lie within the remit of a republic to exorcize its citizens.”   (The Telegraph – 3.12.17)

  ہادیہ کی آزادی کے مطالبہ پر عدلیہ دھیان دینے کے بجائے عدلیہ نے ہادیہ کی حراست کو اس کے والدین کے بجائے کالج کے ہوسٹل میں تبدیل کردی ہے۔ این آئی اے اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ انتخاب اور منظوری (Choice and Consent) کے اندر سوچ اور وچار بھی شامل کرلیا گیا ہے، یعنی اس کی (نام نہاد) ’’جہادی سوچ‘‘ کے معاملہ کو سمیٹ لیا گیا اور اسے سازش کا جامہ زیب تن کرانے کی کوشش ہے۔ در اصل یہ قدیم جہالت کی طرف لے جانے کی ایک سعی و جدوجہد ہے۔ سپریم کورٹ کو سمجھنا چاہئے کہ NIA جدید زمانے کی جانچ کرنے والی ایجنسی ہے۔ کسی کی سیہ کاری اور بدعملی کو جانچ کرنے والی ایجنسی نہیں ہے۔ نہ کوئی بھوت پریت سے کسی کو چھٹکارہ دینے والا ادارہ ہے۔

 مکل کیساون نے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی کہا ہے کہ اگرشافعین جہاں کا کسی جہادی گروپ سے تعلق ہے تو اس کی جانچ کی جاسکتی ہے اور اگر اس کا کوئی جرم ہو تو اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے مگر اس کی شادی کے حق کو ناکارہ یا رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مجرم (Criminal) کو بھی شادی کرنے کا حق ہے اور اسے اس حق کی عمل آوری سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آخر کس قانون کے تحت اس کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ؟ آخر کس قانون کے تحت این آئی اے کو جانچ کا حق دیا گیا اورآخرکیوں اس کی جانچ تک اس کی شادی کو معلق رکھا گیا؟ آخر اس کے آزادیِ انتخاب پر کس قانون کے تحت قدغن لگایا گیا ہے؟ جسٹس چندراچد نے حق رازداری کے فیصلہ میں کتنی سچی اور اچھی بات کہی ہے کہ اگر کسی کے حق آزادی یا حق رازداری کو اکثریت کی سوچ اور وچار سے متاثر کیا جاتا ہے تو ایک طرح سے قانون اور عدالت کی سراسر توہین ہے۔ قانون کسی اکثریت کی سوچ او وچار پر منحصر نہیں ہوتا۔ آخر کیوں ہادیہ کی آزادیِ انتخاب (Freedome of Choice) کو لو جہاد کی بوگی سے جوڑ دیا گیا ہے؟

          "Under what law can a marriage between two consenting adults be annulled? If, for the sake of argument, Hadiya’s husband had criminal connections with global jihad, he should have been charged and tried and if found guilty, imprisoned. Even then, this would have had no effect on his marriage to Hadiya: even criminals are entitled to be married. Why should the restoration of Hadiya’s rights as an Indian citizen wait upon an NIA investigation? How is the investigation germane to Hadiya’s autonomy as a citizen, her right to be married to whoever she chooses? As Chandrachud observed in his Puttaswamy judgment, "The purpose of elevating certain rights to the stature of guaranteed fundamental rights is to insulate their exercise from the disdain of majorities, whether legislative or popular. The guarantee of constitutional rights does not depend upon their exercise being favourably regarded by majoritarian opinion.” Why then, should Hadiya’s right to religion, her freedom to choose a partner, be held to ransom by a majoritarian canard, the bogey of ‘love jihad’?” (The Telegraph – 3.12.17)

  کیرالہ ہائی کورٹ نے جو کچھ دستور اور قانون کی ان دیکھی کی تھی سپریم کورٹ کو چاہئے تھا کہ اسے بغیر تاخیر کے رد کردیتا مگر ایسا نہیں ہوسکا، جس سے ماہر قانون کو انتہائی تشویش لاحق ہے کہ جب سپریم کورٹ کا یہ حال ہے تو آخر حق و انصاف کیلئے ملک کے شہری اور کہاں جائیں گے؟اور کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ امید ہے سپریم کورٹ اپنی اگلی سماعت پر ان باتوں کو غور کرے گا اور ہادیہ کو مکمل آزادی کا حکم صادر کرکے اس کی ان مشقتوں اور تکلیفوں کو جو غیر قانونی اور تشدد پسند ہاتھوں کے ذریعہ پہنچائی گئی ہے اسے دور کرے گا اور کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی بھی خبر لے گا تاکہ نچلی عدالتیں آئندہ ایسا قدم نہ اٹھاسکیں یا ایسا فیصلہ صادر نہ کرسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔