ہاں میں جسینڈا آرڈن ہوں!

نازش ہما قاسمی

جی ۳۸؍سالہ نیوزی لینڈ کی ۴۰ ویں اور ۱۵۰ سالہ تاریخ کی سب سے کم عمر وزیر اعظم جسینڈا آرڈن ہوں۔ نہایت زیرک، چالاک، ہوش مند، خیر خواہ، محسن، ہمدرد، خوش اخلاق اور بہترین قیادت کی سوج بوجھ رکھنے والی وزیر اعظم ہوں۔ ہاں میں انٹرنیشنل یونین آف سوشلسٹ یوتھ کی صدر بھی رہ چکی ہوں، عالمی خواتین پریشد کی رکن ہوں، میرا پورا نام جسینڈا کیٹ لاریل آرڈن ہے، میری پیدائش ۲۶؍جولائی ۱۹۸۰ کو نیوزی لینڈ کے شہر ہیملٹن میں ہوئی۔ میرے والد راس آرڈن پولس افسر تھے اور والدہ لاریل آرڈن اسکول میں کھانا بنانے والے ؍والیوں کی معاون تھیں۔ میں ایک ننھی منی سی بچی ’نیوی ٹے اروہا آرڈن گیفورڈ ‘ کی ماں ہوں۔ میرے رفیق حیات اور شوہر نامدار کا نام کلارک گیفورڈ ہے۔ میں عیسائی مذہب کی پیروکار تھی، لیکن میں ہم جنس پرستوں کی حمایت کی وجہ سے مذہب کی جائز زنجیروں سے آزاد ہوچکی ہوں۔ میں نے ماری سنوسولے کالج سے اپنی تعلیم حاصل کی اور اسی کالج میں اسکول بورڈ آف ٹرسٹیز کی طلبہ لیڈر تھی، ۲۰۰۱ میں وائیکاٹو یونیورسٹی سے سیاست اور عوامی رابطے میں بیچلر آف کمیونیکشن اسٹیڈیز میں گریجویشن کی۔ میں اپنی جوانی کی ابتدا میں ہی سیاست سے جڑ گئی اور نیوزی لینڈ لیبر پارٹی میں شامل ہوکر ۲۰۰۸  میں نیوزی لینڈ کی سب سے کم عمر رکن پارلیمنٹ بن گئی۔ اگست ۲۰۱۷ میں میں نے قائد حزب اختلاف کا عہدہ سنبھالا اور ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ کو نیوزی لینڈ فرسٹ اور لیبر پارٹی کے اتحاد سے مخلوط حکومت کی میں وزیر اعظم ٹھہری اور نیوزی لینڈ کی تیسری اور سب سے کم عمر خاتون وزیر اعظم قرار پائی۔

ہاں میں وہی جسینڈا آرڈن ہوں جس نے کبھی نیویارک میں سوپ کی دکان میں کام کیا اور کبھی ٹونی بلییر کی مشیر رہی۔ میری تاریخ میں یہ بھی رقم ہے کہ میں نے اپنی نوزائیدہ بچی کو لے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی، مجھ سے قبل کسی نے ایسا نہیں کیا۔ میں عوامی طور پر بہت مقبول اور نیوزی لینڈ کی ہر دلعزیز رہنما ہوں۔ میرا شمار دنیا کی بااثر خواتین رہنماؤں کی فہرست میں ہوتا ہے، میں سادگی پر یقین رکھتی ہوں اور انتہائی سادہ زندگی گزارتی ہوں، شفقت و محبت اور ہمدردی میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، میں اپنے ملک کے عوام کے ساتھ بے پناہ محبت کا برتاو کرتی ہوں۔ یہودو نصاری اور مسلمان کی تمیز میرے یہاں نہیں میرے ملک کے عوام سبھی ایک جیسے ہیں، میرے ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے باشندے میرے نزدیک ایک سمان ہیں،  نہ میں یہودی کو فوقیت دیتی ہوں اور نہ عیسائی کو اور نہ ہی میں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہوں، بلکہ ملک کے سبھی عوام کو یکساں درجہ دیتی ہوں، سبھی سے یکساں محبت کرتی ہوں۔

میں چاہتی ہوں کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح میرے ملک میں مذہب کے نام پر خون خرابہ نہ ہو، ایک دوسرے کا جینا دوبھر نہ کیا جائے، ایک دوسرے کی لاش پر ننگا ناچ نہ کیا جائے، اپنے ملک کو ان سب برائیوں سے پاک کرنے کی مکمل کوشش کرتی ہوں؛ اسی لیے میرا ملک پوری دنیا کے پرامن ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن پندرہ مارچ ۲۰۱۹کو نفرت کا سوداگر، مذہبی جنون میں مبتلا انسان، مسلمانوں کا دشمن، اسلاموفوبیا کا شکار، ایک بدبخت نے ہمارے شہر کی دومسجدوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنونی، خبیث، انسانیت سے عاری اپنے مذہب پرکلنک، پچاس سے زائد سربسجود مسلمانوں کو شہید کردیا اور میرے ملک کو بدنام کرنے کی لاحاصل کوشش کی، لیکن میں نے انتہائی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا، ملک کے باشندوں سے امن و امان کی اپیل کی اور دہشت گرد کو فوراً کٹہرے میں کھڑا کردیا، متاثرین کے درمیاں پہنچ کر اس کے غم میں شریک ہوئی، اور اپنے عوام کی شہادت پر آنسو روک نہ سکی اور بلک بلک کر روپڑی، متاثرین سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی بطور رہنما میں خود کو گناہ گار سمجھ رہی تھی، دنیا کے دیگر سربراہان مملکت کی طرح میں نے پریس بیان جاری نہیں کیا، لفاظی نہیں کی، بلکہ اظہار غم کے لیے خود غم کی تصویر بن گئی، ٹی وی چینلوں پر آکر لمبی لمبی ہانک نہیں لگائی، بلکہ اپنے تمام پروگرامس کینسل کرکے شہدا، مجروحین اور متاثرین کے لیے خود کو وقف کردیا اور دنیا کے سوالوں کا جواب دیا، دہشت گردی سے لڑنے کا عزم کیا اور دہشت گرد کسی مذہب کا نہیں ہوتا یہ واضح کردیا۔

ہاں میں وہی آرڈن ہوں جس نے مسلمانوں سے ہمدردی اور مسلمانوں کے تئیں بڑھتی نفرت کو دنیا سے ختم کرانے کےلیے اپنے ملک کی پارلیمنٹ کا آغاز خدا کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید سے کرایا اور اسلام کا آفاقی پیغام پوری دنیا تک پہنچانے میں معاون بنی۔ ہاں میں وہی آرڈن ہوں جس نے اس دہشت گردانہ حملے کے ایک ہفتے بعد مسجد النور سے منسلک ہیگلے گارڈن میں نماز جمعہ کا اہتمام کرایا اور اذان، خطبہ  جمعہ اور نماز کو سرکاری طور ٹی وی پر نشر کروایا، تاکہ دہشت گردوں کو معلوم ہو کہ میرا ملک مذہبی نفرت کی آماجگاہ نہیں ہے، میں نے ہیگلے گارڈن میں خطاب کرتے وقت عالم انسانیت کے عظیم رہبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ کہ: ’’مومن باہمی ہمدردی، شفقت، اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب بھی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ پڑھی اور بتایاکہ نیوزی لینڈ مسلمانوں کے غم میں برابر کا شریک ہے ہم ایک ہیں۔

میں نے اپنے ملک کے عوام کو محبت و الفت اور ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوکر زندگی گزارنے کی تلقین کی- آپ نے دیکھا ہوگا کس طرح اس سانحہ کے بعد ہمارے ملک میں محبت نثار کی جارہی ہے، ملک کے عوام خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں وہ غمگین ہیں، افسردہ ہیں، بچے بچیاں، بوڑھے نوجوان سبھی اشکبار ہیں اور شہدا کو یاد کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں، دیگر ملکوں کی طرح میرے یہاں نفرت کا بازار گرم نہیں ہوا، مزید آگ نہیں بھڑکی، پچاس شہید ہوکر بارگاہ خدا وندی میں پہنچ گئے اور اعلی مقام سے سرفراز ہوئے ان کا خون ناحق رائیگاں نہیں گیا اور لوگ جوق در جوق اسلام اور مسلمانوں سے جڑنے لگے مسجدوں کے باہر پہرہ دار بن کر کھڑے ہوگئے کہ تم نماز پڑھو ہم آپ کے محافظ ہیں، مرد بچے خواتین بوڑھے سبھی ایثار و محبت کی تصویر بن کر مسلمانوں کے خیر خواہ کے طور پر ابھر رہے ہیں، میں نے عہد کیا ہے میں اپنے ملک میں نفرت کو پنپنے نہیں دوں گی دہشت گردوں کو موقع فراہم نہیں کروں گی، دہشت گردوں کو انجام تلک پہنچاوں گی، میں نے اسلحہ قوانین میں ترمیم کردی ہے، پورے ملک میں سیکوریٹی بڑھا دی ہے، کوشش کروں گی اب ایسا کوئی درد ناک سانحہ میرے ملک میں رونما نہ ہو جس سے بچے یتیم ہوجائیں، مائیں بے سہارا اور عورتیں بیوہ۔

ہاں میں جسینڈا آرڈن اخوت و محبت کا استعارہ ہمدردی و ایثار کی پہچان اپنے ملک کے عوام سے بے پناہ محبت کرنے والی وزیر اعظم ہوں، میں کسی مذہب کو فالو نہیں کرتی، میں انسانیت پر یقین رکھتی ہوں؛ لیکن مذہب ’مہذب‘ زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے اور آخرت میں لادین کا ٹھکانہ ویل ہے، میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوں ساری دنیا کےلیے رحمت عالم بناکر بھیجے گئے محمد عربیﷺ کے افعال، اخلاق، ان کے اسوہ حسنہ، عوام کے ساتھ ان کا سلوک ان کی تعلیمات سے متاثر ہوں، دعا کریں خدا مجھے بھی ایمان کی دولت نصیب کرے اور میں اسلام کی داعیہ بن کر اٹھوں۔

تبصرے بند ہیں۔