ہاں میں جمال خشوگی ہوں!

نازش ہما قاسمی

جی جمال خشوگی ، عرب کا مشہور و بیباک صحافی، حکومت کی غلط پالیسیوں پر تبصرہ کرنے والا نڈر صحافی ہوں۔ میری پیدائش ۱۳؍اکتوبر ۱۹۵۸ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ میں نے اپنی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کےلیے امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی میں چلا گیا اور وہاں سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی۔ میں نے بطور صحافی ۱۹۸۰ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ابتدائے صحافت سے ہی میں بے باکی وحق گوئی کا علمبردار رہا، کبھی صحافت کے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا، کبھی صحافت کو داغدار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں چاہتا تو بہت سارے مواقع تھے جہاں صحافت کو رسوا کرسکتا تھا؛ لیکن میرے ضمیر نے کبھی یہ گوارہ نہیں کیا، میں نے حق کو حق لکھا اور باطل کو باطل کہا، یہی میری خوبی تھی جس کی وجہ سے دنیا ئے صحافت میں مجھے اعلیٰ و ارفع مقام حاصل تھا۔ ہاں میں وہی  خشوگی ہوں جو عرب نیوز کا نائب مدیر بھی رہا، جس نے ’الوطن‘ اخبار کے ایڈیٹر کا عہدہ بھی سنبھالا، میں مرنے سے قبل امریکہ کے مشہور اخبار واشگنٹن پوسٹ کا کالم نگار تھا۔ میرا خاندان با اثر و با رسوخ شخصیتوں پر مشتمل تھا، میرے دادا محمد  خشوگی سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے ذاتی طبیب تھے ، میرے چچا عدنان  خشوگی عرب کے مشہور اسلحہ تاجر تھے۔

ہاں میں وہی جمال  خشوگی ہوں جس نے سویت یونین کی رپورٹنگ کی، جس نے اسامہ بن لادن سے بارہا انٹرویو کیا،میں نے ہمیشہ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی، کسی سے مرعوب نہیں ہوا، کسی سے دبا نہیں، کبھی جھکا نہیں، بکا نہیں؛ بلکہ محاذ پر ڈٹا رہا، حق لکھتا رہا، حق عوام تک پہنچاتا رہا،اسی حق لکھنے کی پاداش میں میں عتاب کا شکار ہوا، میں نے سعودی عرب میں ڈونالڈ ٹرمپ کے والہانہ استقبال پر انگلی اُٹھائی، ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے کیے گئے اسلام مخالف کاموں پر طنز کیا، سعودی عرب کے مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا۔ ہاں میں وہی  خشوگی ہوں جو خطرے کو بھانپ گیا تھا ، اپنے حق بولنے کے جرم میں کہیں میں پابند سلاسل نہ کردیاجائوں؛ اس لیے ملک سے ۲۰۱۷ میں امریکہ شفٹ ہوگیا تھا۔ واقعی اگر میں سعودی میں رہتا تو شاید ۲۰۱۷ میں ہی ٹھکانے لگا دیاگیا ہوتا، شیخ عودہ اور عائض القرنی کی طرح زنداں میں ڈھکیل دیاگیا ہوتا؛ لیکن میں نے خاموشی سے خودساختہ طور پر جلاوطنی اختیار کرلی اور انتہائی بے باکی سے سعودی عرب کی غلط پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتا رہا، انہیں باور کراتا رہا کہ آج جو سعودی کررہا ہے وہ سعودی روایات کے خلاف ہے، ہاں میں وہی  خشوگی ہوں جس نے لکھا تھا’’ میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا ، ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں‘‘۔ لیکن حق بولنے کی سزا دیگر معززین کی طرح مجھے بھی ملی۔ وہ مجھے پابند سلاسل تو نہیں کرسکتے تھے؛ لیکن قتل ضرور کرسکتے تھے اور انہوں نے ویسا ہی کیا۔ میری شادی ترکش خاتون سے واشنگٹن میں بھی ہوسکتی تھی؛ لیکن سعودی انتظامیہ نے مجھے ترکی سازشاً بلایا، میرے تمام دستاویزات صحیح ہونے کے باوجود دوبارہ مجھے طلب کیا اور ۲؍اکتوبر۲۰۱۸ کا وہ سیاہ دن بھی آگیا جب میں اپنی ہونے والی اہلیہ کے ہمراہ استنبول میں سعودی قونصلیٹ گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ میری  ہونے والی اہلیہ تقریباً گیارہ گھنٹے تک قونصلیٹ کے باہر منتظر رہی کہ میں آئوں گا؛ لیکن میں وہاں سے کہیں اور چلا گیا تھا تو کیسے آتا۔ وہ سعودی قونصلیٹ نہیں تھا؛ بلکہ ایک سلاٹر ہائوس تھا جہاں انسانی شکل میں درندے موجود تھے، جہاں مجھے ٹھکانے لگانے کےلئے کئی افراد باضابطہ بلوائے گئے تھے، وہ آری اور ہڈیاں کاٹنے والی مشینوں کے ساتھ آئے تھے، مجھے میری حق گوئی کی سزا دینے آئے تھے، میں اکیلا نہتہ ان کے ہتھے چڑھ گیا، پھرچھریرے بدن کا خوبصورت انسان بوٹیوں میں وہاں سے نکلا۔

میرے قتل کے بعد میرا لہو چیخ اُٹھا، دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، سعودی عرب سے لے کر امریکہ تک، ترکی سے لے کر ہندوستان تک، چین سے لے کر افغانستان تک اس دن پوری دنیا کی میڈیا میں موضوع بحث تھا ، ہر کوئی میرے قتل کے خلاف تھا، ہر کوئی سعودی عرب پر انگلی اُٹھا رہا تھا کہ وہاں مجھے قتل کیاگیا ہے؛ لیکن پہلے میرے قتل سے سعودی سفارت خانہ کی انتظامیہ انکار کرتی رہی، میری گمشدگی کا ڈھنڈورہ پیٹتی رہی کہ مجھے قتل نہیں کیا گیا ہے، میں غائب کردیاگیا ہوں، دونوں ملک آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہے، قتل کے الزام سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کےلیے کعبہ کے امام کا استعمال کیاگیا، امام کعبہ کو غلط اطلاعات فراہم کی گئیں، ان کی زبان سے خود کے بے قصور ہونے کا اعلان کرایا گیا، کاش امام کعبہ ان کے جھانسے میں نہ آتے، کاش وہ معتبر  اور آزاد ذرائع کا استعمال کرکے اپنی اچھی شبیہ بگاڑنے کا موقع لوگوں کو نہ دیتے، کاش وہ دنیا کی عظیم وبابرکت جگہ سے سازش کا شکار ہوکر سعودی عرب کی بے گناہی کا قصیدہ نہ پڑھتے۔ اب جب کہ معلوم پڑگیا ہے کہ مجھے کس نے قتل کروایا ہے، امام حرم کے پاس ایک زریں موقع ہے کہ وہ الوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کہدیں کہ ’میرا قاتل کون ہے‘ اگر امام حرم اپنے سابقہ بیان کی بھرپائی کرناچاہتے ہیں ، اگر دیگر ائمہءِ حق کی طرح حق کہناچاہتے ہیں تو اب بھی کہہ سکتے ہیں ان کی شخصیت بڑی ہے، پوری دنیا کے مسلمان ان پر دیوانہ وار فریفتہ ہیں، بصورت دیگر ان کی اہمیت حق پسندوں کے نزدیک کم ہوسکتی ہے۔

خیر میں تو اب اس فانی دنیا میں نہیں رہا۔ اپنے حق بولنے کی سزا پایا؛ لیکن میں حق بولنے والے صحافیوں کا رہنما ہوں، دیگر صحافی جو سعودی عرب سے نالاں ہیں وہ دبائو میں نہ آئیں؛ بلکہ عرب کی سالمیت کےلیے مسلسل اپنے قلم کا استعمال کریں، بِکیں نہیں، اگر آپ بِک گئے تو شتر بے مہار قوم کے لیے المیہ ہوگا۔ آپ حق کہتے رہیں، لکھتے رہیں، خواہ دنیا سے ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ آپ ہیرو ہوں گے، آپ کی اولادوں کو کوئی بزدلی کا طعنہ نہیں دے گا؛ بلکہ لوگ فخریہ بیان کریں گے کہ یہ  خشوگی کا لڑکا ہے، سینہ چوڑا کرکے کہیں گے یہ حق بولنے والے صحافی کےنسل کے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔