ہاں میں ’شہید‘ محمد عظیم ہوں! 

نازش ہما قاسمی

جی محمد عظیم بن محمد خلیل۔ مدرسے کا طالب علم، آٹھ سالہ کمسن بچہ، میوات کا رہنے والا، جو دہلی کے ایک مدرسے میں پڑھ رہا تھا۔ مجھے دنیاداری کا بھی علم نہیں اور نہ ہی مجھے سیاست اور مذہبی نفرت کا علم ہے۔ میں تو پھول تھا، جسے شاہد و غلماں کی دنیا سے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا، مگر نفرت کے سوداگروں نے مجھے مسل دیا۔ میں تو قرآن کی تعلیم حاصل کررہا تھا، وہی قرآن جس میں انسانیت کا درس دیاگیا ہے، وہی قرآن جوکہتا ہے کہ جس نے کسی ایک بے گناہ اور معصوم شخص کا قتل کیا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے، مجھے کیا پتہ کہ انسانی شکل میں موجود بھیڑیئے مجھ معصوم کلی کو نوچیں گے، مجھے پٹک پٹک کر جان سے مار ڈالیں گے۔

مجھے تو مدرسے میں یہی تعلیم دی گئی تھی کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ کاش! ان بھیڑیوں کے والدین بھی انہیں یہی تعلیم دیتے تو آج میں زندہ ہوتا؛ لیکن نفرت کی آگ بہت پھیل چکی ہے۔ ان کے بڑوں سے لےکر چھوٹے تک نفرت میں سلگ رہے ہیں۔ وہ مسلمان نام سے ہی چڑھنے لگے ہیں۔ ہمارے بڑوں سے تو دشمنی ہے ہی ہم جیسے معصوموں سے بھی دشمنی پال رکھے ہیں۔ بغیر کچھ جرم کیے ہم مجرم ہیں۔ ہمارا قتل کرنا ان کےنزدیک جائز ہے، ہمیں زدوکوب کرنا، ستانا، دوڑانا، ہراساں کرنا شاید اب ان کے مذہب میں جائز ہوگیا ہے اسی لیے تو دادری کے اخلاق چچا سے لے کر مجھ معصوم تک یہ سلسلہ دراز ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی ہجومی تشدد کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور چڑھتا ہی رہے گا؛ کیوں کہ ہماری قوم سوئی ہوئی ہے۔ اسے فکر نہیں میں ’قوم‘ کا بیٹا تھوڑی تھا میں تو اپنے والدین کا بیٹا تھا قوم کے رہنمائوں کو اس سے کیا فرق پڑنے والا۔ لیکن فرق پڑے گا ضرور پڑے گا، مظلوموں کا خون رنگ لائے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ ہجومی تشدد کی آگ پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے لےگی۔ اس دن قوم کا بچہ بچہ اپنے رہنمائوں کے ساتھ مارا جائے گا۔

آج میری ناگہانی شہادت پر ہماری رہنما افسوس کررہے ہیں اس دن کوئی افسوس کرنے والا بھی نہیں ہوگا؛ اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی جنید ٹرین میں نہ مارا جائے، کوئی پہلو دردناک موت کا شکار نہ ہو، کوئی منہاج نہ ستایا جائے، کوئی اخلاق بے اخلاقی سے نہ مارا جائے، کوئی مجھ سا معصوم نہ مسلا جائے تو اُٹھ کھڑے ہوں، اپنے قائدین کو جھنجھوڑیں ان سے عہد دلوائیں کہ اب کوئی بچہ فرقہ پرستی کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔

ہاں! میں وہی عظیم ہوں جو خلیل میواتی کے گھر پیدا ہوا۔ مجھے دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، کیوں کہ مذہب اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور دینی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے اسی فرضیت کی خاطر میں اسلامی تعلیم کےلیے دہلی کے مدرسہ جامعہ فریدیہ میں زیر تعلیم تھا۔جمعرات ۲۵؍اکتوبر کا دن تھا، مدرسے والے جانتے ہیں کہ جمعرات کیا ہوتی ہے؟ جمعرات کو ہم مدرسہ والے گویا ’عید ‘ مناتے ہیں اس دن چھٹی رہتی ہے، پورے شوق کے ساتھ اس چھٹی کو گزارتے ہیں، یہ فرصت کا لمحہ انتہائی خوشگوار لمحہ ہوتا ہے۔

مدرسے کی زندگی سے فراغت کے بعد اکثر جمعہ جمعرات کی چھٹیاں یاد آتی ہیں، دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے یاد آتے ہیں، میں ان ہی لمحوں کو یاد گار بنانے کےلیے اپنے مدرسے کے قریب کھیل رہا تھا۔ اچانک کچھ نو عمر بچے وہاں آئے اور ہم چار پانچ بچوں کو مارنے لگے ان میں سے ایک جو تھوڑا بڑا تھا وہ آیا اور میری گردن مروڑ کر پاس کھڑی بائیک پر مجھے پٹخنے لگا اور جب پٹخ کر فارغ ہوا تو ننھی سی جان قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔کتنا بوجھ جھیلتی یہ معصوم زندگی دو پٹخنی ہی میں جنت کو پہنچ چکی تھی۔ آنافاناً مجھے اسپتال میں داخل کیاگیا کہ شاید میرے اندر زندگی کی کچھ رمق باقی ہو ؛ لیکن میں اس نفرت والی دنیا سے آزاد ہوچکا تھا۔ ڈاکٹروں نے مجھے داخلے سے قبل ہی مردہ قرار دیا۔ اب شاید ان فرقہ پرستوں کو چین آگیا ہوگا ایک معصوم کی ز ندگی چھین کر وہ خوش ہوں گے۔ یقیناً خوش ہوں گے؛ کیوں کہ انہوں نے بہت بڑا کام کیا؛ ایک دہشت گرد کو مارا ہے، میں مسلمان ہوں نا، میں دہشت گرد تھا، مجھ سے پوری انسانیت کو خطرہ لاحق تھا۔میری موت پر وقتی ہنگامہ برپا ہے، مجھے معلوم ہے یہ ہنگامہ ڈی پی بدلنے کے بعد ختم ہوجائے گا ؛ کیوں کہ دادری کے اخلاق، الور کےپہلو، پلول کے جنید کے وقت بھی ایسا ہنگامہ ہوا تھا اور پھرچاروں سمت سناٹا پھیل گیا۔ کاش میرا لہو رنگ لے آئے اور پھر کوئی معصوم فرقہ پرستی کی بھینٹ نہ چڑھے۔

کاش! اے کاش کوئی پھول یوں نہ مسلا جائے، بہت درد ہوتا ہے جب تم ہمیں اس طرح سے مارتے ہو، ہم بیان کرنے کےلیے زندہ ہی نہیں رہ پاتے کاش! تھوڑا وقت دیا ہوتا تو ہم سمجھادیتے کہ ہم نفرت کے سودا گر نہیں ہیں، ہم امن وامان والے ہیں، اگر نفرت کے سودا گر ہوتے تو ہندوستان میں تم اکثریت میں نہیں ہوتے، ہماری یہاں ساڑھے نو سوسال تک حکومت رہی ہے تمہیں نیست ونابود کرچکے ہوتے؛ لیکن ہمارے مذہب میں ایسا نہیں سکھایاجاتا ہے ہمارے مذہب میں اخوت وبھائی چارگی امن وآشتی اور حب الوطنی کادرس دیا جاتا ہے۔ آپ اپنے رہنمائوں کی اشتعال انگیزی میں نہ آئیں۔ آپ بھی کسی کے بچے ہیں۔ اگر آپ کو بھی اسی طرح مسل دیاجائے جس طرح آپ نے مجھے مسلا ہے تو آپ کے والدین پر کیا گزرے گی، آپ کی والدہ کا کیا حشر ہوگا جنہوں نے نو ماہ تک آپ کو اپنے پیٹ میں رکھ کر ہر کرب جھیلا ہے۔ آپ کی بہنوں کا کیا ہوگا جو ہردن شام میں آپ کی منتظر رہتی ہیں کہ بھائی آئے گا اور محبت سے پیش آئے گا۔

اگر آپ مسلمان بزدلانہ مصلحت چھوڑ کر بدلےکی خاطر سینہ سپر ہوجائیں تو پھر ملک کانقشہ بدل سکتا ہے۔ اور شاید حکمراں اور لیڈران یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر آئیں اور دونوں قومیں الجھ کر خون خرابہ کریں۔ اور انہیں سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقع فراہم ہو۔ آپ سیاسی لیڈران کی باتوں میں نہ آئیں محبت بانٹیں، نفرت نہ بانٹیں ہم امن کے سودا گر ہیں ہمیں نفرت کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے کثرت میں وحدت اس ملک کی خاصیت رہی ہے اسے سبوتاژ نہ کریں۔ہماری اب بھی یہی خواہش ہے کہ اگر ملک میں امن و آشتی کے لیے ایک عظیم شہید ہوا ہے تو کیا ہوا؟ لاکھوں اس کے لیے قربان ہوسکتے ہیں میں اس قوم کا فرد تھا جس نے اپنا خون جگر بہاکر اس چمن کو سیراب کیا ہے۔ تو میں اس قربانی سے کیوں دریغ کروں؟

میرا خون رائیگاں نہیں جائے گا، یہ وہ خون ہے جس کا داغ تمام رہنماؤں کے دامن پر ہوگا، ان نفرت کے سوداگروں کےدامن پر بھی ہوگا، جو بات بات میں زہر اگلتے رہتے ہیں، قدرت یوں ہی خاموش نہیں رہ سکتی ہے، وہ ڈھیل دیتی ہے اور جب پکڑکرتی ہے تو کوئی جائے پناہ تک نہیں ملتی ہے۔ ہر ایک عمل کا ردعمل ہوتا ہے، آخر مکافات عمل سے دنیا غافل ہے نا !ایک دن اس چنگاری میں وہ بھی جھلسیں گے جنہوں نے اس کو ہوا دی ہے۔ برداشت، تحمل، ضبط،اعتماداور بھروسہ کی بھی اپنی حد ہوتی ہے، آخروہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہم بزدل ہوچکے ہیں ؟بزدل وہ ہوں گے جنہوں نے نفرت کی سوداگری کی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔