ہم ہیں اقلیت

مدثراحمد

ہندوستان میں مسلمان اقلیتی ہیں اور انہیں سب سے بڑی اقلیتی قوم ہونے کا درجہ حاصل ہے لیکن جس طرح سے اقلیتوں کے ساتھ رویہ پیش آنا چاہئے اس طرح کا رویہ ہندوستانی مسلمانو ں  کے ساتھ نہیں  ہو رہا ہے جسکی وجہ سے ہم اقلیت تھے، اقلیت ہیں اور اقلیت ہی رہینگے۔ ہم مسلمانوں کو جہاں روزگار، تعلیم اور معاشی میدانوں میں سماجی حق نہیں مل رہاہے وہیں سیاسی میدان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ حق تلافی ہورہی ہے، بظاہر ملک کی ہرسیاسی جماعت میں مسلمانوں کو اقلیتی مورچے یا شعبے میں جگہ دی جاتی ہے تاکہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پیرنٹ باڈی یعنی اہم شعبے میں اپنی حصـہ داری نہ مانگے۔

ہندوستان کی ہر سیاسی پارٹی میں ایک اقلیتی شعبہ ہوتاہے اور اس اقلیتی شعبے کے لئے باقاعدہ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کردیا جاتاہے اور انکا کام ہی اتنا ہوتا ہے کہ وہ تا حیات اسی شعبے سے جڑے رہیں اور اپنے آپ کو خوش نصیب بنائے رکھیں اور انہیں کوئی اہم عہدہ یا شعبے میں مقام دینے کی بات آتی ہے تو یہ حوالہ دے دیا جاتاہے کہ ہم نے تو آپ کو اقلیتی شعبے کا صدر یا سکریٹری بنا رکھا اور سب عہدے تو آپ کو نہیں دئے جاسکتے۔

ہم مسلمان بھی اتنے بیوقوف ہیں کہ ہمیں صرف پیڑ کے سائے سے اطمینان کرنا پڑتاہے جبکہ اس کے پھل کھانے والوں کی بڑی تعداد دوسری قوموں میں سے ہوتی ہے۔ ہندوستانی مسلم سیاستدانوں کی یہ کمزوری ہے کہ وہ نہ تو اپنی قوم کے لئے کچھ مانگتے ہیں نہ خود اپنے لئے۔ ہاں کچھ سیاسی پارٹیوں میں ایسے بھی کچھ عہدیدار ہیں جو اپنی پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں اور انہیں انکی وفاداری اور پارٹی لیڈروں کی چاپلوسی کے سبب عہدوں سے نوازا جاتاہے۔ اندازہ لگائیے کہ کس آج ملک کے کتنے حصوں میں مسلم لیڈروں کو وزارت دی جاتی ہے۔ خود کرناٹکا حکومت کی ہی بات کریں تو یہاں پر ہر بار مسلم قیادت کی شرح میں کمی آرہی ہے جبکہ یہاں کانگریس ہو یا جے ڈی یس، انہیں اقتدار میں لانے کے لئے مسلمانوں کے ووٹ ہی فیصلہ کن ووٹ مانے جاتے ہیں لیکن یہاں بھی عام مسلمانوں کو ووٹ کے لئے اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں کو ووٹ ڈلوانے کے لئے استعمال کیا جارہاہے۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی قیادت کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں خود انکی سیاسی پارٹیاں کاٹ دیتی ہیں اور وہ نہیں چاہتی ہیں کہ مسلم سیاسی لیڈران مسلمانوں کی آواز بن کر ابھریں اور مسلمانوں کے مسائل کو ایوانوں میں اٹھائیں کیونکہ ان سیاسی جماعتوں کو خوف رہتاہے کہ کہیں مسلم لیڈروں کی آواز پر انکی حکومت کو انکے مطالبات ماننے نہ پڑجائیں اورمطالبات نہ ماننے کی صورت میں انکے ووٹ بینک میں کٹوتی نہ ہوجائے، اس لئے ہر سیاسی جماعت اس بات کی کوشش میں لگی رہتی ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو کوئی اہم عہدہ دے بھی تو وہ مسلمانوں کے حقوق کو مانگنے سے گریز کرے، گونگا رہے یا پھر پارٹی اور اسکی ذاتی ترقی کو ہی اہمیت دے۔

کرناٹک کے سابق ریاستی وزیر آر روشن بیگ کی ہی بات کی جائے۔ انہیں ہر حکومت میں کانگریس نے وزارت کے عہدوں سے نوازا۔ جب سدھرامیا حکو مت کرناٹک میں تھی اس وقت بھی انہیں اہم وزارتوں کی ذمہ داری دی گئی، اس دوران روشن بیگ نے نہ صرف اپنے اسمبلی حلقے اور اپنی وزارت کے حلقے میں قیادت کی بلکہ وہ ریاست بھر میں مسلمانوں کے قائد بننے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے۔ ریاست کے کسی بھی علاقے میں کو ئی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تو فوری طورپر وہ پولیس اور وزارت داخلہ پر دبائو ڈالتے کہ ظلم بند کریں، انکی مداخلت بعض موقعوں پر حکومت کے لئے پریشان کن ثابت ہوتی تھی، پچھلے پانچ سالوں کی مختصر سی میعاد میں روشن بیگ نے کرناٹک میں مسلمانوں کے درمیان اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔لیکن اس دفعہ کانگریس اور جے ڈی ایس کی مخلوط حکومت ہونے کے باوجود انہیں وزارت سے دور رکھا گیا ہے۔

اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ روشن بیگ کی قائدانہ ترقیپر لگام لگائی جاسکے۔صرف روشن بیگ ہی نہیں بلکہ ایسے کئی لیڈران تعلقہ سطح سے لیکر قومی سطح تک ہیں،جن کو خود اُن کی سیاسی جماعتیں ان کی ترقی دیکھتے ہوئے لگام لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس صورت میں مسلمانوں کوروایتی اقلیتوں کوشعبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مین اسٹریم پالیٹکس میں جانا ہوگا،تبھی مسلمانوں کا سیاسی مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔