عورت اور مسجد

فواد کیفی

اندنوں سوشل میڈیاپراس عنوان کے تحت خوب زور وشور سے بحث چل رہی ہے۔اس بحث کو تحریک کی شکل دینے والوں کی منشا ٕ اور انکی نیت کیا ہے، آیا انکا مقصد قول نبی ﷺ کے اس حکم پر عمل سے ہے، جس سےفی زمانہ امت محروم ہے، یا شیطانی وسوسے کا شکار ہوکراور سازشوں کے نرغے میں آکر، امت کو مزید ایک  فتنہ میں مبتلا کر دینا ہے“  یہ تو اللہ ہی جانے اور وہی ہے جو دلوں کا حال جاننے والا ہے۔

اگر واقعی نبیﷺ کے اس حکم  پر عمل کرنے کی نیت ہوتی تو تمام مکتبہ فکر کے علما ٕ اور دانشوروں کی ایک مجلس شوری منعقد کرکے  عوام کے لیےاعلانیہ جاری کرنے کی سفارش کرتے،نہ کہ سوشل میڈیا پر بےڈھنگےپن سےیوں شور و شرابا کرتے پھرتے۔جہاں مثبت باتیں کم اور لعن وطعن زیادہ ہوتی ہیں۔جہاں کم علمی میں لوگ علما ٕ فقہا ٕ کے علاوہ صحابہ اکرامؓ تک سے گستاخی کر جاتے ہوں، یہی وجہہ ہے کہ اس غیر منظم اور بے ہنگم پلیٹفارم پراس موضوع کو چھیڑنا سراسر فتنہ کو ہوا دینا ہی محسوس ہوتا ہے۔

         مسلمان ابھی اتنے بھی بے غیرت نہں ہو گۓ کہ فرمان رسول ﷺ کا انکار کر سکیں۔ ہر مسلمان کےلیے قول رسول کا موجود ہونا خود بہت بڑی دلیل ہے۔ہمارے ان اسلاف کا یعنی، مہدثین، علما ٕ فقہا ٕ  کا ہم پر بڑا احسان ہے جنھوں بڑی عرق ریزی کرکے اپنی علمی بصیرت اور زہد وتقوٰی سے ایک ایک قول رسولﷺ کی اس طرح تشریح کیا اور ہم تک پہنچایا ہے کہ بات بالکل آینہ کی طرح صاف نظر آنے لگتی ہے۔اس کے باوجود اگر کسی معاملے میں کچھ اختلاف نظر آبھی جایے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی منطقی دلیل کی بجایے تحقیق کریں۔ہماری زمہ داری بنتی ہےکہ ہم صحابہ اکرامؓ اور تابعین ؒاور محدثین و فقہا کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیں کہ اس معاملےمیں انہوں نے اس فرمان رسول کا کیا مطلب سمجھا ہے،کیا مفہوم لیا ہے،کن پہلووں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔صحابہ کے آثار، فقہا کی شرحیں، محدثین و مفسرین  کے تجزیوں پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے۔

کیونکہ قران و حدیث ہمیں  بار بار تدبر اور تفکر کا درس دیتے ہیں۔اسی تدبر و تفکر کا اصطلاحی نام ”تفقّہ“ ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا۔

من یریداللہ خیراًیفقّھة فی الدین و انما انا قاسمٗٗ واللہ یعطی

ترجمہ۔اللہ جس کے ساتھ بھلای کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور میری حیثیت تقسیم کنندہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔

مشکواة جلد ١ کتاب العلم۔

دو احادیث

من عایشة قالت کان رسولاللہ صل اللہ علیہ وسلم  لیصلی الصبح فینصرف النسا متلففات بمرو تھن ما یعرفن من الغلس۔“ترمزی باب التغلیس فی الفجر۔

ترجمہ_____حضرت عایشہؓ سے مروی ہے۔انھوں نے فرمایا کہ نماز صبح رسول اللہﷺ ایسے وقت میں پڑھتے تھےجب عورتیں ختم نماز پراپنی اوڑھنیاں لپیٹے مسجد سے لوٹتیں تو تاریکی کے سبب پہچانی نہ جاتی۔

بخاری، مسلم اور ابو داود وغیرہ میں بھی اسی مضمون کی روایات ملاحظہ فرمایں۔

عن ابن عمر قال قال رسوللہ ﷺ ایذ نوا النسا ٕباللیل الی المساجد۔

عبداللہ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا عورتوں کو مسجد میں آنے دو رات کے اوقات میں۔ ترمزی۔باب خروج النسا ٕ الی المسجد

اب آپ ہی ہمیں بتایں کہ اس زمانے میں بھی  فتنے کے اندیشے اور پردہ کا خیال کرکے صرف دو وقتوں کی نماز عشا ٕ اور فجر میں اجازت دی گیی تھی، بفرض محال آج اگرموجودہ علما ٕ فقہا ٕ اور مفتیان حضرات ہمیں بھی دو وقتوں کی اجازت دے  دیں بھی تو کیا  آج ہماری عورتیں صرف دو اوقات پراکتفا کرینگی۔ہرگز نہیں۔وہ ہر وقت جانےکی ضد باندھ لینگی  اور مزید پورا اندیشہ ہے کہ پورے اہتمام سے بناو سنگھار اور میک اپ کے ساتھ جو اس دور میں بھی ممنوع تھا۔

اگر تحریک پھر بھی چلانی ہی ہے تو پہلے ان دووقتوں کی چلاٸں ورنہ اس فتنے کو یونہی بند رہنے دیجیے جیسے کہ ہمارے فقہا نے اسے بہتر سمجھ کر اس باب کو صدیوں پہلے بند  کر دیا۔ آج کے اس بے ہنگم دور میں  ہمارے معاشرے کی جو خواتین بھی پردے کا اہتمام کر رہی ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں صوم و صلاة کی پابند ہیں وہ غنیمت ہے، جنھیں ابھی تک گھروں کے باہر کی ہولناکیوں کا علم نہیں،جنھیں محرم دار کے علاوہ غیر محرم نے آج تک دیکھا نہیں اور جنھوں نے محرم دارکے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا ہے، اس تحریک سے انکی اس پاکیزگی پر آنچ تو ضرور آجایگی۔ ۔۔۔۔۔۔

آج جو لوگ یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ حدیث موجود ہے تو پھر ”عورتوں کو مسجد آنے سے کیوں روکا جا رہا ہے “ انہیں یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے بعد صحابہ ؓ کا اس سلسلے میں کیا عمل رہا ہے۔ کیا صحابہ ؓ سے بڑھ کراحکام شریعت  اور مرضیات رسول ﷺ کی پیروی کا شایق امت میں کوی ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ناموافق حالات میں بھی شریعت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا،مصاٸب اور پریشانی جھیلنا گوارہ کر لیا،گرم ریت برداشت کر لیا مگر قال اللہ اور قال رسول سے منھ نہیں موڑا۔حق تویہ ہے کہ انھوں نے جس دلجمعی سے سختی سے اپنی زندگیوں میں سنتوں پر عمل کیا رہتی دنیا تک اسکا متبادل نہیں مل سکتا۔ہمیں چاہیے کہ ہم ہر اختلافی  مسٕلے میں صحابہ اکرام کی سیرت دیکھیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اس پر کس طرح عمل کیا۔پھر اس موضوع پر ہم صحابہ کے طور طریقے کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔؟

جن احادیث کا تزکرہ ہو رہا ہے اگر واقعتاً ان کامقصدومنشا یہی ہوتاکہ امت مسلمہ  حالات زمانہ اور مصالح کو نظرانداز کرے تو لازماً صحابہ ؓ کے دور میں ایسی مثالیں ضرور ملتیں کہ وہ اپنی خواتین کو نماز کے لیے مسجد یا  عیدگاہ لے جایا کرتے۔اور پھر یہی تعامل تابعین تبع تابعین میں ملتا،مگر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ حضور ﷺ  کی رحلت کے بعد خواتین کا مسجد میں جانا براے نام رہ گیاتھا حتٰی کے حضرت عرؓ جیسے متبع سنت اور شیداے شریعت کا حال یہ نظر آتا ہے کہ  جب انکی بیوی ”عاتکہؓ“ ان سے مسجد جانے کی اجازت طلب کرتیں ہیں  تو آپؓ چپ ہو جاتے۔

موطا امام مالکؒ میں یہ روایت ہے:

”عاتکة بنت زید بن عمر وبن نفیل امرا ٕة عمر بن الخطاب انھا کانت تستاذنُ عمر بن الخطاب الی المسجد فیسکت فتقول وللہ لا خرجنّ الاّ ام تمنعنی فلا یمنعھا۔“

ترجمہ :”حضرت عمرؓ کی زوجہ عاتکہ بن زید ان سے مسجد کی طلب کرتیں اس پر وہ چپ سادھ لیتے۔تب وہ کہتیں کہ بخدا جب تک آپ مجھےصاف صاف مسجد جانے سے نہ روکینگے میں جاتی رہونگی۔“باب ما جا ٕ فی خروج النسا ٕ الی المساجد۔

غور کیجیے۔۔حضور ﷺ کا حکم موجود ہے۔ ”عورتوں کو رات میں مسجد جانے سے مت روکو“

لیکن پھر بھی کیا وجہہ ہے حضرت عمرؓ خاموش رہ جاتے ہیں۔ اور سب جانتے ہیں کہ  یہاں پر خاموشی کا مطلب  انکار  ہے۔یہ انکے تقوی کا تقاضہ تھا کہ کھل کر انکار نہیں کیا لیکن خاموش رہ کر وہ زوجہ پر یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تمہارا مسجد جانا مجھے پسند نہیں۔ یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ابھی خلافت راشدہ کا دور  ہے،ہر طرف اسلامی قانون رایج ہے جو فحش کا دروازہ بند کیےہویے ہے۔معاشرہ میں گلی گلی صحابہ رسول  سکوت پزیر ہیں۔تقویٰ فضا میں رچا بسا ہے۔ بدکاری کے امکانات نہ کے  برابر ہیں۔قوت اسلامی قانون کے ہاتھ میں ہے۔حضرت عمرؓجیساصاحب نظر کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔اور پھر مسجدجانےکی اجازت کون طلب کر طلب کر رہی ہیں، زوجہ عمرؓ۔ایک ایسی خاتون جو صوم و صلاة کی پابند دیندار عورت  ہیں۔زرا بھی اندیشہ نہیں کہ وہ بن سنور کر مسجد تشریف لے جاینگی، مستزاد یہ کہ اجازت طلبی رات کے لیے ہے دن کے اجالے والے وقت کے لیے نہیں۔بے پردگی اور فتنے کے اندیشے بھی کم سے کم ہے۔لیکن حضرت عمرؓ پھر بھی  چپ سادھ لیتے ہیں اس سے پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک بھی حضور ﷺکا عورتوں کا مسجد جانے کی اجازت دینا شرعی حکم نہیں تھا جس پر قیامت تک عمل کیا جانا ہو اور بدلے ہوے حالات اس پر اثر انداز نہ ہو سکتے ہوں۔انھوں نے ماحول اور فضا کی اس معمولی تبدیلی کی بنا پر جو دور رسالت کی بہ نسبت ان کے دور میں پیدا ہو چلی تھی اس حکم کو نظرانداز کرنا ضروری سمجھا۔اگر ماحول و فضا کچھ اور بگڑ جاتے تو یقیناً وہ ”لاتمنعوا“ کو بھی نظر انداز کر کے عورتوں کو صاف صاف منع کر دیتے کہ مسجد مت جاو۔۔۔یہ چیز ایک عام نظر میں حدیث رسول سے صرف نظر کرنا ہے لیکن گہری نظر اور دینی بصیرت سے دیکھا جایے تو ایسا ہر گز نہں ہے بلکہ اس کی مثال  آج کے زمانے میں کچھ یوں دی جا سکتی ہےجیسے۔۔۔۔ صبح کا ٹہلنا مسلمہ طور پر مفید ہے، ڈاکٹر  حکیم بھی اس کا حکم دیتے ہیں لیکن اگر کسی صبح سخت سردی ہو، برفانی آندھی چل رہی ہو یا موسلا دھار بارش ہو رہی ہو تو اس وقت کوی عام آدمی بھی یہی مشورہ دیگا کہ صبح کی ٹہل کوملتوی کر دیا جایے،خصوصاً کمزور لوگوں کے لیے تو یہ ٹہلنا خودکشی کے مترادف ہوگا توکیا آپ اس وقت بھی یہ ضد کرینگے کہ خواہ کچھ ہو جاے ہم تو ٹہلینگے کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا صبح صبح ٹہلو۔

گیہوں کی روٹی اور گوشت بہت مفید اور مقوی غذا ہے مگر پیچش میں یہی زہر ہے۔انگور مفید ہے مگر نزلے کی شدت میں اسے ہر طبیب روک دیگا۔۔۔۔بس اسی پر زیر بحث مسٕلے کو قیاس کہجیے۔حضور ﷺ کا دور ایک خاص دور تھا۔گردو پیش میں تقوٰی ہی تقوٰی تھا،ایمان ہی ایمان تھا۔نفسانی حواہشات کے محرک کو حتی الوسع نابود کر دیا گیا تھا۔فحش کاری کی کوی گنجایش باقی نہیں رہنے دی گیی تھی۔قانون سخت اور  اخلاقی طاقت پوری طرح کار فرما تھی۔اس مخصوص ماحول و فضا میں حضور ﷺ نےعورتوں کو مسجد یا عیدگاہ میں شرکت کا حکم دیا۔

حکم کی اصلی مصلحت

اس حکم کی بھی خصوصی مصلحت تھی،  یہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ عورتوں کا مسجد آنا کوٸ زیادہ ثواب کا کام تھا۔ابوداود میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ آنحضرت ﷺکا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں۔

”صلاة المراةفی بیتھا افضل من صلوٰتھا فی حجرتھا و صلوٰتھا فی مخدعھا افضل من صلوٰتھا فی بیتھا“کتاب اصلاة۔ باب التشدید فی ذالک

ترجمہ:”عورت کےلیے اپنےکمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک گوشے میں نماز پڑھے اور گوشے میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ کوٹھری میں نماز ڑھے۔“

جس حدیث میں تھا کہ ”لا تمنعوانسا ٕ کم المساجد“  اسی میں یہ فقرہ بھی ہے ”وبیوتھن خیر لھن“ لیکن ان کے گھر ان کے لیے مساجد سے زیادہ بہتر ہیں۔

اسی مضمون کی تاید میں متعددحدیثیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔ان سے صاف ظاہر  ہے کہ نماز کے معاملے میں عورتوں کا حال شرعاً مرد سے مختلف ہے۔مرد پر تو جماعت سے نماز واجب ہے، اور بلا عزر گھر میں پڑھنے پر گناہگار بھی ہوگا۔لیکن عورتوں کے لیے نہ تو جماعت واجب ہے نہ مسجد میں جانا کار ثواب بلکہ حضور ﷺ ہی یہ فرمارہے ہیں عورت جس قدر پوشیدہ اور یکہ وتنہاہو کر نماز پڑھیگی اتنا زیادہ بہتر ہے۔

یہ ایک اصولی ہدایت ہوی اور ہر صاحب علم وفہم جانتا ہے کہ اصولی ہدایات کی کس قدر اہمیت ہے۔اللہ یا رسولﷺ جو اصول و ضوابط بیان فرمادیں ان کے متعلق علما ٕ فقہا ٕ کا ہمیشہ یہ طریق رہا ہے کہ اگر قران وحدیث میں بعض جزیات ان اصولوں سے ہٹی ہوی نظر آتی ہیں تو وہ ان کی تاویل و تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ اصولوں پر حرف نہ آنے پایے۔اب یہاں اصول تو یہ کھل کر سامنے آیا کہ

”عورت کا مسجد میں نماز پڑھنا غیر افضل ہے “

افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے لیکن عمل یہ نظر آرہا ہے کہ حضور ﷺ فجر وعشا ٕمیں اور عید میں عورتوں کو اذن حاضری دے رہے ہیں۔گویاجو عمل غیر افضل تھااسکی اجازت دی گیی۔اس کے سلسلے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس اجازت میں خصوصی مصالح تھیں۔۔۔۔غور کرنے سے دو مصالح نمایاں نظر آتی ہیں

١۔۔۔ایک تو یہ کہ  نماز اس دور کے انسان کے لیےایک نیی چیزتھی اسےٹھیک ٹھیک سیکھنا اور سیکھے ہوے کو یاد رکھنا اتنا آسان نہیں تھا۔مرد تو مردوں کے ساتھ سیکھ رہے تھے اورعادی ہوتے جارہے تھے لیکن عورتوں کے لیے مسٕلہ تھا۔ محض زبانی تعلیم عملی کاموں میں زیادہ موثر نہیں ہوتیں۔خصوصًا ایسے کام جن میں حرکت و جنبش اور شکل و ہیت کی ایک خاص ترکیب وترتیب مطلوب ہو۔شاید اسی لیے حضور ﷺ نے مناسب سمجھا کہ عورتوں کی مسجد میں نماز پڑھنے سے  مشق و مزاولت ہو جاے۔عادت پڑ جاے۔نماز میں بھول چوک نہ ہو۔

٢۔۔۔دوسرے یہ کہ ابھی اسلام کا آغازتھا۔ ابھی کفار پر شوکت اسلام کا اظہار ضروری تھا۔جس کی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل یہ بھی تھی کہ مسجدیں بھری پری نظر آیں، پھر عید چونکہ اسلامی اجتماع کا سب سے بڑا دن ہے اس لیے خصوصی پابندیوں کے ساتھ اس دن عورتوں کو بھی اذن شرکت ملا تاکہ کفار دیکھ لیں کہ اسلام کیساپھل پھول رہا ہے شاید کفار کو تعداد کثیر یا ہجوم دکھانا ہی مقصد ہوگا لہزا ایسی عورت جو ایام حیض کے فطری طور سے گزر رہی تھیں انھیں بھی کہا گیا کہ عید گاہ لاو۔۔۔ایسی عورتیں جنکے پاس اوڑھنیاں نہیں یا کسی وجہہ سے دستیاب نہیں تھیں تو حکم ہوا کہ اسکی بغل والی اسے اپنے اوڑھنی میں لے لے۔ایسی عورتوں کو جو نماز میں ”شریک“ بھی نہیں ہو سکتیں انھیں بھی بلانا کیا ظاہر کرتا ہے۔

مُحَمَّد ﷺ سےزیادہ مصلحت کون سمجھ سکتا ہے۔یہ تو طے ہے کہ حضور ﷺ  کا افضل چھوڑ کر مفضول اور زیادہ بہتر کو چھوڑکر کم بہتر کا اذن دینا خصوصی مصلحت ہی ہوگی۔ورنہ اصول شرعی یہی ہے کہ عورت کا  گھر میں نماز مسجد جانے سے بہتر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریعت عورت کو گھر ہی کے مصلے پر دیکھنا چاہتی ہے۔اور ایک محدود زمانے میں مخصوص و نادر قسم کی پاکیزہ فضا میں حضور ﷺ کا عورتوں کومسجد میں آنے دینا ایسا اذن نہ تھا جوہمیشہ باقی رہے اور حالات کا تغیر اس پر اثر انداز نہ ہو۔

ذیل کی حدیث اکثر کتب حدیث میں دیکھی جا سکتی ہیں۔جسے یہاں ہم ابو داود سےنقل کرتے ہیں۔

ان عایشة رضی اللہ عنھا زوجہ النبی صل اللہ علیہ وسلم قلت لو ادرک رسولاللہ صل اللہ علیہ وسلم ما احدث النسا ٕ لمنعھن المسجدَ کما منعت نسا ٕ بنی اسرایل۔

ترجمہ_____”زوجہ رسول حضرت عایشہؓ ؓ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہﷺ عورتوں کے وہ وطیرے دیکھ لیتے جو اب انھوں نے اختیار کر لیے ہیں تو یقیناً انھیں اسی طرح مسجد آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرایل کی عورتیں روکی گیی تھیں۔“کتاب الصلواة۔باب التشدید فی ذلک

کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد یا عید گاہ میں جانےکی اجازت دایمی نہیں تھی۔اندازہ کیجیے حضرت عایشہؓ یہ بات اس زمانے میں کہ رہی ہیں جو خیر القرون کا زمانہ ہے۔ابھی صحابہؓ کا دور ختم نہیں ہوا ہے۔معاشرے میں اسلام و ایمان کے اثرات گہرے ہیں۔فحش کاری فیشن نہیں بنی ہے۔فسق و فجور کا شیوع نہیں ہے۔کسی غیر اسلامی تہزیب نے ابھی دل و دماغ پر چھاپہ نہیں مارا ہے۔تغیر آیا ہےتو معمولی سا۔حالات بدلے ہیں توتھوڑے سے۔سلطنت بھی صحابہؓ ہی کی ہے۔خلیفہ اور اسکےعمال خطا کاروں کوسزا دے سکتے ہیں۔لیکن حضرت  عایشہؓ اسوقت پورے یقین سے کہ رہی ہیں کہ آج حضورﷺ ہوتے تو عورتوں کو مسجد نہ جانے دیتے۔

تو کیا کوی بھی ایسا مسلمان جس میں دینی فہم ہو یہ نتیجہ اخز کر سکتا ہے کہ آج ہم جس ماحول،جس دور،اور جس قسم کی فضا میں زندگی گزار رہیں ہیں اس میں یہ تصور بھی کیا جا سکتا کہ عورتوں کو مساجد یا عیدگاہ میں جانا خیر وصلاح کا شایبہ بھی اپنےاندررکھتا ہو۔

ایک اور نکتہ 

جس دور مبارک میں مُحَمَّد ﷺنےعورتوں کو مسجد کی اجازت دیا اس وقت بھی آپ کی خاص ہدایات تھیں۔عورتیں بن سنور کر نہ آیں۔مردوں میں خلط ملط نہ ہوں۔اپنی صفحیں الگ بنایں۔اوازنہ نکالیں اور یہ پابندیاں اس موحول میں تھیں جب کہ ہر طرف صحابہ ہی صحابہ تھے۔ان میں سے اکثر زہدو تقویٰ کے پیکر تھے کہ جن کے جیسے آج چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔اگر اتنے پاکیزہ ماحول میں حضور ﷺ نے اتنی پابندیاں عاید کیں تو خود سوچ لیجیےکہ آج کے ماحول میں عورتوں کو مسجد یاعیدگاہ لانےکا تصور ہی کتنا بےتکا محسوس ہوتا ہے۔جبکہ ہم اپنی خواتین سے بھی ان پابندیوں پر عمل کرانے سے عاجز ہوں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ آج جولوگ عورتوں کو مسجد لانے کی بات کر رہے ہیں یا اس تحریک میں ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں وہ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ کتنے مسلمان ہیں جن کے گھروں کی تمام خواتین پنجوقتہ کی پابند ہیں۔ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ کو چھوڑ کر شاید ہی نوجوان لڑکیاں ایسی مل سکیں جو پابند نماز ہوں۔پھر تہزیب نو کے سیلاب نے رہن سہن،پوشش ٗگفتار سب کو کس مقام پر لا ڈالا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔آج جو گھر مہزب تعلیم یافتہ ہیں وہ  موڈرن کہلاتے ہیں ان کا تو چھوڑیے ٗاچھے دیندار گھرانے کی بھی لڑکیوں اور عورتوں کے ملبوسات،طورطریقے،عموماً ایسےملینگے کہ حضرت عایشہؓ  نے اپنے زمانے کی عورتوں کے جن وطیروں کا اجمالی ذکر کیا، وہ آج کے زمانے کے حساب تو کچھ  بھی نہیں۔ہونٹوں کی سرخی،چہرے کا غازہ، ناخون کی پینٹنگ اس طرح کی چیزیں بھلا اس دور میں کہاں تھیں۔آج تو برقعےایسے کہ دیکھیے  اور دیکھتے ہی رہیے۔لباس عموماً جسموں سے اس قدر چسپاں کے اکثر اعضا ٕ کا ایک ایک زاویہ نمایاں۔بے پردگی نے اپٹوڈیٹ فیشن کا نام لے لیا  ہے،آج ہماری مسلم خواتین خریدادری خود کرتی ہیں۔گھنٹوں ایک ایک سامان پسند کرتی ہیں۔خوب کھل کر اپنی چوایس کا اظہار دکاندار سے کرتی ہیں۔ پھر مول بھاو وہ الگ۔گھروں میں یا دروازے پر آنے والوں سایل فقیروں سے لیکر دودھ والے،سبزی والے،گیس والے، اسکول کے کنڈکٹر تک سے بالکل آذاد ہوکر گفتگو کرنا  آج عام بات ہے اور اسے قابل گرفت تصور نہیں کیا جاتا۔اس وقت تو حضرت عایشہؓ نے صرف عورتوں ہی کے تغیر احوال کو امتناع کے لیے کافی سمجھا تھا جو کہ اج کے بہ نسبت بہت بہت بہت کم تھا۔اس کے علاوہ آج کے  مردوں کے  احوال بھی  ویسے ہی بدترین ہیں۔ہر طرف شہوانی محرکات کا دور دورہ ہے۔ کوی ایسی جگہ یا بازار نہیں جہاں فحش رسالے اور فحش گانوں کا رواج نہ ہو۔موبایل اور انٹرنیٹ نے معاشرہ کے ہر لڑکے لڑکیاں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے فوٹوز اور ویڈیوز کی ادلا بدلا ہو رہی ہے۔لایو ویڈیو کالنگ نے تو اور عریانی پھیلا رکھی ہے۔کہاں تک ان عفریتوں کا تزکرہ کیاجاے۔آج کے دور میں ایک نیک ایماندار اور سچے مسلمان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ کسی طرح اپنے گھروں کی عورتوں بیوی، بیٹی کو سماج میں پھیلے ہوے ان خرافات اور وبای اثرات سے پچا کر رکھے۔اس تگ و دو میں وہ کتنے پریشان  اور فکرمند رہتے ہیں ان کیے روز و شب کس بےچینی اور اضطراب سے گزر رہیں ہیں یہ تو وہی جانتے ہونگے،ہم تو بس اسکا کچھ حصہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ تحریک چلا کر انکی پریشانی میں مزید اضافہ کے اور کچھ نہیں نظر آتا۔

ایک اہم بات اور

آج تمہارے ہاتھ میں ایسا کوی اختیار نہیں کہ عورتوں کی مسجد آمد ورفت کے لیے کوی علایحدہ راستہ بناو جن پر مردوں کا گزر نہ ہو۔تم تو اس ہر بھی قدرت نہیں رکھ سکتے کہ نظربازوں اور تماش بینوں اور فحش جملے اچھالنے والوں یا گندے اشارے کرنے والوں کے  خلاف کوی اواز ہی اٹھا سکو۔ارے تم تو اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنی خواتین کو ہی ان بیجا قسم کے غازہ پوڈر سینٹ اور فالتو زیب و زینت سے روک رکھو جو کہ اس وقت بھی ممنوع تھا جب اچھے حالات اور ماحول تھے۔پھر کس بل بوتے پر عورتوں کو مسجد آکر نماز پڑھنے پر اس طرح کی شدت پسندی اختیار کیے ہو؟

مولانا عامر عثمانی اس موضوع پر لکھتے ہیں۔

”عورتیں مردوں کے ساتھ تو صرف اس دور میں شریک جماعت کی گییں جب ایک طرف تو انھیں نماز سکھانی پیش نظر تھی اور دوسری طرف تمام معاشرہ خوف خدا،پاکیزگی،اخلاق اورعفت و حیا کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔حضورﷺ زندہ تھے۔زہد و ورع فضا میں رچ بس گیا تھا۔“

ایک اور جگیہ یوں لکگتے ہیں۔

” زیر بحث تحریک ایک بڑا فتنہ ہےجس کا جوڑ حدیث رسول ﷺ سے نہیں بلکہ شیطانی کیدومکر سےملتا ہے۔”دام ہمرنگ زمیں “ کی اصطلاح ایسے ہی امور کے لیے وضع ہوی ہے۔“

فقہا ٕ کیاکہتے ہیں۔

حضرت عایشہؓ کے تفقہ سے کون انکار کر سکتا ہے۔ایک اور مثال دیکھیے۔

ایھا الناس انھو انسا ٕ کم عن لیس الزینتة والتبختو فی المساجد فان بنی اسرایل کم یمنعوا حتیٰ لیس نساوُھم الزینتة و تبحترو ا فی المساجد۔“

______”اے لوگو۔۔۔۔۔ا۔ اپنی عورتوں کو مساجد میں بن ٹھن کر آنےسے اور ناز انداز دکھانے سے روکو۔بنی اسرایل اسی وقت ملعون ٹھیراے گیے جب ان کی عورتوں نے مسجدوں میں سج کر آنا اور ناز انداز دکھانا شروع کر دیا تھا۔“فتح الملہم،جلد ثانی،باب خروج النسا ٕ الی المساجد۔

یہ تودور عایشہؓ تھا لیکن بعد میں جو تغیر احوال ہو اس کے تعلق سے فقہا ٕ کا فیصلہ یہ ہے۔

منعت غیر المزیّنتة ایضاً لغلبة الفسّاق و لیلاً وان کان النص یبیحة الانّالفسّاق فی زماننا اکثر انتشارھم وتعرضھم با الّیل و علے ھذا ینبغی علی قول ابی حنیفة تفریع  منع العجایز لیلاً ایضاً بخلاف الصبح فان الغالب نومھم فی وقتة بل عمم المتأخرون المنع   للعجاٸز والثواب فی الصلاة کلھا لغلبة الفسّاق فی ساٸرالاوقات“۔۔۔۔۔۔حوالہ مزکورہ۔

ترجمہ_____”سادہ پوش خواتینبھی مسجد جانے سے منع کی جاینگی۔کیونکہ اب فاسق لوگوں کی بہتات ہے۔اور نص حدیث سے اگر چہ رات کے لیے عورتوں کو مسجد کی اجازت ہے لیکن رات میں بھی انھیں منع کیا جایگا کیونکہ ہمارے زمانے میں فساق کی کوچہ گردی اور دستدرازیاں رات میں بھی عام ہیں۔ اور اس بنیادپرقول ابی حنیفہ سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ صرف جوان عورتوں کو نہیں بوڑھیوں کو بھی رات میں مسجد جانے سے روکا جایگا۔ہاں صبح میں نہ روکا جایےکیونکہ اس وقت اغلب یہ ہے کہ فساق سوے ہویے ہوں۔ لیکن متاخرین علما ٕ کا کہنا ہے کہ بایں حالات جوان اور بوڑھی سب عورتوں کو دن اور رات دونوں میں مسجدوں سےروکا جایگا کیونکہ اب فاسقوں کی کوچہ گردی اور سیہ کاری سے کوی بھی وقت مامون نہیں۔“

ایک اور جگہ دیکھیے۔

فاذا فرض انتشارھم فی ھذہ الاوقات لغلبة فسقھم کما فی زماننا بل تحریّھم ایّا ھا کان المنع فیھا اظھر من ازھر“____”فتح المذھم۔بحوالة النھرو کذا فی رد المحتار۔“

______”پس جب فسق و فجورکےغلبے کے باعث یہ سمجھ لیا جایے کہ فساق ان مزکورہ اوقات میں بھی خانہ نشین نہ ہونگے جیسا کہ ہمارے زمانے میں ہے بلکہ وہ تو اب عورتوں کے تجسس اور تلاش میں رہنے لگے ہیں تو ایسے حالات میں عورتوں کو تمام ہی اوقات میں مساجد سے روکنا ظاہر سے بڑھ کر ظاہر ہے۔

یہ بھی دیکھیے

ان الزوج لا یمنع زوجة من تلقا ٕ نفسھم اذا استازنتة ان لم یکن فی خروجھا ما یدعوالی الفتنة من طیب او حلی او زینتة وغیرھا نعم یمنعھا العلما ٕ المفتون و الامرا ٕ القاٸمون بدفع الفتنة و تغییر المنکرات لشیوع الفتن و عموم البلویٰ و الزاج ایضاً یخبرھا بمنع العلمأ و اولی الامر _____فتح الملہم جلد٢ صفحة ٦٩۔

”عورت اگر خوشبو،زیور اور بناو سنگھارکے بغیر،کہ یہ چیزیں فتنے کو دعوت دینے والی ہیں شوہر سے مسجد جانے کی اجازت طلب کرےتو حدیث بتاتی ہے کہ شوہر بجایے خود اسے منع نہ کرے ہاں فتویٰ دینے والے علما ٕ اور وہ حکام جو برایوں کو مٹانے اور فتنے کو دفع کرنے کے لیے تعینات کیے گیے ہیں عورت کو منع کرینگے۔کونکہ عموم بلویٰ اور فتنوں کا پھیلاو بڑھ گیا ہے اور شوہر کا بھی فریضہ ہے کہ وہ بیوی کو متنبہ کرے کہ علما ٕ اور حکام عورتوں کا مسجد جانا ممنوع قرار دے رہے ہیں۔“

شارح بخاری علامہ بدرالدین حنفیؒ فرماتے ہیں۔

وقال العلما ٕ کان ھذا فی زمنة صلی اللہ علیہ وسلم و اما الیوم فلا تخرج الشابة    ذات الھنیة و لھذا قالت عایشةؓ۔

 ترجمہ_____  ”اور علما ٕ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کی عیدگاہ میں حاضری کا استجاب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جہاں تک آج کا تعلق ہے تو آج کسی بھی جوان عورت کو جو  کسی درجے میں بھی لاٸق التفات ہو  عیدگاہ کے لیے نہیں نکلنا چاہیے اور اسی لیے حضرت عایشہؓ نے کہا۔۔۔۔۔۔۔“

اسکے بعد حضرت عایشہ ؓ والی وہی روایت سنایا پھر اپنی راے کچھ یوں بیان فرماتے ہیں۔

قلتُ ھذا الکلام من عایشة بعد زمن یسیر جدّاً بعداً نبی صلی اللہ علیہ وسلم فاذا کان الامر قد تغیر فی زمن عایشة حتٰی قالت ھذالقول فاذا یکون الیوم الّذی عم الفساد و فسٰت المعاصی من الکبار و الصغار فنسأل اللہ العفو والتوفیق فلا  یرخصٍ فی خروجھن مطلاقاً للعید وغیرہ۔

ترجمہ_____”میں کہتا ہوں یہ  بات حضرت عایشةؓ نے اس وقت کہی جب خضور ﷺ  کی رحلت پر ابھی تھوڑا زمانہ گزرا تھا بس جب کہ حضرت عایشة ؓہی کے دور میں صورت حال اتنی متغیر ہو گي یہاں تک کہ انھیں یہ کہنا پڑا ”اگر رسولﷺ زندہ ہوتے تو عورتوں کو مساجد سے منع کر دیتے“ تو پھر آج جبکہ فساد عام ہو گیا ہے اور بڑے  چھوٹے گناہ پھیل گیے ہیں ”خدا ہمیں معاف کرے اور گناہوں سے بچنے کیتوفیق دے“ عورتوں کے نکلنے کی   مطلق اجازت نہ ہوگی۔نہ عید کے نہ کسی نماز کے لے۔

امام طحاویؒ نے فرمایا..

کان الامر یخروجھنّ اوّل الاسلام لتکثیر المسلمین فی اعین العدو۔

عید گاہ ک طرف عورتوں کا نکلنا شروع اسلام کا معاملہ تھا تاکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کی کثرت کا نظارہ کریں۔

اس پر شیخ سراج الدین ”التوضیح“ میں فرماتے ہیں۔

قلت کان ذلک لوجود الامنایضاً والیوم قلّ الا من والمسلمون کثیر ومذھب اصحابنا فی ھذا الباب ما ذکرہصاحب۔البداٸع اجمعو اعلیٰ انّة لا یرخص للشابة  الخروج فی العیدین ولا خلاف ان الافضل ان لا یخرجن فی صلواة۔

______میں کہتا ہوں یہ اس لیے بھی تھا کہ اس وقت ”امن“ پایا جاتا تھا اور آج امن کم ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی کثرت ہے۔اور ہمارے اصحاب ”احناف“ کا مزہب اس بات میں وہ ہے جسے صاحب ”بداٸع“ نے ذکر کیا ہے کہ یہ سب اس پر متفق ہیں کہ جوان عورتوں کو عیدین کی اجازت نہ دی جایگی اور اس میں کوی اختلاف ہی نہیں ہے کہ کسی بھی نماز کے لیے انکا نہ نکلنا نکلنے سے بہتر ہے۔

صاحب در مختار بطور خلاصہ مفتٰی بہ مزہب بیان کرتے ہیں۔

ویکرہ حضور ھن الجماعة ولو لجمعة وعید و وعظ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المزھب المفتٰی بة لفساد الزمان۔

_____اور مفتٰی بہ مزہب یہ ہے کہ اب عورتوں کی جماعت میں حاضری مکروہ ہے خواہ وہ جمعہ ہو یا عید یا محفل وعظ اور چاہے عورتیں بوڑھی ہی کیوں نہ ہوں اور چاہے رات ہی کا وقت ہو کیونکہ فساد زمانہ بڑھ گیا ہے۔

آخری گزارش

اگر ان تمام باتوں کے بعد بھی کسی کو محسوس ہوکہ عورت کا مسجد جانا ہی بہتر ہے تو ان سے میری گزارش ہے۔ ۔۔خدارا آپ اس معاملےمیں مسلم تنظیمیں، اداروں اور علما ٕ سے گفتگو کریں، نا کہ سوشل میڈیا پر اسے اچھال کر اپنی قوم کی ہتک عزتی کے مرتکب بنیں۔

تبصرے بند ہیں۔