ہاں! میں علی بنات ہوں

نازش ہما قاسمی

ہاں! میں علی بنات ہوں ۔۔۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا انسان۔ میری پیدائش 16فروری 1982کو گرین ایکر سڈنی آسٹریلیا میں ہوئی۔ میں ایک کاروباری شخص تھا۔ نہایت ہی مالدار۔ میرا شمار دنیا کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا تھا۔ میں شاہانہ زندگی گزارتا تھا، قیمتی لباس میرے تن پر ہوتے تھے، شاندار اور نہایت ہی مہنگی گھڑیاں میری کلائیوں پر تھیں، ساٹھ ساٹھ ہزار ڈالر کا میں کڑا پہنتا تھا۔ بڑی بڑی گاڑیاں استعمال کرنا میرا پسندیدہ شوق تھا، میرا گھر کسی شاہی محل سے کم نہیں تھا۔ جہاں تمام تر دنیاوی سہولیات مہیا تھیں ۔ دنیاوی آسائش کی وہ کون سی چیز تھی جو میں خرید نہیں سکتا تھا، جسے میں پہن نہیں سکتا تھا، جسے میں کھا نہیں سکتا تھا، سب کچھ تھا میرے پاس۔ میرے خدا نے مجھے ڈھیر ساری دولتوں سےنوازا تھا؛ لیکن اب تک میں اس کا استعمال صرف اپنی ذات تک کررہا تھا۔ خدا کی دی ہوئی دولت کا استعمال میں اپنے لیے کررہا تھا؛ لیکن میری زندگی 2015میں یکسر تبدیل ہوگئی۔ جب مجھے میرے ڈاکٹروں نے کہاکہ مجھے کینسر جیسا مہلک مرض لاحق ہوگیا ہے۔

میں صرف سات ماہ کامہمان ہوں، زیادہ دن اس دنیا کی رنگینی سے فائدہ نہیں اُٹھا سکوں گا، میرے تمام آرام کے سامان یہیں رہ جائیں گے اور میں موت کے منہ میں چلا جائوں گا۔ دنیا کی رنگینی پوری آب وتاب کےساتھ یہیں قائم رہے گی؛ لیکن میں اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکوں گا تو میں نے خود کو یکسر بدل لینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی سابقہ زندگی سے نکل کر ایسی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا جہاں انسانوں کی دعائیں لینا میرا محبوب مشغلہ قرار پایا، جہاں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے میں مجھے سکون میسر ہونے لگا، میں نے تمام آرام وآسائش سے کنارہ کشی اختیار کرلی، دنیا وی لہو و لعب سے خود کو الگ کرلیا اور اپنے کاروبار کو سمیٹ کر افریقہ کے غریب ملک ٹوگو پہنچ گیا۔

اس ملک کی 55فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار تی ہے اور اس ملک میں 12فیصد سے20فیصد مسلمان ہیں۔ جو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاررہے تھے میں اس ملک میں پہنچا۔ وہاں مدارس کی بنیاد ڈالی۔ مساجد کی تعمیر کروائی۔ مکاتب واسکولس قائم کیے؛ تاکہ میری قوم پڑھ لکھ سکے۔ ترقی کرسکے ۔ اپنے بل بوتے پر کچھ نمایاں کام کرسکے۔ میں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام سے Muslim Around The World نام سے ایک تنظیم بنائی اور اس تنظیم نے تین برسوں میں 797ہزار ڈالر جمع کرلئے، جسے میں نے تمام غرباء وفقراء کے لیے وقف کردیا۔ آج میری اس تنظیم سے میرے مرنے کے بعد پوری دنیا کے مسلمان استفادہ کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ میں کینسر جیسے موذی مرض سے ڈرا نہیں؛ بلکہ اس کینسر کے مرض کو میں نے عطیہءِ خداوندی سے تعبیر کیا، اگر مجھے یہ مرض لاحق نہیں ہوتا تو شاید میں اب بھی اپنے ماضی میں کھویا رہتا، جہاں تمام تر عیش وآرام میرے منتظر رہتے، میں نوجوان تھا، کچھ بھی کرسکتا تھا؛ لیکن اللہ نے مجھے ’سرطان کا عظیم تحفہ‘ دے کر مجھے انسانی خدمت کے لیے چن لیا، اور ایسے علاقے میں مجھے جانے کی توفیق بخشی جہاں کے مسلمان انتہائی غریب تھے، جو کالے تھے، جن سے عموماً لوگ نفرت کرتے ہیں، میں گورا تھا؛ لیکن کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں، کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت نہیں  خطبہءِ حجۃ الوداع میرے سامنے تھا، میں نے کالوں سے نفرت نہیں کی، میری ہی قوم کے یہ غریب تھے، میرا فرض بنتا تھا کہ میں ان کی مدد کروں اور خدا نے مجھے یہ توفیق بخشی اور ان کالوں کے درمیان مَیں ایک گورا ان کی خدمت کرتا رہا، وہ نہ تو میری زبان سے واقف تھے نہ ہی مجھ سے مانوس تھے، لیکن میں انسانی خدمت کا جذبہ لے کر ان کے پاس گیا تھا، چند ہی دنوں میں وہ مجھ سے مانوس ہوگئے، اور مجھ سے محبت کرنے لگے؛ لیکن اچانک میری زندگی کی میعاد پوری ہوگئی اور مجھے خدا کے پاس جانے کا بلاوا آگیا اور مجھے  جان جان آفریں کے سپرد کرنی پڑی۔

 29مئی 2018کا دن میری زندگی کا آخری دن تھا کہنے کو تو یہ دنیاوی اعتبار سے آخری دن تھا؛ لیکن میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا، ان دلوں میں جن کی خدمت مَیں نے توفیق خداوندی سے کی ہے، ان کی نسلیں مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں گی، لوگ مجھے دنیا میں تو جان ہی گئے اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی مجھے خدا اجر عظیم سےنوازے گا۔ اب جبکہ میں اس دنیا میں نہیں ہوں۔

میرے کام ادھورے پڑے ہیں مجھے امید ہے کہ میری طرح صاحب حیثیت اور مالدار مسلمان انسانی خدمت سے سرشار ہوکر غریب غرباء کی مدد کریں گے، کسی بھی مہلک مرض سے مرعوب نہ ہوکر اپنی کوشش جاری رکھیں، آج انسانیت سسک رہی ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کی جان کا پیاسا ہے، غریبوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، انہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں، اگر آپ کسی بھوکے کو دو روٹی دینے کا سبب بنتے ہیں تو یہ سب سے بڑی انسان نوازی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے مرنے کے بعد امراء، صاحب حیثیت میرے اس ادھورے کام کو پورا کریں گے، ا نسانیت کی خدمت میں اپنی زندگی گزار دیں گے ۔ یہ اگر ذہن میں رہے گا کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی ، تمام جائدادیں یہیں رہ جاتی ہیں تو شاید آپ انسانی خدمت کو ترجیح دیں گے، آج میں اس حال میں مرا ہوں کہ میرے بینک اکائونٹ میں ایک بھی پیسہ نہیں ہے، تمام کے تمام میں غریبوں میں خرچ کرچکا ہوں اور خوشی سے سرشار ہوں کہ خدا نے مجھے یہ توفیق بخشی اور دعا کرتا ہوں کہ تمام مسلم امراء، حاکم کو یہ توفیق بخشے تاکہ انسانیت نوازی جاری رہے۔

ہاں میں وہی علی بنات ہوں جس نے اپنی آخری ویڈیو میں یہ کہا ہے ’’الحمد اللہ میرا دور گزر چکا ہے ۔میں ان تمام لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سی ویڈیو کلپ بنانا چاہتا تھا جنھوں نے پہلے دن سے میرا ساتھ دیا اور مجھے سپورٹ کیا۔اور اس سفر میں میرے ساتھ رہے۔اللہ آپ تمام لوگوں کو اس کا اجر دے گا۔اور آپ مجھے اور میری تنطیم MATW کو سپورٹ کرتے رہیں۔میں آپ تمام بہن بھائیوں کو ایک چھوٹی سی نصحیت کرنا چاہتا ہوں۔ ہم میں سے بہت لوگوں کو اللہ کی طرف سے اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ ہماری موت کب آنی ہے۔ہم میں سے کچھ لوگ بلکہ اکثر لوگ اس دنیا سے اچانک چلے جاتے ہیں۔ہم نے بہت ساری ایسی کہانیاں سنی ہیں جس میں لڑکے لڑکیاں کلبوں میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس لیے میرے بہن بھائیوں اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا لیں۔اور ایک منصوبہ بنائیں جس پر آپ کام کر سکیں۔

اگر آپ خود یہ کام نہیں کر سکتے تو آپ کسی اور کے ساتھ مل کر فنڈنگ کے ذریعے بھی یہ کام کر سکتے ہیں؛ لیکن آپ کچھ نہ کچھ ضرور کریں؛ کیونکہ ا سکی آپ کو روز محشر ضرورت ہو گی۔اور وہ بہن بھائی جو اس زندگی کے پیچھے ہیں ان کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زندگی کے دن گزر جاتے ہیں اور بہت کچھ بدلتا رہتا ہے، لیکن ہم اسلام کی پیروی کرنے کی بجائے اپنی خواہشات پوری کرنے پر توجہ دیتے ہیں؛ لیکن زندگی مذاق نہیں ہے۔ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

میری سب کے لیے ایک نصیحت ہے کہ آپ کچھ اچھا کر کے لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔آپ نے زندگی میں جو کچھ بھی کیا ہے اللہ آپ کو اس کا ضرور اجر دے گا۔ وہ تمام لوگ جو اسلام کی طرف آئے ہیں روز محشر ان کو اس کا ضرور اجر ملے گا۔اس لیے اپنی زندگی میں ایسے کام ضرور کریں جو قبر میں اور اس کے بعد بھی آپ کی مدد کر سکیں اور آپ کے لئے مغفرت کا سبب بن سکیں۔۔!!

تبصرے بند ہیں۔