شکریہ ترکی کے باشعور عوام!

نازش ہماقاسمی

ترکی الیکشن پر پوری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں، جہاں عالم اسلام کے مسلمان اردگان کی جیت کے لیے دُعائیں اور مناجات کر رہے تھے وہیں باطل طاقتیں پوری قوت  سے سازش میں مصروف تھیں۔ لیکن اللہ اللہ کرکے ترکی کا الیکشن مکمل ہوا اور اردگان تاریخ ساز جیت کے ساتھ ترکی کے ایک بار پھر صدر منتخب ہوگئے۔ ترکی سے عالم اسلام کے مسلمانوں کا تعلق والہانہ ہے۔ خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد پوری دنیا کے مسلمان مایوس ہوگئے تھے ۔ عالمی پیمانے پر ان کی جمعیۃ اور متحدہ آواز دب گئی تھی؛ لیکن خدا نے ترکی میں رجب طیب اردگان کو پیدا کیا جس نے اپنی صلاحیت سے ترکی کا نقشہ بدل دیا۔ وہ ترکی جو کبھی یورپ کا مرد بیمار کہاجاتا تھا آج مسیحا بنا ہوا ہے۔ وہ ترکی جس کے بارے میں اقبال نے ترک ناداں کہا تھا آج دانا وبینا ہے اور پوری فہم وفراست سے عالم اسلام کے مسلمانوں کی رہنمائی کررہا ہے اور یہ امید دلا رہا ہے کہ ان شاء اللہ خلافت عثمانیہ کا احیاء ہوگا، مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو پالیں گے۔ وہ مساجد جو گرجا گھر اور شراب خانوں کے اڈوں میں تبدیل ہوگئی تھیں ان شاء اللہ جلد ہی انہیں بازیاب کراکر نغمہء توحید سے منور کریں گے۔ وہ ترکی جہاں اسلام کا نام لینا جرم تھا، قرآن کی تعلیم حاصل کرنا دشوار تھا آج وہاں کی مساجد آباد ہیں ، مدارس میں قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونج رہی ہیں اور اہل مغرب کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جلد ہی ہم کمال اتاترک کی جمہوریت کو خیرباد کہہ کر مکمل اسلامی ملک کا لبادہ پہن لیں گے۔

ترکی کے عوام نے اردگان کو تاریخ ساز فتح دلا کر امت مسلمہ پر احسان کیا ہے۔ لوگ ترکی کے موجودہ صدر اردگان کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں انہیں اسرائیل کا دوست اور امریکہ کا حلیف بھی سمجھتے ہیں، ہوسکتا ہے یہ ملکی مفادات کے لیے ضروری ہو، دیگر مسلم حکمرانوں کے بھی اسرائیل سے تعلقات ہیں اور امریکہ سے گہرے مراسم ہیں؛ لیکن عالمی سطح پر ترکی کے صدر کی جو شبیہ ابھری ہے وہ مسلمانوں کے مسیحا کے طو رپر ابھری ہے۔ ترکی نے چالیس لاکھ سے زائد شامی مسلمانوں کی دادرسی کرتے ہوئے انہیں اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے، فلسطین کے معاملے میں  اسرائیل سے دوستی ہونے کے باوجود بھی اسے آنکھ دکھاتا ہے۔ پوری دنیا روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہتی ہے؛ لیکن ترکی کا صدر اپنی اہلیہ کو بھیج کر وہاں دادرسی کرتا ہےاور حکومت بنگلہ دیش کو مجبور کرتا ہے کہ وہ انہیں پناہ دے، تمام اخراجات ہم برداشت کریں گے۔ اس کے برعکس دیگر مسلم حکمراں یا تو غزہ کی ناکہ بندی میں ان کے ساتھ شامل ہیں یا پھر قطر کے ناطقہ میں امریکہ و سعودی کی حمایت میں ہیں۔ ترکی ہی واحد ملک ہے جو ببانگ دہل اور علی الاعلان شامی مسلمانوں ، فلسطینی مجبوروں ، اورروہنگیائی لاچاروں کے لیے آواز اُٹھا رہا ہے اورعالم اسلام کو امید ہے کہ وہ آواز اُٹھاتا ہی رہے گا۔

جس دن یہ خوشی عالم اسلام کو ملی تھی اسی دن یہ افسوسناک خبر بھی ملی تھی کہ سعودی ولیعہد نے اسرائیلی وزیر اعظم سے خفیہ ملاقات کی ہے ۔ وہ لوگ جو سعودی کی حمایت میں اور ترکی کی مخالفت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سعودی میں ہی سب سے زیادہ اسلام کا نفاذ ہے اور وہیں سے اسلام کی آبیاری ہورہی ہے اس کے برعکس ترکی میں نہ ابھی مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ ہے اور نہ ہی یہاں مکمل اسلامی ماحول؛ لیکن سعودی اپنے اسلامی ماحول سے انحراف کررہا ہے اور ترکی اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کررہا ہے۔ اس لیے یہاں ترکی سعودی پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر ترکی کے اسرائیل سےتعلقات ہیں تو وہ اسرائیل کو دو ٹوک جواب بھی دیتا ہے دیگرمسلم حکمرانوں کی طرح خاموشی اختیار نہیں کرتا۔ فلسطینیوں اور شامیوں کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے دیگر کی طرح چپ نہیں بیٹھتا۔ اور یہ سچ ہے کہ ترکی کا صدر تمام خامیوں کے باوجود موجودہ مسلم حکمرانوں میں سب سے بہتر ہے اور نڈر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترکی میں اب بھی شراب کے اڈے قائم ہیں؛ لیکن وہ دھیرے دھیرے بند کیے جارہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں شراب، جوئے کے حرام ہونے کے لیے وحی مبارک کا نزول ہوا تھا وہاں اب عام ہورہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترکی میں سنیما گھر تھے جہاں عریاں وفحش فلمیں دکھا کر نسلوں کو برباد کیاگیا؛ لیکن یہ اب بند کیے جارہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کے مقدس ہونے پر یقین رکھنا لازم ہے نااہل حکمراں وہاں کے تقدس کو پامال کررہے ہیں خواتین اسلام کو بے حیا دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے سروں سے ردائے عصمت اتار کر انہیں سنیما گھروں کی زینت بنارہے ہیں۔

ترکی الیکشن کی جیت صدر اردگان نے اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے، انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ترکی کو مرد بیمار سے مرد مسیحا بنانے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ مدارس ومساجد کا احیا کیا نئی نسل کو دین سے واقف کرایا۔ عوامی لیڈر بن کر ان کے درمیان جا گھسا ان کی باتیں سنیں  اور ان کے دلوں پر راج کرنے لگا۔ ۲۰۱۶میں جب فوجی بغاوت ہوئی تھی تو راتوں رات اس مسیحائے ترکی کی حکومت کو بچانے کےلیے نہتے عوام ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور باغیوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اب جبکہ لوزین معاہدہ کے دن قریب آرہے ہیں۔ جہاں ترکی صدر کو بہت سے اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ ترکی کے عوام سمیت پوری دنیا کی نگاہیں اس جانب اُٹھی ہوئی ہیں اور ان شاء اللہ یقین ہے کہ عثمانی دور خلافت واپس آجائے گا جس خلافت سے باطل لرزہ ہے جس خلافت کی بنیاد کو باطل جڑوں سے مٹادیناچاہتا تھا آج سو سال پورے ہونے پر پوری آب وتاب کے ساتھ دوبارہ آنے کو تیار ہے۔ ہزاروں ظلم کے باوجود بھی وہ ترکی اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے دلوں سے لفظ خلافت کو محو نہ کرسکا۔تاریخ ساز جیت کے بعد اسی ترکی میں جہاں اسلام کا نام لینا اللہ اکبر کہنا جرم عظیم تھا اسی ترکی میں نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، اردگان زندہ باد کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ سرخ ہلالی پرچم پورے ترکی  پر پوری آب وتاب کے ساتھ لہرا رہا تھا۔ اور یہ عندیہ دے رہا تھا کہ ایک امت، ایک قوم زندہ ہے اور واپسی کو مکمل تیار۔

سلام اے شیر دل ترکو!

تم نے قائد کی آواز پر۔۔۔ایک ترکی ایک جھنڈے کے نعرہ کے تحت ۔۔۔خلافت عثمانیہ کے احیاء کے لیے۔۔۔متحد ہوکر ایسے وقت میں ۔۔۔جب کہ باطل طاقتیں ۔۔۔تمام سازوسامان سے لیس ہوکر ۔۔۔مکمل سازشیں کرکے ۔۔۔اردوگان کو ہرانے کے درپے تھے ۔۔۔تاکہ امت کی آواز اٹھانے والا ۔۔۔مسلمانوں کا کوئی قائد نہ رہے ۔۔۔لیکن تم ترکوں نے انہیں منتخب کرکے ۔۔۔یہ ثابت کردیا کہ ترکی کا ہر باشندہ ۔۔۔ خلافت عثمانیہ کا دلدادہ اور خواہش مند ہے ۔۔۔وہی خلافت جس کے خوف سے باطل اب بھی کانپ رہا ہے ۔۔۔شکریہ ترکستان والو! ترکی کے باشعور عوام! ۔۔۔اس فتح سے امت مسلمہ کو اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔۔۔ان شاء اللہ۔

تبصرے بند ہیں۔