حضرت مولانا احمد رضا خانؒ

 ریاض فردوسی

اسلام نسلی، لسانی، جغرافیائی، معاشی ومعاشرتی تصورات کو رد کر کے صرف فکری ونظریاتی حد کو تصور حیات دنیاوی میں اپناتا ہے۔ اسلام کا اجتماعی اور قومی نصب العین ایک ایسے صالح اور مثالی انقلابی معاشرے کا قیام ہے جو غلبۂ اسلام کی خاطر عالمگیر انقلاب کا ضامن ہواور وہ معاشرہ وحدت نسل انسانی اور انسانیت کے شرف تکریم کے ایسے تصور پر بنتی ہو جس سے محدود گروہ لسانی علاقائی اور طبقاتی عصبیتیں معدوم ہوسکیں۔ اس کی بنائے استحکام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے ایسی غیر مشروط اور مخلصانہ دائمی وفاداری ہو کہ شرک فی النبوۃ کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے۔ جب پیغام اسلام کے برعکس مسلمانان عالم اپنی خودی میں ڈوب کر راہ حق سے ہٹ جائے تواللہ رب العزت اس کی اصلاح کے لیے ایک ایسا مجدد پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو اللہ کا پیغام سنائے اور اسلام کا صاف وشفاف چہرہ جو آئینہ سے بھی زیادہ بے داغ ہے دکھائے۔ ایسے ہی ایک عظیم مجدد کو اللہ رب العزت نے اس وقت پیدا کیا جب لوگ بے راہ روی مکمل طور پر اختیار کر چکے تھے،محسن انسانیت ﷺ کی ذات اقدس کو چند ذلیل اور ضمیر فروش علماء (جو صرف نام کے ہی مسلمان تھے) جنہوں نے کفر کے ناپاک و ذلیل حرکتوں کو قوت فراہم کرنے کے لئے اپنے علم کو انکی خبیث چالوں کے سپرد کرکے مثل ابو لہب نشانہ بنا رہے تھے۔ ان کی ذلیل چالوں کو تہ تیغ کرنے کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ نے  احمدرضاخاں علیہ الرحمہ ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء کو پیدا  فرمایا۔ آپ نے تقریباً چودہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلی ونقلی مکمل کرلیا۔ محیر العقول فطری ذکاوت کی وجہ سے آپ نے بہت جلد ان علوم سے فراغت حاصل کی۔

آپ ایک جگہ خود فرماتے ہیں، میں نے جب پڑھنے سے فراغت پائی اور میرا نام فارغ التحصیل علماء میں شمار ہونے لگا اور یہ واقعہ نصف شعبان ۱۲۸۶ھ کا ہے۔ اس وقت میں تیرہ سال دس ماہ پانچ دن کا تھا۔ اسی روز مجھ پر نماز فرض ہوئی تھی۔ اور میری طرف شرعی احکام متوجہ ہوئے تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، جدل، ہندسہ، معانی اور بیان ارثما،طبقی، ریاضی اور جفر کے علوم وغیرہ اپنی ذہانت وطاعی اور مطالع کی مسلسل کاوشوں سے حاصل کئے۔ مختلف علوم دینی میں شیخ احمد بن زینی دھلان مکی، شیخ عبد الرحمن، شیخ حسن بن صالح مکی، اور شیخ ابو الحسین احمد النوری سے استفادہ کیا۔ علوم روحانی میں قادریہ سلسلے میں بیعت حاصل کی۔ اس کے علاوہ مختلف سلاسل طریقت میں خلافت واجازت حاصل کی مثلا، سہروردیہ، بدیعیہ،، علویہ وغیرہ۔ دو بارحج بیت اللہ شریف سے مشرف ہوئے۔ امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی کتب ورسائل کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہے۔ مگر افسوس کہ ان میں اکثر مفقود الخبر ہیں۔ اور مزید یہ کہ اس کی کوئی مستند وجامع فہرست بھی دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر حسن رضا خاں پٹنہ نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ ’’فقیہ اسلام ‘‘میں امام احمد رضا ؒ کی ۶۶۶ کتب ورسائل (مطبوعہ وغیر مطبوعہ) کا ذکر کیا ہے۔

جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے فاضل علامہ مولانا عبد المبین نعمانی صاحب نے فاضل بریلوی کی فہرست کتب مرتب فرما رہے ہیں۔ ایک محطاط اندازے کے مطابق ۸۲۰ تصانیف  کی تحقیق کرچکے ہیں اور مزید اس پر کام جاری ہے۔ مولانا سید ریاست علی قادری مرحوم بانی (ادارہ تحقیقات امام احمدرضا پاکستان) نے تقریباً ۹۰۰ سے متجاوز فہرست تیار کی تھی۔ مگر افسوس کہ ان کے سانحہ ارتحال کے بعد ان کے خاندان کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی میں کہیں گم ہوگئی۔ اس وقت بین الاقوامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کی مرکزی لائبریری ’’گوشہ محققین‘‘ میں ۳۶۰ سے زائد مطبوعہ کتب ورسائل اور ۱۵۰ سے زائد عکسی مخطوطات کا ذخیرہ موجود ہے۔ (واللہ اعلم ) پہلی بار قیام مکہ کے دوران (حج بیت اللہ کے موقع پر) شیخ حسین بن صالح کی خواہش پر ’’الجوہرۃ المفیہ‘‘ کی شرح صرف دو یوم میں مکمل کر لی۔ تاریخی نام ’’انیسر الوصیہ‘‘ فی شرح الجوہرہ المفیہ، رکھا گیا۔ فقہ میں جدالممتار علیٰ ردالمحتار اور فتاویٰ رضویہ کے علاوہ ایک اور دینی وعلمی کارنامہ ترجمہ قرآن بھی ہے۔ جو کنز الایمان فی ترجمہ القرآن کے نام سے منظر عام پر آیا۔

قرآن پاک کے ترجمے کو آپ نے ۱۳۳۰ھ مطابق ۱۹۱۱ء میں مکمل کیا تھا۔ اردو، ہندی، فارسی، عربی، زبانوں میں مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتایا فتویٰ طلب کیا جاتاتو آپ سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے پھر حدیث نبوی سے استفادہ کر نے کی کوشش کرتے اور بعد ازاں فقہائے احناف سے استفادہ کرتے۔ آپ کے فتاویٰ میں ایک اصول نمایاں نظر آتا ہے کہ آپ نے جن ماخذ مدلل  دلیلوں سے فتاویٰ میں استدلال کیا، ان علمی دلائلوں کاکھلے دل سے اعتراف آپ کے مخالفوں نے بھی کیا ہے۔ جو کہ آپ کی وسعت مطالعہ، علمی دیانت، اسلاف احناف سے اتفاق وعقیدت وروایت کے تسلسل کی درخشاں دلیل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے اسلوب تحقیق میں جن کثیر علوم وفنون کا ذکر کیا ہے اکثر میں کو تجبرحاصل تھا۔ جس کا اندازہ ان علوم وفنون کے درمیان ان کے کثیر تعداد میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف سے ہوتا ہے۔ آپ کا تحقیقی معیار بھی کافی اونچا تھا۔ آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا اس میں نادر ونایاب تحقیقات پیش کر کے ہر دور کے اہل علم کو ششدر کردیا۔ آپ نے محقیقین کے لے تحقیق سے متعلق بعض نکات پیش فرمائے ہیں ان نکاتوں کا مطالعہ کرنے پر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک محقق کے لیے یہ کتنا نادر تحفہ ہے۔ تحقیق میں آپ نے صحت نسخ اور صحت متن پر بہت ہی زیادہ دھیان دیا۔ وزارت تعلیم حکومت سندھ کے سابق ایڈیشنل سکریٹری اور پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم ونصاب پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے امام احمدرضا خاں کے معیار تحقیق سے متعلق کہا تھا کہ ’’امام احمدرضاخاں کا تحقیقی معیار بہت بلند تھا‘‘۔

اپنی تصنیف ’’حب العوار‘‘ میں انہوں نے مآخذ اور اس کے متن پر علمی بحث کی ہے،اور شاہ احمد رضاخاں ؒکے علمی اثاثوں کو ادبی شکل میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے بلند پایہ محقق تھے۔ امام احمد رضا کی تحقیقات اور ان کا معیار اس قدر بلند ہے کہ ان سے بر صغیر کے محققین ہی نہیں بلکہ علمائے عرب اور مستشرقین یورپ بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ مشہور شامی عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ (پروفیسر صلیۃ الشرعیہ محمد سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب) جو عربی زبان وادب کے ممتاز ادیب ودانشور اور تقریباًپچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں فرماتے ہیں : ’’میں نے جلدی جلدی میں امام احمدرضا کا ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا۔ عبارت کی روانی اور کتاب وسنت واقوال سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر حیران ششدر رہ گیا۔ اور اس ایک فتویٰ کے مطالعہ کے بعد میں نے یہ رائے قائم کرلی کہ یہ ایک شخص کوئی بڑا عالم اور اپنے وقت کا زبر دست فقیہ ہے۔‘‘ یورپی مستشرق کیلی فورنیہ یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ تاریخ کی ڈاکٹر باربراڈی مٹکاف لکھتی ہیں۔ ’’احمدرضا خاں کی نگارشات کا اندازہ مدلل تھا۔ جس میں بے شمار حوالوں کے ڈھیر ہوتے تھے۔ جس سے ان کی علمی وعقلی فضیلت کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ آپ کے اسلوب تحقیق اور قوت فیصلہ سے متعلق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مولانا ایک دفعہ جو رائے قائم کرلیتے ہیں اس پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ یقیناً وہ اپنی رائے کا اظہار بہت غور وفکر کے بعد کرتے ہیں۔ انہیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاویٰ میں کبھی کسی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ‘‘ ناظم ندوۃ العلماء لکھنئو مولانا ابو الحسن علی ندوی، امام احمدرضاخاں کی قوت استدلال پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’انہوں نے ایک کتاب بنام ’’الذبدۃ الزکیہ تحریم سجود التحیۃ‘‘تصنیف کی۔ یہ کتاب اپنی جامعیت کے ساتھ ان کے وفور علم اور قوت استدلال پر دال ہے۔ ‘‘ آپ کے فتاویٰ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز ادیب ودانشور حکیم ممد سعید دہلوی فرماتے ہیں۔

میرے نزدیک ان کے فتاویٰ کے اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ وہ کثیر تعداد وکثیر فقہی جزئیات کے مجموعے ہیں بلکہ ان کا خاص امتیاز یہ ہے کہ ان میں تحقیق کا وہ اسلوب نظر آتا ہے۔ جس کی جھلکیاں ہمیں صرف قدیم فقہاء میں نظر آتی ہیں۔ آپ کے فتوے ہمیشہ شریعت کی رو میں ہوتے۔ آپ قانون خداوندی کے معاملے میں کسی کا بھی خیال نہیں کرتے۔ آپ گستاخ رسول اللہ ﷺ کے لیے ہمیشہ شمشیربے نیام رہے۔ آپ نے حدود اللہ کے بنا پر جو حرام ہیں حرام کہا، ناجائز ہیں ناجائز کہا اور خلاف اولیٰ کو خلاف اولیٰ تحریر فرمایا۔ گویا شریعت اعتدال کے دامن کو ذرہ برابر ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اور جو واقعی شرعی حکم تھا وہی بیان فرمایا ہے۔ با عمل عالم دین، فقیہ ملت، اور مجدد دین وملت کا کام بھی یہی ہے۔ آپ نے ۱۳۳۹ھ میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام ’’جمل النور فی نہی النساء عن زیارۃ القبور‘‘ جس میں عورتوں کو زیارت قبور سے منع کرنے کے بارے میں نور انی جملے بہت ہی موئدبانہ انداز میں تحریر کیا۔ آپ کی تصنیفات میں ہمیشہ عشق رسول ﷺ کو ترجیح دی جاتی۔ آپ کی نعت گوئی کافی مشہور ومعروف ہے۔ نعتیہ شاعری کا ایک بہترین مجموعہ حدائق بخشش حصہ اول دوم منظر عام پر آچکا ہے۔

 علامہ احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے عشق رسول ﷺ کو اپنا مقصد حیات بنایا، اور نعت گوئی کے ذریعے اپنے عشق کی ترجمانی کی، دنیا کے اہل علم ششدر رہ گئے اور لوگوں نے حسان الہند کے کلام سے دلوں کومنور و مجلیٰ کیا۔ اس صنف کو بہترین ادبی جواہر پاروں سے مزین کیا اور ایسی ایسی نعتیں تحریرکی، جو زبان وبیان، فکروفن، اظہار وابلاغ اور تاثیر کے اعتبارسے اردو ادب میں سرمائے حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ (تعجب خیز بات ہے کہ آپؒ کی کم ہی تصانیف اردو زبان میں ہے)۔ آپؒ کبھی اپنی نعتوں میں سرکار دوعالم  ﷺکی مدح سرائی کرتے ہیں تو کبھی ان کے اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی۔

سرور کہوں کہ مالک ومولیٰ کہوں تجھے

باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے

آل رسول ﷺ سے اپنی نسبت کا یوں اعلان کرتے ہیں۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کار

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا

کبھی آپ اپنی پریشانیوں کے بارے میں آقا ﷺسے یوں  رقمطراز ہیں:

کانٹا میرے جگر ے غم روز گار کا

یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو

انہوں نے نعت کے میدان میں جو اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں ان میں سے ان کی ایک مشہور ومقبول نعت کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتاہوں، جس میں اردو، ہندی، عربی اور فارسی کے تانے بانے سے وہ عمارت تعمیرکی گئی ہے۔ جو نعت گوئی کا ذوق وشوق رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ اپنی جگہ قائم رکھے گی۔ یہ تخلیق ذہنی تنوع اور علمی ظرف کا ایک ایسا انمونہ ہے جس کی مثال ہمیں فیضی، خاقانی، خسروؒ اور انشاء اللہ خاں انشاء کے علاوہ شاید ہی کہیں نظر آتا ہے۔

لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کوتاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

البحر علی والموج طغیٰ من بیکس وطوفاں ہوش ربا

منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگاجانا

یاشمس نظرت الیٰ لیلیٰ چوں بہ طیبہ رسی عرض بکنی

توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہوناجا

مندرجہ بالا نعت اردو، ہندی، فارسی اور عربی آمیز ہونے کے باوجود اپنے تاثر کی اکائی کو برقرار رکھتی ہے۔ نعت گوئی کا فن، عشق رسول ﷺ کی منزل میں ایسا پل صراط ہے جس پر قدم رکھنے اور توازن قائم رکھتے ہوئے اس پر سے گزر جانے کی سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ لیکن مولانا احمد رضا خاں ؒمیں دینی بصیرت، شریعت وطریقت سے آگاہی عشق سے باریک سے باریک نکات معلوم ہونے کا ساتھ موجود تھیں۔ آپ نے اپنی مکمل زندگی انسانیت مخدومی میں گزاردی۔ ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء کا دن مسلمانوں کے لیے غم کا اور رنج والم کا دن بن گیا جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ اپنے اس حاکم کے پاس پہنچ گئے جس کی شریعت کے آپ نگہبان تھے اور آج آپ نہیں ہیں مگر آپ کی تصانیف ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ بریلی کی سر زمین پر آپ کا مزار شریف موجود ہے۔ اور عقیدت مندوں کا ہر سال وہاں قافلہ جاتاہے، اور سننے والوں کو محبت رسولﷺ کی زندہ جاوید تصویر، عاشق صادق  ؒکی دلکش آوازسنائی دیتی ہے۔

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرزمری نہ یہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

تبصرے بند ہیں۔