ہاں میں ہندوستانی مسلم لڑکی ہوں!

نازش ہما قاسمی

جی ہندوستانی مسلم لڑکی؛ شہروں میں رہنے والی، گاؤں میں پروان چڑھنے والی، اچھے والدین کی اچھی لڑکی، برے والدین کی بری لڑکی، برے والدین کی نیک و اچھی لڑکی اور اچھے والدین کی نافرمان و بدمعاش بیٹی، اسکول میں پڑھنے والی، کالج و یونیورسٹی میں آنکھ لڑانے والی، جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والی، بازاروں کی رونق، گھروں کی زینت، بعض بھائیوں کی غیرت تو بعض بھائیوں کی غیرت کا جنازہ نکالنے والی ہندوستانی لڑکی ہوں، ہاں میں وہی لڑکی ہوں جو اپنے والدین کی انا کے لیے بھینٹ بھی چڑھائی جاتی ہوں، کبھی گھر والوں سے بغاوت کرکے گھر سے فرار ہوجاتی ہوں، کبھی کبھی بھائیوں کی غیرت جاگ جاتی ہے تو میرے فرار ہونے پر مجھے پکڑ تے ہیں اور فنا کردیتے ہیں اور کچھ بے غیرت میرے فرار ہونے میں، نامحرم سے عشق کرنے میں میرے معاون بھی بنتے ہیں۔ ہاں میں وہی مسلم لڑکی ہوں جو ان دنوں غیر مسلموں کے ساتھ رشتہ استوار کرکے خود کا، والدین کا اور اسلام کا مذاق بنارہی ہوں، ہاں میں وہی مسلم لڑکی ہوں جو غیر مسلموں سے شادی کررہی ہوں؛ کیوں کررہی ہوں اس کا جواب میرے والدین سے پوچھیں، وہ والدین جو ہر چیز کا ٹھیکرا ملی تنظیموں پر پھوڑتے ہیں، اس بار بھی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے غیروں سے منسلک ہونے کا ٹھیکرا انہوں نے ملی تنظیموں پر ہی پھوڑا ہے، کیا مجھے ملی تنظیموں نے جنما تھا۔۔؟

کیا میں ملی تنظیموں کی وجہ سے دنیا میں آئی۔۔۔؟  جب میں چھوٹی تھی، بچپن سے حیا سوز لباس مجھے پہنایا گیا، ابتدائی اسلامی تعلیمات سے دور رکھا گیا، گھر میں ٹی وی زدہ ماحول میں پلی بڑھی، بڑے بھائیوں کی کھلی ٹانگ دیکھتی رہی، اخلاقیات سوز فلمیں والد کے ساتھ تولیہ لپیٹ کر دیکھتی رہی، ماں کو چچا  کے ساتھ تنہائی میں خوش گپیاں اڑاتے دیکھی، ان حالات میں پروان چڑھی، پلی بڑھی، اسکول و کالج کا زمانہ آیا، مذہب بیزار اور لبرل ہونے کی وجہ سے جلد ہی کالج و یونیورسٹیاں راس آئیں، لڑکے دوست بنتے گئے، میری خوبصورتی کے قصیدے پڑھے جانے لگے، میں خود کو ملکۂ حسن تصور کرنے لگی، میرے قصائد پڑھنے میں میرے نام نہاد اسلامی بھائی بھی تھے اور مذہب مخالف بھی، کبھی ان کے ساتھ گھومتی تو کبھی ان کے ساتھ گھومتی، کالج کے بہانے پارکوں میں نظر آنے لگی، اچھے اچھے گفٹ اور بہترین موبائل کی مالک بن گئی، والدین نے کبھی ان گفٹ کی ہوئی چیزوں پر اعتراض نہیں جتایا، میں کہاں سے اتنے مہنگے پرفیوم استعمال کرتی ہوں اس کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا، میں کس سے اتنی اتنی رات  چیٹ کرتی ہوں اس پر سوال نہیں کیا، میں کس سے بنا شادی کیے ہوئے گھنٹوں گیلری میں کھڑے ہوکر جانو، شونا، مونا پلیز مان جاو کہتی ہوں، اس پر میرے بھائی نے کبھی نہیں ٹوکا، ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں مکمل مذہب بیزار ہوگئی، مسلمان صرف نام کی رہی، میرے اندر مسلمانی کیفیت صرف عید، بقرعید مناتے وقت پیدا ہوتی تھی، مخلوط تعلیم کی وجہ  سے میں کئی لڑکوں کی بیک وقت گرل فرینڈ تھی، اسلام میں جوکہ منع ہے، نامحرم سے دوستی جائز نہیں، ان کو دیکھنا تک جائز نہیں؛ لیکن مجھے کیا پتہ غیر محرم کون ہوتے ہیں۔۔۔؟ اسلام کیا ہے۔۔۔؟

اگر والدین نے  اسلام کے بارے میں تعلیم دی ہوتی، خدا و اس کے رسول کی تعلیمات سے آگاہ کیا ہوتا تو یقیناً علم ہوتا۔ حصولِ تعلیم کے بعد میں کمپنیوں میں نوکری کرنے لگی۔ معذرت! "جاب” پہ جانے لگی، وہاں ہر طرح کے لوگ تھے، جس نے زیادہ رسپانس دیا اس سے متاثر ہوئی، وہ رسپانس دینے والا خواہ مسلم رہا ہو یا غیر مسلم۔۔۔میں اس سے دوستی کربیٹھتی، بات شادی تک پہنچتی، کبھی والدین راضی ہوئے اور کبھی ناراض، ناراض ہونے کی صورت میں بھی میں نے شادی رچائی؛ کیونکہ اس میں میرا مستقبل نظر آتا تھا اور میں پیار میں اندھی ہوچکی تھی۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستانی مسلم لڑکی ہوں جو موبائل ایپ کے ذریعے ویڈیوز بناتی ہوں، نقاب پہن کر نقاب کا مذاق اڑاتی ہوں، اس سے مجھے لائکس اور کمنٹس ملتے ہیں، ٹک ٹاک ایپ کے ذریعے چھوٹی چھوٹی ویڈیو کلپ بناکر میں ڈیجیٹل شہرت بٹور رہی ہوں، کوئی مجھے میری شبانہ کہتا ہے تو بانچھیں کھل جاتی ہیں، خواہ وہ کہنے والا غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں میں وہی ہندوستانی مسلم لڑکی ہوں جس کے برے چال چلن کی وجہ سے فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ملا، میری ویڈیوز پھیلا کر مسلم لڑکیوں میں ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی اور مسلم لڑکوں کی غیرت کا اندازہ لگایا گیا۔

آخر مَیں کیوں مرتد ہوئی؟ کیوں اسلام سے دور ہوئی؟ وہ  اس لیے کہ قرآن و حدیث کی مجھے تعلیم ہی نہیں دی گئی، جب عقل و شعور حاصل ہوا تو  میں اپنا  آئیڈیل سلمان خان، عامر خان اور شاہ رخ خان وغیرہ کو بنا چکی تھی، سلمان خان کو میں نے دیکھا کہ وہ راج بن کر سلمیٰ سے پیار کرتا ہے، کبھی شاہ رخ کو دیکھا وہ کرینہ سے پیار کرتا ہے، دیپکا سے آنکھیں لڑاتا ہے، اسی ماحول میں پلنے کی وجہ سے میں یہی سمجھی کہ ہندو سے مسلمان شادی بیاہ کرسکتا ہے، محبت کرسکتا ہے، نسلوں کو پروان چڑھا سکتا ہے، کاش  میرے والدین نے  ان سب چیزوں سے مجھے دور رکھا ہوتا؛ لیکن انہوں نے دور نہیں کیا،  اب میں مکمل بگڑ چکی ہوں ، غیر مسلم سے  شادی کررہی ہوں، لوگ اسے ہندو تَو کے ایجنڈے کو پورا ہوتا مان رہے ہیں اور یقیناً میں ہندو تو کے ایجنڈے کی تکمیل میں انجانے ہی سہی ان کا تعاون کررہی ہوں، اب میری کوکھ سے اسلام کے نام لیوا نہیں، جے شری رام کہنے والے پیدا ہوں گے، مسجد میں سجدہ کرنے والے نہیں، مندروں میں پرشاد چڑھانے والے پیدا ہوں گے؛ کیونکہ میں مذہب اسلام چھوڑ چکی ہوں، ایک طرف مجھ جیسی لڑکیاں ہیں، تو دوسری طرف وہیں اپنی ماں باپ کی تربیت یافتہ نیک سیرت لڑکیاں اسلام کی خاطر جان دینے کو تیار ہیں۔ کاش میری بھی تربیت ایسی کی جاتی کاش میرے بھائی بھی گھروں میں نماز پڑھتے، اسلامی پروگرام میں مجھے بھی شریک کرتے، کاش ٹی وی کے بجائے گھروں میں قرآنی تعلیمات کا پروگرام ہوتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جاتی۔

خیر اب تو جو ہونا تھا ہوچکا، میں مرتد ہوچکی؛ لیکن اگر اپنی نسلوں کو اسلام پر قائم رکھنا ہے تو والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی بچیوں پر نگاہ رکھیں، بھائیوں کو چاہیئے کہ وہ بہن کے تقدس کا پاس ولحاظ رکھیں؛ ورنہ بڑی تعداد میں وہ لڑکیاں جو کالجز و یونیوسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور اپنی کوکھ میں غلط نطفہ لے کر تمہاری بربادی کے سامان پیدا کریں گی ۔ اگر اپنی بچیوں کو مرتد ہونے سے بچانا ہے تو مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کریں، لڑکے اور لڑکیاں ہر گز دوست نہیں ہو سکتے، دوستی کی آڑ میں وہ گھناونے فعل انجام دئے جاتے ہیں جس سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، ہم ایک دوسرے کے دوست ہرگز نہیں تھے؛ بلکہ ہوس پارٹنر تھے، سیکس پارٹنر تھے، اپنی فطری ضرورتیں ناجائز طریقے سے پوری کرنے والے تھے.

اس لیے اسلامی تنظیمیں مدارس پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اسکول و کالج کی بھی بنیاد رکھیں، مخلوط تعلیم سے دوری بنائی جائے،  اختلاطِ مردوزن کے  نتیجے میں یہ فساد برپا ہوا ہے، منہ سے بہن بولنے والے ہی تنہائی میں بہن کی عصمت کا جنازہ نکالتے ہیں؛ اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچیاں نہ بگڑیں، تو ان پر رحم کریں، ان سے باز پرس کریں، ان پر توجہ دیں، ان کو موبائل فون سے دور رکھیں، انکی سہیلیوں پر ناقدانہ نظر رکھیں، انکے ذہن میں یہ بات بٹھادیں کہ لڑکی اور لڑکے کبھی دوست نہیں ہو سکتے، حتی الامکان مخلوط تعلیم سے لڑکیوں کو دور ہی رکھیں، سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ والدین مکمل شریعت پر عمل کرنے والے بن جائیں تبھی جاکر یہ ممکن ہے ورنہ اتنا بڑا طوفان اٹھے گا کہ اس کو روکنا نا ممکن ہوجائے گا اور مجھ جیسی لبرل ہندوستانی لڑکیاں شریف مسلم گھرانوں سے نکلتی رہیں گی۔۔۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Hasnain Ashraf کہتے ہیں

    مشاءاللہ بہن۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔