ہجومی دہشت گردی: آخر کب تک؟

محمد سالم قاسمی سریانوی

ہمارا ملک عزیز ’’ہندوستان‘‘ ایک کثیر المسلکی والمذہبی ملک ہے، جہاں ’’جمہوریت‘‘ کو اصل اصیل قرار دیا گیا ہے،اور دیگر تمام امور وشعبہائے زندگی کو اس کے تابع قرار دیا گیا ہے، اور جملہ شعبہ کے آئین و قواعد اور اصول وضوابط طے کیے گئے ہیں ، جن کے مطابق باشندگانِ وطن کو زندگی گزارنا لازم وضروری ہے، خود کسی کو ذاتی طور پر قانون کے استعمال کی ہر گز اجازت نہیں ہے، بل کہ اگر کسی پر ظلم کیا جاتا ہے اور کسی طرح کی تعذیب دی جاتی ہے، تو اسے جمہوریت کے تیسرے ستون یعنی ’’عدالت‘‘ کا سہارا لینا ہوگا، اس کے بغیر اسے کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ کتنا عمدہ قانون ہے، ہم اس بند ونقطہ کا احترام کرتے ہیں۔

 لیکن!……راجستھان کے ’’الور‘‘ اور دہلی کے ’’ترلوک پوری بلاک‘‘ کے تازہ ترین خطرناک سانحہ، بلفظ دیگر ’’ہجومی دہشت گردی‘‘ نے اس مذکورہ نقطہ وبند کی جس انداز سے دھجیاں اڑائی ہیں وہ اہل عقل وخرد اور مفکرین ودانش مندان وطن پر مخفی نہیں ہیں ، اس ذیل میں صرف یہی ایک دو واقعہ نہیں ہے؛ بل کہ ’’ہجومی دہشت گردی‘‘ کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں ہر واقعہ کے پس منظر وپیش منظر پر تفصیلی تحریر ورپورٹ لکھی جاسکتی ہے، اور لکھی گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ قانون کے رکھوالے اور ہندوستانی آئین وقانون کا ہمیشہ حوالہ دینے والے افردا ، ’’جمہوریت‘‘ کے دوسرے ستون ’’انتظامیہ‘‘ کے ٹھیکے داران، اور ان کی ماتحتی میں رہ کر ضمیر فروش، چاپلوسی کی زندگی گزارنے والے اور بھیڑیے کے مانند نظر آنے والے محافظین وطن وآئین کہاں گم ہیں ؟……اور کس چوہے کی بل میں خواب نسیاں کی زندگی گزار رہے ہیں !……

’’حکومت وانتظامیہ‘‘ کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، ان پر کون سے فرائض عائد ہوتے ہیں ، ان کے ذمہ عوام کے تئیں کیا حقوق لازم کیے جاتے ہیں ، یہ اور اس جیسی بنیادی ذمہ داریاں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کو قصدا ’’ردی کی ٹوکری‘‘ میں ڈال دیا گیا ہے، اور ان کی طرف نظر غلط کی طرح بھی التفات وتوجہ نہیں دی جارہی ہے۔ بل کہ اس کے بر عکس ایسے بیانات وشوشے چھوڑے جارہے ہیں کہ ایک سادہ دل انسان سمجھ ہی نہیں پاتا اور ان کے دام فریب میں پھنس جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں اس وقت ’’ہجومی دہشت گردی‘‘ جس شد ومد کے ساتھ جاری ہے، وہ صرف ہمارے لیے نہیں ؛ بل کہ تمام برادران وطن بشمول ’’جمہوریت‘‘ کے ’’ستون اربعہ‘‘ کے قابل غور وفکر ہے، حکومتیں شہر خموشاں کی طرح لبوں پر مہر سکوت لگائے ہوئے ہیں ، جب کہ ذمہ داران اور عمائدین وطن اپنی مصروف ترین زندگیوں میں ہمہ تن مشغول ہیں ، جہاں تک بات عام افراد انسانی کی ہے تو ان کا معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے، ایسے خطرناک اور خون آشام ماحول میں ہمارا چپ رہنا اور ظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بذات خود ایک عظیم ترین ظلم ہے۔

اطلاع ملی ہے کہ الور کے اس مظلوم گاؤں والوں نے صدائے احتجاج بلند کیا ہے اور سڑک پر جنازہ لے کر اڑے ہوئے ہیں کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا، ہم تدفین نہیں کریں گے، یہ قابل قدر جذبہ ہے، ہم اس جذبہ کو سلام کرتے ہیں اور استقامت واستحکام کے لیے دعا گو ہیں۔

موجودہ حالات میں ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ’’انسانیت‘‘کے بلند وبالا معیار پر قانون کے دائرے میں اٹھ کھڑا ہو اور اس ’’ہجومی دہشت گردی‘‘ کا جواں مردی وپا مردی سے مقابلہ کرے، اور پایۂ استقامت میں ذرا بھی تزلزل نہ آنے دے، اس کے لیے ملی، قومی، سماجی اور دینی تنظیموں کو بیدار کیا جائے، ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے، اپوزیشن کو بیدار کیا جائے اور پورے ملک میں اس کے لیے پر امن تحریک چلائی جائے اور حکومت وانتظامیہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی طاقت وپاور کا استعمال کرکے اس ’’دہشت گردی‘‘ کا خاتمہ کرے، مجرمین کو سخت سے سخت سزا دے کر نشان عبرت بنائے؛ تاکہ آگے کوئی بھی ہجوم ایسی کوئی حرکت نہ کرسکے، ورنہ بقول مظفر رزمی کے یاد رکھیے گا

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔