تاج الشریعہ: ایک ہمہ جہت شخصیت

فیاض احمدمصباحیؔ شراوستی

تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخاں ازہریؔ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے عظیم مفتی، بے باک قاضی،عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں فنائیت کی منزل پر فائز،فی البدیہہ شاعر، بڑے سے بڑے نازک حالات کا اپنے ناخن تد بیر سے اعلی پیمانے کی تدبیر کرنے والے باکمال مدبر، ہزاروں مساجد اور مدارس کے بانی عربی اور اردو کے ساتھ کئی بڑی زبانوں کی ادبی اسلوب پر دسترس رکھنے والے صوفی منش فقیر ادیب تھے، یہ سب صرف اپنے ممدوح کی تعریف کے لئے مبالغہ آمیز الفاظ نہیں ہیں بلکہ ہر بات کے شواہد لا تعدا دہیں۔

فراغت کے بعد سے آپ نے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے علمی مسند کوحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی اجازت سے رونق بخشی اور اخیر دم  تک اس بلند بالا علمی مسند کا وقار بچانے میں کامیاب رہے۔ہم عصر علما سے اپنی ”قدامت پسند اسلام” کی وجہ  سخت اختلاف بھی رکھتے تھے  لیکن کبھی کسی عالم کی بے عزتی نہیں کرتے اور نہ ہی بے عزتی برداشت تھے، کسی کے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں  ہوئی تھی کہ’’ تاج الشریعہ ‘‘کو جھانسہ دے کر کچھ اوٹ پٹانگ لکھا یا کسی طرح کی لالچ میں آکر آپ نے شرعی مزاج کے خلاف کوئی  فتویٰ دیا یا ایسے کسی زرخرید فتوے کی تائید کی ہو جس سے اسلا م وسنیت کی جگ ہنسائی ہوتی ہو۔ پوری زندگی آپ کی تبلیغی اسفار کے نام رہی، ” زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام ”  کی آپ جیتی جاگتی تصویر تھے، اسلام وسنیت کا درد اپنے سینے میں بسا کر آپ پوری زندگی ملک ملک شہر شہر اور گائوں گائوں مبلغانہ وداعیانہ  امور میں سرگرداں رہے۔

        شعر وشاعری آپ کا موروثی فن ہے اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کے خاندان میں دودھ کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی حلق کے راستے دل کی دنیا کو شاداب کرنے کے لئے پلا یا جاتاہے۔آپ کی اردو اور عربی شاعری آپ کے بلند پایہ ادیب ہونے کا پتہ دیتی ہے، عشق رسالت کی لونے آپ کی نعتیہ شاعری کو دوآتشہ بنادیا۔آپ پہلے شاعر ہیں جن کے اشعار وقت کے بڑے نعت خوان حضرات نے آپ کی زندگی میں ہی ورد زبان بنائے رکھا اور اختری نعتیہ اشعار کے عاشقانہ دوش پر سوار ہوکر شہرت کی دنیا میں سفر کرتے رہے۔ آپ عربی اور اردو میں کئی ضخیم اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں لاکھوں فتاویٰ لکھے، ہزاروں علما ء کو افتا ء نویسی کی تربیت دی اور مسلم قوم کی ضرورت کے پیش نظر مختلف علاقوں میں ان تربیت یافتہ مفتیوں کو روانہ کیا۔آپ کی اکثر کتابیں طباعت کا سفر طے کر چکی ہیں۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں

  ( الحق المبین، الصحابہ نجوم الاھتدا ء، شرح حدیث الاخلاص,  نبذہ حیاہ الامام احمدرضا،سدالمشارع،  تعلیقات زاہرہ علی صحیح البخاری،    حاشیہ عصیدہ الشہدہ شرح قصیدہ بتدہ، تحقیق ان ابا سیدنا ابراہیم تارح لا آزر،  مراہد النجدیہ بجواب البریلویہ  وغیرہ)۔

تاج الشریعہ علیہ الرحمہ المعروف بہ ازہری میاں ایک نامور خطیب بھی تھے بیک وقت تین بڑی زبانوں پر مہارت رکھتے تھے اور لسانی لہجہ پر کامل قدرت کے ساتھ تقریر فرماتے تھے۔عرب ممالک میں آپ کی فصیح عربی پسند کی جاتی تھی۔یوروپ امریکہ میں آپ کی انگلش دانی اور طلاقت لسانی قابل دیدنی ہوتی۔ کسی بھی زبان کا  اس کے مزاج کے مطابق استعمال کرنا ایک نازک فن ہے جس پر بڑے بڑے ماہر لسانیات ہی کھرے اترتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔