ہرفن مولا

سالک جمیل براڑ

دوپہر سے شام ہونے کوتھی۔ پروفیسر پی۔ سی۔ شرما ابھی تک پرنسپل اقبال صدیقی کی تصویرکاصحیح سکیچ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ کمرے میں ایک طرف سٹینڈ پررکھے ہوئے کینوس پر بدشکل ساا سکیچ بنایاہوا تھا۔ پاس ہی کئی کینوس خراب ہوئے پڑے تھے جن پرڈراونے اور ادھورے چہرے اسکیچ کئے ہوئے تھے۔

اب وہ تھک چکے تھے اورکرسی پربیٹھے سگرٹ سے اپنی ناکامی کاسوگ منارہے تھے۔ وہ تقریباً صبح سے پانچ چھ کپ چائے پی چکے تھے۔ شایدانھیں یہ نہیں معلوم تھاکہ پانچ چھ کپ چائے اور دوپیکٹ سگرٹ پینے سے کوئی پینٹرنہیں بن جاتابلکہ یہ توخدا دادصلاحتیں ہوتی ہیں جو اوپروالا بخشتا ہے۔ لگتاہے انہوں نے کسی مشہورپینٹرکے حالات زندگی پڑھی ہونگے۔ جووہ سگرٹ اور چائے کاسہارالے رہے ہیں۔ اس وقت وہ سخت الجھن میں پھنسے ہوئے تھے۔

شرماجی کئی خوبیوں کے زبردستی مالک ہیں۔ یعنی ایک ہی وقت میں راج کوی ساتھ ہی صاحب دیوان اُن کی کویتاؤں کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انگریزی، سنسکرت، پنجابی اور ہندی میں ایم۔ اے ساتھ ہی پی۔ ایچ۔ ڈی جبکہ پروفیسر وہ ہندی کے ہی ہیں۔ سنگ تراش بھی ہیں جبکہ کبھی کسی نے ان کو مورتی بناتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ڈرامہ ڈائریکشن میں بھی انہوں نے کافی نام کمایا ہے۔ کھیلوں میں بھی انہوں نے کئی پرائز حاصل کئے ہیں۔

پچھلے دنوں اچانک پروفیسر صاحب کی ایک اورخوبی سامنے ابھرکر آئی۔ وہ یہ کہ اتنے سارے فنون کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ آپ پینٹر بھی ہیں۔ شہروالے حیران تھے گوناگوں خوبیوں کے مالک ایک ہی رات میں پینٹر بن گئے؟…… اورکیسے؟……… باقاعدہ شہرکے ایک میرج پیلس میں انہوں نے اپنی بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش بھی کی تھی۔ ان کی تصویریں دیکھ کر ہی اولڈ سٹوڈینٹ ایسوسی ایشن نے پرنسپل اقبال صدیقی کی تصویربنانے کاکام ان کے خاص طورپرسپرد کیاتھا۔

پرنسپل اقبال صدیقی شہر کی ایک نامورشخصیت تھے۔ پرنسپل صاحب نے اس شہرکی بڑی خدمت کی تھی۔ ان کے سینکڑوں شاگرد. I.A.S,P.C.S آفیسر ز، ڈاکٹر، انجینئراورپروفیسرکے مقامات تک پہنچے ہیں۔ پرنسپل صاحب کی بے شمار خدمات اور خلوص کومدّے نظر رکھتے ہوئے ان کے لائق شاگردوں نے جشن اقبال صدیقی منانے کا فیصلہ کیاتھا۔ شرماجی بھی ان کے شاگردرہے تھے۔

شرماجی کوتوپکاپکایاکھانے کی عادت ہے۔ ان کو کیامعلوم کہ کس طرح ایک پینٹر مہینوں اپناخون جلاکرایک شاہکار تیارکرتاہے۔ انھیں توصرف یہی معلوم ہے کہ کس طرح ایک شرابی شاعر کوایک عددبوتل شراب دے کر غزل لکھوانی ہے اور کیسے ججوں کوخریدکرڈرامہ پہلی پوزیشن پر لانا ہے۔ کیسے کسی مورتی پراپنے نام کی سِلپ فکس کرکے نمائش میں رکھی جائے۔

ایک دن کالج میں پروفیسر صاحب کو ایک لڑکاملا۔ جس کے والد کاانتقال ہوچکاتھا۔ اس لڑکے نے بتایاکہ اس کے ابّوبہت اچھّے مصوّر تھے۔ ان کے گھربے شمارتصویریں بے کارپڑی ہیں۔ جو ان کے کسی کام کی نہیں۔ اس لڑکے کے گھرکی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ شرماجی نے موقعہ کو غنیمت جان کر وہ تصویریں اس لڑکے سے خریدلیں اوران پراپنانام لکھ دیا۔ پھرایک بڑی نمائش کا اہتمام کرکے تالیاں پٹوائیں، جس کاتذکرہ روپے دے کر اخباروں میں بھی کروالیا۔ لیکن آج وہ برُی طرح پھنس گئے تھے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔ کہ تصویرکیسے؟…… ……اورکس طرح تیارہو۔ اگرحقیقت کاکسی کو پتہ چل گیاتوبڑی تھوتھو ہوگی اورباقی فنون بھی مشکوک ہوجائیں گے۔

رات کے دوبج رہے تھے۔ مگر شرماجی کو نیندنہیں آرہی تھی۔ وہ کمرے میں ٹہلے جارہے تھے اور سوچ رہے تھے۔ کہ کس طرح یہ تصویرمکمل کی جائے۔ اسی دوران ان کے لبوں پراچانک ایک نام آیااوروہ خوشی سے جھوم اٹھے۔

’’امتیاز‘‘امتیازبی۔ اے۔ II کا طالب علم ہے اورشرماجی کا اپناشاگرد بھی۔ پچھلے دنوں پینٹنگ مقابلے میں اس نے یونیورسٹی ٹاپ کیاتھا۔

 بس پھرکیاتھا۔ اگلی صبح امتیاز بڑی عزت کے ساتھ شرماجی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا پایا گیا۔

’’بیٹا………امتیازتمہیں پتہ ہے کہ اگلے ماہ آل انڈیا پینٹنگ مقابلہ ہورہاہے۔ ‘‘

’’جی سر‘‘

مقابلے میں حصّہ لینے کے لیے تیاری کررہے ہو‘‘

’’جی………نہیں ‘‘

’’کیامطلب؟………تم مقابلے میں حصّہ نہیں لے رہے‘‘شرماجی نے حیران ہوکرپوچھا۔

’’سر………امتحانات نزدیک آرہے ہیں ………تیاری بھی کرنی ہے۔ ‘‘

’’دیکھوامتیاز………میں تمہیں ہندوستان کا نمبرون پینٹردیکھناچاہتاہوں … ……جاؤمقابلے کی تیاری کرو۔ امتحانات میں پاس کروانے کی ذمّہ داری میری رہی… … …میں پرنسپل سے بھی بات کروں گا۔ ‘‘

’’تھینک یو سر‘‘امتیاز نے شکریہ اداکیا۔

تھوڑی دیرٹھہرکر وہ بڑے پیارسے بولے۔ ’’امتیازبیٹے……میں ایک تصویربنارہا ہوں ……مگرمجھ سے اسکیچ ٹھیک طرح سے نہیں بن پارہا۔ مجھے تمہاری مددچاہیے… … … بس یہ سمجھنا کہ یہ تمہاراامتحان ہے‘‘شرماجی گھماپھراکر اصل پوائنٹ پرآگئے۔

پھرتین چارگھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد وہ لڑکا پرنسپل صاحب کا اسکیچ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب معاملہ اسکیچ کوآئیل پینٹ لگانے کاتھا۔ اس کے بعدشرماجی نے شہرکے مشہورمصوّر علی حسن کے گھرکارخ کیا۔

’’سرجی………میں ایک تصویربنارہاہوں۔ اسکیچ تومیں نے مکمل کرلیاہے۔ اگر آپ چل کردیکھ لیں ……… توبڑی مہربانی ہوگی آپ توگوروہیں۔ جب تک آپ اس پر ایک نظرنہیں ڈال لیتے تومیری پینٹنگ مکمل نہیں ہوگی اور نہ ہی میری تسلی……‘‘شرمانے علی حسن سے درخواست کی۔ اوروہ  شرما کی میٹھی میٹھی باتوں میں آگئے۔

علی حسن نے دیکھا اسکیچ اچھّابناہواتھا۔ جوکمی تھی اس کو انہوں نے خودپوراکردیا۔

’’سر جی…………پینٹ کایہ کمبینیشن(Combination) کیسا رہے گا۔ ‘‘ شرما جی نے کہا۔

’’نہیں نہیں ……………میں بتاتاہوں۔ کہ کونسارنگ لگاناہے۔ ‘‘علی حسن نے اسے روکا۔

اس طرح بڑی چالاکی سے شرماجی نے تصویرمیں رنگ بھی لگوالیے۔ پینٹر علی حسن کاشکریہ اداکیااورکھلاپلاکر انھیں گھرتک چھوڑ کرآئے۔ پھرانہوں نے مشہور استادمصوّر کرپال سنگھ کو ٹیلی فون کیا۔ کرپال سنگھ نیشنل لیبل کے پینٹر ہیں۔ شرماجی کی نمائش میں مہمان خصوصی کرپال سنگھ ہی تھے۔

’’ہیلو………نمستے سر………میں پروفیسر پی۔ سی۔ شرمابول رہاہوں سر‘‘ شرماجی نے کہا۔

’’نمستے…………شرماجی……اورسنائیں کیاحال ہے؟‘‘کرپال سنگھ نے خیریت پوچھی۔

’’بس بھگوان کی کرپاہے……سرجی……ناچیزکوآپ سے کام تھا۔ ‘‘

شرماجی نے کہا۔

’’میں نے ایک تصویربنائی ہے۔ ‘‘

’’جی‘‘

’’تصویر مکمل ہوچکی ہے۔ ………میں چاہتاہوں کہ اگرآپ اسے آکردیکھ لیں۔ توبڑی مہربانی ہوگی۔ ‘‘

’’ارے بھائی!……اس میں مہربانی کی کیابات ہے۔ ‘‘

’’توسرجی……میں کب آؤں آپ کو لینے‘‘

’’کسی بھی وقت آجاؤ……بس آنے سے پہلے فون کردینا۔ ‘‘

’’جی جی……شکریہ سر‘‘

شرماجی اگلے ہی دن کرپال سنگھ کے گھرچلے گئے۔ انہوں نے تصویردیکھی کافی اچھی بنی ہوئی تھی۔ رنگ بھی بڑے طریقے اور سلیقے سے لگائے ہوئے تھے۔ مِکسنک بھی بڑی لاجواب تھی۔ جو خامیاں انھیں نظرآئیں انہوں نے ٹھیک کردیں۔ اس طرح پرنسپل اقبال صدیقی کی تصویر کو آخری فنیشنگ ٹچ بھی مل گیا۔

شہرکامشہورکمیونٹی ہال جس میں لگ بھگ ایک ہزارآدمی سماسکتے ہیں۔ کھچا کھچ بھارہوا تھا۔ اسٹیج پربائیں طرف مہمان خصوصی راج پال سنگھ ایجوکیشن منسٹر، مولوی شہاب الدین، پرنسپل صاحب کے چھوٹے بھائی، ساتھ ہی شہرکی کئی نامورشخصیتیں تشریف فرما تھیں۔ دائیں طرف ایک سرخ رنگ کا پردہ تھا۔ جس کے پیچھے مرحوم پرنسپل صاحب کی تصویر تھی۔ لاؤڈاسپیکر پراناؤنسرکی آواز گونج رہی تھی۔

’’دوستو!………اب جشن اقبال صدیقی کا آغازہونے جارہاہے۔ میں سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے ہونہارطالب علم پروفیسر پی۔ سی۔ شرما کوآوازدوں گا۔ جوایک ہی وقت میں پینٹر، کوی، ادیب، سنگ تراش، ڈرامہ ڈائریکٹر اورکئی مضامین میں ایم۔ اے بھی ہیں۔ جن پر پورے شہر کوفخرہے۔ پروفیسر صاحب نے یہ تصویربڑی محنت، لگن اورخلوص سے تیارکی ہے۔ میں اس شاہکار تخلیق کے لیے شرماجی کادلی شکریہ اداکرتاہوں۔ اب میں ایجوکیشن منسٹرشری راج پال سنگھ جی سے درخواست کروں گا۔ کہ وہ ہمارے ہر دلعزیزاستاد پرنسپل اقبال صدیقی کی تصویرجوپروفیسر شرما کی تخلیق کردہ ہے کی نقاب کشائی کریں۔

منسٹر صاحب اٹھے اور انہوں نے مسکراتے ہوئے رسی کھینچی۔ پردہ ایک طرف ہٹ گیا اورپرنسپل اقبال صدیقی کی تصویرسب کے سامنے نمائیاں ہوگی۔ تالیوں سے پوراہال گونج اٹھا۔ پروفیسر شرماجھک جھک کردادقبول کررہے تھے۔ ان کا شاگردامتیاز، پینٹر علی حسن اور کرپال سنگھ کچھ زیادہ ہی زورسے تالیاں بجارہے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔