ہرقوم کے لیے عید ہے اوریہ ہمارے لیے عید ہے!

مولاناقاضی محمد اسرائیل گڑنگی

دینِ اسلام کے آنے سے پہلے بھی لوگ خوشیاں یعنی  عیدمنایاکرتے تھے لیکن ان کے تہوار اور اسلامی تہوار میں زمین وآسمان کافرق ہے۔ جہاں اسلام کاابتدائی ظہور ہواسرزمین ِ عرب میں بھی مختلف تہوار منائے جاتے تھے ان تہواروں کورقص وسرورعریانی وبے حیائی سے آراستہ کیاجاتاتھا۔ جب دینِ فطرت اسلام کاظہور ہواتواسلام نے ان سب محفلوں کوختم کرکے اپنے ماننے والوں کوبہترین دوتحفے عطاکیے جن کوہماری اصطلاح میں عیدین کہاجاتاہے۔ یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ

سروردوعالم حضرت محمدمصطفیﷺ جب ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تودیکھاکہ لوگ دودن کھیل کود میں گزارتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت کیاکہ یہ لوگ دودن کیاکرتے ہیں، لوگوں نے جواب دیاکہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ان دودنوں میں تہوار منایاکرتے تھے، اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ پاک نے ان دودنوں کے بجائے تم مسلمانوں کوان سے بہتر دن عنایت فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر دوسرا عیدالاضحیٰ (ابودائود)

ایک روایت کے مطابق ’’لکل قوم عیدوھٰذاعیدنا۔ ہرقوم کے لیے عیدہے اور یہ (عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ )ہمارے لیے عید ہے‘‘(بخاری ومسلم )

پہلی امتیں مختلف دنوں میں عید منایاکرتی تھیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی امت اس دن منایاکرتی تھی جس دن حضرت آدم علیہ السلام کودنیامیں اتارا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت اس دن منایاکرتی تھی جس حضرت ابراہیم علیہ السلام کونمرود نے آگ میں ڈالا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کواس آگ سے بچالیا۔ جس دن نمرودی آگ سے ان کونجات ملی اس دن امت ابراہیمی عیدمنایاکرتی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت اس دن عید منایاکرتی تھی جس اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمان سے مائدہ نازل فرمایا۔

ایک حدیث شریف میں آتاہے کہ عیدالفطر کے دن اللہ پاک اپنے بندوں کے متعلق فرشتوں سے سوال کرتے ہیں کہ اے میرے فرشتو!اس مزدور کاصلہ کیاہے جواپنی محنت کاپوراپوراحق اداکرچکاہو؟فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب!اس کاصلہ تویہی ہے کہ اس کی محنت کاپوراپورامعاوضہ دے دیاجائے، فرشتوں کے اس جواب پر اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں اے فرشتو!تمہیں گواہ بناکر اعلان کرتاہوں کہ میں نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے والوں، اور تراویح کے نوافل میں قیام کرنے والوں کاثواب اپنی رضااور مغفرت کوقراردیاہے انہوں نے میرافرض اداکیا(روزہ رکھا) اس کے بعد نمازعید کے شوق میں میری تعریف کرتے ہوئے عید گاہ گئے، لہٰذامجھے اپنی عزت وجلال کی قسم کہ ان کی خطائوں سے درگزر کروں گااور ان کے عیبوں کوچھپائوں گاجودعاکریں گے ا س کوشرف قبولیت بخشوں گا،اس کے بعداللہ پاک اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں ’’میرے بندو!واپس جائومیں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیوں کونیکوں میں بدل دیا۔‘‘

اے غلامانِ مصطفی(ﷺ)تم نے کبھی خیال کیاکہ پروردگارِعالم نے تمہیں بخشنے کے لیے عیدالفطر کومقررفرمایاہے۔ عیدکی رات جاگ کر خوب خداسے مانگو! یہ رات پھر واپس نہیں آئے گی۔

عیدکے دن صبح سویرے جاگ کر بھی خداسے مانگیں۔ سنت کے مطابق غسل کریں، اچھے کپڑے پہن کر تسبیح پڑھتے ہوئے عید گاہ کی طرف روانہ ہوجائیں، صبح کی نماز کے بعد نہ توکوئی نفل نماز نہ توگھر میں اداکریں اور نہ عید گاہ میں اداکریں،نمازِ عید سے پہلے اور نہ نمازِ عید کے بعد۔ عید کی نماز اداکرنے کے بعد اسی جگہ بیٹھیں۔ خطبئہ عید کوخوب توجہ سے سنیں اور خوب دل لگاکر اپنے پروردگار سے دعامانگیں۔

نمازِ عید واجب ہے، جوشرائط جمعہ کی نمازکے لیے ہیں وہی شرائط عید کی نمازکے لیے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نمازِ عید کے لیے نہ آذان ہے نہ ہی اقامت ہے اور نہ ہی نمازِعید سے پہلے خطبئہ نمازِ عید ہے بلکہ نمازِ عید کے بعد خطبہ پڑھاجائے گا۔

خطبہ پڑھناسنت ہے اور سننے والوں پر سنناواجب ہے۔ نمازِ عید کوجانے سے پہلے صدقہ فطر اداکرکے جائیں۔ کوئی میٹھی چیز کھاکر عیدگاہ کی طرف روانہ ہوں، راستہ میں آہستہ آہستہ یہ تکبیر پڑھتے ہوئے جائیں۔

اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ ایک راستہ سے جائیں اور دوسرے راستہ سے واپس آئیں، نیت نمازِ عید کی اس طرح کریں:

’’نیت کی میں نے دورکعت عیدالفطر کی بمع چھ تکبیرات زائدہ کے، پیچھے اس امام کے، منہ میراخانہ کعبہ کی طرف، اس کے بعدامام کے ساتھ ’’اللہ اکبر ‘‘کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں کی لوئوں تک اٹھائیں اور عام نمازکی طرح ہاتھ باندھ لیں۔

نمازِ عید کاطریقہ

اس کے بعد ثناء پڑھی جائے گی۔ ثناء کے بعد قراٗت سے پہلے امام صاحب تین تکبیریں کہیں گے امام صاحب کی ہر تکبیر کے ساتھ کانوں کی لوئوں تک ہاتھ اٹھائیے اور کھلے چھوڑ دیجیے۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باند لیجیے۔ ،اب امام صاحب قراٗت کریں گے اور مقتدی خاموشی سے سنیں گے، قراٗ ت کے بعدامام صاحب رکوع وسجدہ کر کے پہلی رکعت مکمل کریں گے۔

دوسری رکعت میں قراٗ ت کے بعد رکوع سے پہلے امام صاحب پھر تکبیریں کہیں گے، مقتدی امام صاحب کے ساتھ ہر تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھاکرچھوڑدیں گے اور چھوتی تکبیر پر رکوع میں چلے جائیں گے اس کے بعد باقی نماز عام نمازوں کی طرح مکمل کی جائے گی۔

نماز کے بعدامام صاحب خطبہ پڑھیں گے اس خطبہ کاسننامقتدیوں کے لیے واجب ہے۔ اس بات کابھی خاص خیال رکھاجائے کہ عیدکے دن سوائے نمازِ عید کے عیدگاہ میں کوئی نفلی نماز نہ پڑھنااس پر خیرالقرون کاایک واقعہ نقل کیاجاتاہے۔

صحابہ کرام ؓ کابہترین اور مبارک زمانہ تھا،عید کادن تھالوگ جوق درجوق عید گاہ کی طرف جارہے تھے اتنے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بھی عید گاہ میں داخل ہوئے دیکھاکہ ایک آدمی عیدگاہ میں نفل نماز پڑھ رہاہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہاکہ تونے یہ حرکت کیوں کی ؟عیدگاہ میں سوائے عیدکی نماز کے کوئی اور نماز اداکی ؟

اس نے کہاکہ میں نے نمازپڑھی ہے کوئی گناہ کاکوئی کام نہیں کیااس پر اللہ پاک مجھے عذاب تونہیں دے گا،حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا،ہاں ضروراللہ تعالیٰ تجھے عذاب دے گااس لے کہ جونماز تونے پڑھی ہے اس نماز کونبی پاک ﷺ نے منع فرمایاہے، پھر وہ شخص بات کوسمجھ گیا۔ ہمیں ہر حال، ہر صورت اور ہر وقت اس کام کوکرناہوگاجونبی کریم ﷺ نے کیا اورکرنیکاحکم دیا۔

اللہ پاک ہمیں قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسرکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔