ہر انتخاب کچھ کہتا ہے!

مشرّف عالم ذوقی 

اگر سامنے والا امید سے کہیں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہو تو جیت کے لئے آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟

اسکا آسان جواب ہے کہ آپکو محنت سے کام لینا ہوگا .،مودی نے یہی کیا .اکھلیش ،ملائم سنگھ یادو لڑتے رہے .کانگریس ہمیشہ کی طرح دور سے تماشا دیکھتی رہی .وقت آیا تو اکھلیش اور راہل نے ہاتھ ملا کر یقین کر لیا کہ جیت پکّی ہو گیی . جیت کا یقین مایا وتی کو بھی تھا . ان سب کے یقین کی وجہ مسلمان تھے .اتر پردیش میں انتخاب کے ساتھ کویی آواز اگر سب سے تیز تھی ، تو وہ مسلم ووٹ بینک کی آواز تھی .گویا مسلمان ساتھ اے اور مورچہ جیت لیا .مسلمان آزادی کے ستر برسوں میں تماشا رہے .اس بار کچھ زیادہ ہی تماشا بن گئے .

مسلمان بھول گئے کہ پانچوں انگلیاں جس طرح  برابر نہیں ہوتیں اسی طرح ہر ریاست بہار بھی نہیں ہوتی .بہار  میں سیکولرزم کی جیت کا مطلب یہ بلکل نہیں تھا کہ اتر  پردیش بھی جیت گئے .بہار اور دلی میں بھی مسلمان ووٹ بینک کا راگ کچھ اس قدر الاپا گیا کہ خاموشی سے ایک مسلم مخالف ووٹ بینک تیار ہوتا رہا .مسلمان 2014 میں بھی اس مخالف اور مضبوط ووٹ بینک سے انجان تھا .اس بار بھی انجان رہا .دراصل یہ مسلم انڈیا یا مسلم ووٹ بینک کا رد عمل تھا ،جسے صرف مودی محسوس کر رہے تھے یا امیت شاہ .اسلئے عید اور ہولی والا نعرہ  بھی اکثریت کے درمیان پر اثر  رہا اور قبرستان والا مکالمہ بھی . یہ سارے مکالمے اور نعرے  بڑی  ہوشیاری سے رچے  گئے .

اتنی ہوشیاری سے کہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں اور مسلمان مودی اور امیت شاہ کی اسٹریٹجی  میں الجھتے چلے گئے .ہر مخالف بیان مودی اور اکثریتی طبقے کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط کرتا رہا .سوشل ویب سائٹ پر سیکولر کردار کی حمایت نے بھی اکثریتی طبقے کو مودی کا دیوانہ بنا دیا .نتیجہ یہ ہوا کہ نہ نوٹ بندی کا افسانہ کام آیا نا ہی کویی بھی مودی مخالف مہم کام کر سکی .یہاں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اب مسلمانوں کو ہر اس طاقت اور سیاسی پارٹی کی مخالفت کرنی چاہئے جو مسلمان مسلمان کرتی ہے .مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ہندوستان کا حصّہ ہیں جو ایک جمہوری ملک ہے .ملک کی میں اسٹریم کا حصّہ بننے کے لئے کویی ضروری نہیں کہ وہ سکھ ہیں ،بدھ ہیں ،دلت  ہیں یا مسلمان —-.

مودی نے 2014 میں اکثریت کی نبض پکڑ لی تھی .اسلئے 2017اتر پردیش انتخاب میں بھی 2014 کا تماشا دہرایا گیا .مایا وتی   کے 100 (مسلمان امید وار کھڑا کرنے ) کا جواب مودی نے آسانی سے دیا -ایک بھی نہیں .ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا .ہندو لہر کو مودی کی اس ادا نے بھی فائدہ پہچایا .مودی جانتے تھے کہ اتر پردیش میں جیت ممکن نہیں ہے .لیکن کڑی  محنت اور اسٹریٹجی  سے وہ جیت کا نیا پیمانہ مقرر کر سکتے ہیں .اسلئے حزب مخالف کے ہنگاموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مودی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی .مختلف موقعوں پر انکا مزاق اڑایا گیا .لیکن مودی نے اسکی بھی پرواہ نہیں کی.

تسلیم کہ  یہ ہندو لہر کی جیت ہے .یہ مودی کے ہندوتو کی جیت ہے .یہ ہندو دھرم کی جیت ہے .لیکن یہ بھی تسلیم کیجئے کہ آپ چوک گئے اور مودی نے یہ کر دکھایا .سوال  ہے کہ آپ کیا کر رہے تھے ؟ 2014 لوک سبھا میں آر ایس ایس نے محنت کش مودی کی طاقت کا احساس کر لیا تھا .اسلئے بھاجپا کے پرانے چہرے اڈوانی ،جوشی ،جسونت سنگھ ،یشونت سنہا کی جگہ مودی کی طاقت کے صحیح استمعال  میں آر ایس ایس نے تاخیر نہیں کی .مودی ہی آر ایس ایس کی امیدوں کو پورا کر سکتے تھے .اور مودی ہی آر ایس ایس کی امیدوں کو پورا کر رہے ہیں .

یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لئے نہیں اہے – وہ کانگریس کی طرح سیکولر کردار کی حمایت نہیں کرتے .وہ ہندو مذھب اور اس کے فروغ کے ،نے دعویدار اور جانشین کے طور پر ابھرے ہیں .اور انھیں ہر طرح کے مخالف ماحول میں بھی کام کرنا آتا ہے .مسلمانوں کے پاس دو راستے ہیں .بیکار اور فضول کے ہنگاموں سے الگ یا تو مودی کی قیادت کو قبول کریں یا خود کو مسلمان مسلمان کی چیخ سے الگ نام نہاد سیاسی پارٹیوں کا لقمہ نہ بننے دیں بلکہ متحد ہو کر ڈھنگ کی اسٹریٹجی پر غور کریں .مودی کے خلاف ماحول بنانا چھوڑ دیں .خود کو ہندوستان کا اہم حصّہ ثابت کریں .ابھی اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ ہم جذباتی اور مشتعل  ہو کر نا سوچیں .ایک بات یاد رکھیں ..اتر پردیش کی جنگ ہندو اور مسلمانوں کی جنگ نہیں ہے .کانگریس اور  نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بے وقوفیوں کا رد عمل ہے .، جسنے اکثریتی طبقے کو ایک ہونے کا آسان موقع فراہم کیا .دوسری بات .

موجودہ حکومت کی خراب کار کردگی کے نتیجے میں سامنے والی مضبوط  پارٹی  نے جیت حاصل کر لی .اکھلیش کی سماجوادی سے عوام خوش نہیں تھی .رد عمل میں بھاجپا آ گی .گوا میں بھاجپا نے کام نہیں کیا ،کانگریس آ گی .پنجاب میں اکالی سے لوگ خوش نہیں تھے ،کانگریس آ گیی .منی پور  میں کانگریس تھی .لیکن اپازشن مضبوط نہیں تھا .اسلئے کانگریس حاوی رہی . یہ وہ رد عمل ہے جو ہندوستانی جنتا  ستر برسوں میں مسلسل  دکھاتی رہی ہے .اسلئے اتر پردیش میں بھاجپا کی شاندار جیت کو قبول کیجئے .یہ مخالفت بھی آپکو منہگی پڑیگی ..ہر انتخاب کچھ کہتا ہے .سنجیدگی سے اس بار کے انتخاب کی چیخ سن لیجئے .

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔