ہر ایک درد کا مداوا ہے

راحت علی صدیقی قاسمی

ہندوستان کو آزاد ہوئے عرصئہ دراز گزر چکا ہے، مسلمان باختیار ہیں، انہیں تمام تر سہولیات میسر ہیں، عزت و شوکت کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں، زندگی کی تمام تر آسائشیں اور آرائشیں ان کی غلام ہیں، اگرچہ ملک کی آب و ہوا میں آلودگی ہے، مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹیں ہیں، مشکلات و پریشانیاں ہیں، اس کے باوجود وہ اپنی کشتی کے کھویا بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کو کنارے لگا سکتے ہیں، اور موجودہ دور میں اپنا وقار اپنی عزت و آبرو ثابت کر سکتے ہیں، ملک کی خدمات میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں، تعلیمی میدان میں بلند و بالا خدمات انجام دیے سکتے ہیں یہ تمام تر خوبیاں اور صلاحیتیں مسلمانوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

تقسیم ہند کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو مسلمان پسماندہ تھے، معاشی تعلیمی اور اقتصادی پستی نے انہیں کمزور کر رکھا تھا، یقینی طور پر تقسیم ہند نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی حالات ناگفتہ بہ تھے، روٹیوں کے لالے تھے، تکالیف تھیں، مسائلِ و مصائب تھے، جن سے مسلمان نبرد آزما تھے، عرصئہ دراز تک ہندوستانی مسلمانوں پر نزع کی کیفیت طاری رہی، علماء و قائدین امت نے مسلمانوں کو سماجی و سیاسی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کی، ان کی گرتی ہوئی اقدار کو بلند کیا، انہیں چلنے کا حوصلہ عطا کیا، اس کے باوجود مسائل موجود رہے، اور مسلمانوں پر پثمردگی کے اثرات کا احساس آج بھی نظر آتا ہے، جن کا راجندر  سچر نے خلاصہ کیا، اور وضاحت کی مسلمان کہاں پیچھے ہیں؟ کس میدان میں انہیں سخت ترین محنت کی ضرورت ہے؟ کس طرح سے وہ جمہوری ملک میں اپنے وجود کو ثابت کرسکتے ہیں؟کس طرح وہ اپنی کھوئ ہوئ شان و شوکت حاصل کرسکتے ہیں؟

ان تمام چیزوں پر سچر کمیٹی نے روشنی ڈالی، اور حکومت کو ایک دستاویز فراہم کیا، جو 400 سے زائد صفحات پر مشتمل تھا، جس کی روشنی میں مسلمانوں کی صورت حالت اور اس صورتحال سے نجات پانے کے نسخے درج کئے گئے، سفارشات کی گئیں، اور مسلمانوں کی پسامندگی کو ختم کرنے کی پر زور کوشش کی گئی، ان تحقیقات میں واضح کیا گیا تھا کہ مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں، سماجی و معاشی نقطئہ نظر سے تعلیمی اور اقتصادی سےاعتبار سے  ان کی پسماندگی نمایاں تھی، آبادی میں مسلمان 14 فی صد اور نوکریوں میں انتہائی کم تھے، اس کے بعد سے آج تک مسلمان حکومتوں کے سامنے روتے رہے، اور اپنے ذخموں کے لئے مرحم تلاشتے رہے، اپنے زخموں پر مرحم نا لگانا اور دوسروں سے درخواست کرتے رہنا خام خیالی ہی تھی، جس میں ہمارے مفکرین پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مصروف رہے۔

اس صورت حال میں ملت کو درد مند ہوشمند افراد کی ضرورت تھی، جو ملت کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں، اسے معاشی و تعلیمی اعتبار سے بلندی عطا کریں، ملت اسلامیہ کو اس کا کھویا ہوا مقام عطا ہوجائے۔ بہت سے افراد نے اس جانب کوشش کی مختلف میدانوں میں اصلاح کی کوششیں کی گئیں، ہندی مسلمانوں کے مقدر کو چمکانے کی کوشش کی گئی۔

اسی فکر کے تحت زکات فاؤنڈیشن آف انڈیا جو کہ 1997 سے قائم تھا، اس نے غور و فکر کیا، اور محسوس کیا کہ ملت تعلیمی اعتبار سے کہاں پست  ہے؟ اور کس طرح سے اس کی پستی کو دور کیا جاسکتا ہے، ان کی فکر کو کنارہ ملا اور انہوں نے جان لیا کہ ملت کے ہونہار طلبہ مقابلہ جاتی امتحانات میں قدم نہیں رکھتے ہیں، ان میں ہنر ہے، مقصد کو حاصل کرنے کا جنون ہے، لیکن ان کے پاس مقصد نہیں ہے،انہوں نے مسلم بچوں کو مقصد عطا کیا، اور اس مقصد کی تکمیل کے ذرائع بھی فراہم کئے۔

جمہوری ممالک میں انتظامیہ سب سے اہم شعبہ ہوتا ہے، حکومتیں بدلتی ہیں، سیاسی رہنما تبدیل ہوتے ہیں، انتظامیہ سے منسلک افراد ملک کے لائحہ عمل بناتے ہیں، اس کی ترقی کے لئے تدابیر کرتے ہیں، حالات پر دسترس حاصل کرتے ہیں، اس مقام تک پونچنے کے لئے محنت ومشقت کی ضرورت ہے، جو علم سے وابستگی رکھنے والا ہر شخص کرسکتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ روپیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہر شخص کے پاس نہیں ہوتے، لہذا زکات فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر محمود نے سرسید کے نام سے یو پی ایس سی کی کوچنگ کے لئے سینٹر قائم کیا،

چونکہ یہ ہندوستان کے اہم ترین امتحانات میں سے ہے، لہذا ظفر صاحب نے اس جانب کوشش کی پورے ملک کے دورے کئے، طلبہ کو اس جانب متوجہ کیا، انہیں سہولیات فراہم کیں، رہنے اور کھانے کا انتظام کیا، عمدہ کوچنگ کا انتظام کیا، بیداری لانے کی کوشش کی، کشمیر، مدھیہ پردیش، بیجاپور، اور مختلف مقامات پر یو پی ایس سی کے تعلق سے تعارفی تقارير کیں، جس کا مثبت اثر ہوا، ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ نے اس پروگرام میں شرکت کی امتحانات دئے، اور زیڈ ایف آئی نے ملت کے چنندہ نوجوانوں کو ملک کی خدمت کے لیے تیار کیا، یوپی ایس سی کا امتحان دلوایا۔

ان کوششوں کے جو نتائج سامنے آئے، ان سے ہر مسلمان کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا ہے، گذشتہ 16 سالوں میں زیڈ ایف آئ سے استفادہ کرنے والے 76 طلبہ نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی،اور وہ عظیم عہدوں پر فائز ہو کر ملک و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

 ڈاکٹر ظفر محمود کی محنت رنگ لائی، اور یہ کارواں آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، وہ قوم جس کے دو چار طلبہ ہی یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتے تھے، اور اس اہم امتحان میں مسلمانوں کی کامیابی کا فی صد ڈھائی سے تین فی صد ہوتا ہے، آج اس قوم کی کامیابی کا فیصد پانچ کے قریب ہے، جس میں زیڈ ایف آئ کا نمایاں کردار ہے، امسال زیڈ ایف آئی کے 26 طلبہ نے یو پی ایس سی کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، زیڈ ایف آئ کی محنتیں اس سلسلہ میں قابل مبارکباد ہیں، مستقبل میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے، مسلمانوں کے تناسب کے اعتبار سے اس امتحان میں کامیاب شدہ طلبہ کی تعداد 150 ہونی چاہئے، جو ابھی بہت کم ہے، لیکن ظفر محمود کی کوششوں سے امید بندھ گئ ہے کہ ہم اس منزل کو بھی حاصل کریں گے، اور اس بھی زیادہ کامیابی حاصل کریں گے۔ حالات ہی شخصیات کو جنم دیتے ہیں، زیڈ ایف آئی نے بہت سی شخصیات کو حالات کے بھنور سے نکال کر عظیم مقام تک پہونچایا ہے۔ اس کے لئے زیڈ ایف آئی قابل مبارکباد ہے۔

قوم کے ایک فرد کی محنت انقلاب برپا کرستکی ہے۔ اگر ہم سب مل کر محنت کریں، جد و جہد کریں، تعلیم کے میدان میں قربانیاں دیں، تو ملت کی کشتی بھنور سے نکل جائے گی۔ ملک ترقی کریگا، اٹھئیے، آگے بڑھئے، حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ میں سے بہت سے عالم، انجنئیر، ڈاکٹر پوشیدہ ہیں، بس خود کو پہچاننے اور میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے، وقت تقاضہ کررہے ہیں، حالات پکار رہے ہیں۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاذ ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔