شام میں انسانی حقوق کی پامالی

رضی الہندی

ملک شام جسے آج سیریاکے نام سے بھی دنیا جانتی ہے۔ یہاں ظلم و ستم جاری ہے اور انسانی حقوق کےنام نہادعلمبرداروں کے کچے و کھوکھلے نعروں ووعدوں اور دعووں کا پول کھل کر سامنے آگیا ہے۔ افق عالم پر نمودار ہونے والی حقوق انسانی تنظیم آج اپنے معیار و ہدف کا پتہ دیتی ہے کہ اسکے لب شام کے مظلومین کی حمایت میں نہیں کھل رہے صرف یہ ایک مفاد پرست لوگوں کا گڑھ ہی معلوم پڑتی ہے اور بوقت ضرورت کسی سے بھی سازباز کرکے اسکی حمایت میں اقدامات کئے جانے کی صدا بلند کرتی نظر آتی ہے۔

 ملک شام جہاں رافضی شیعان اپنی درندگی کے روز نئے تجربات کر رہے ہیں۔ 4اپریل 2017کو علاقہ خان شیخون صوبہ ادلب ملک شام میں زہریلی گیس سے بھرے بموں کا استعمال کیا گیا تھا اور اس زبردست بمباری میں ہزاروں افراد کی زندگی متاثر ہوئی اور سیکڑوں افراد بشمول بچوں کے بے موت مار دیئے گئے اور پانچ سو یا زائدزخمی ہوگئے تھے۔

انسانی زندگی کے واقعات حرب و ضرب سے بھرے پڑے ہیں لیکن یہ پہلا واقعہ تھا کہ دم گھٹنے سے لوگوں کی موت ہورہی تھی آپنے اپنے آزو بازو  میں مشاہدے کئے ہونگے کہ کسی کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں اور وہ تڑپتا ہے تو کیا بولتا کاش کہ موت آجاتی یہ تکلیف تو نہ آتی اور اس وقت اس کے چہرے کے بے بسی کے آثار، بے چینی، گھبراہٹ وگھٹن دیکھ کر خود ناظرین بھی متاثر فرد کی موت کی ہی دعا دیتے ہیں کہ اس سے اچھا تھا مر جاتا۔حالانکہ نہ منظور اور نہ ہی مشاہدین کو سختی موت کا تجربہ حاصل ہے۔

اب ایسا ماحول ہی کوئی پیدا کردے تو کیا اسکے خلاف خاموش تماشائی بنے رہنا اور ایک دفعہ احتجاج درج کرا دینے سے آرگنائزیشن والے بری مانے جانے چاہئیں کیا آپ کی رائےبھی مذکورہ سطورات میں جوانسانی حقوق کمیشن کے بارے ميں لکھی گئی ہے اس کے تحت ویسی ہی قائم نہ ہوگی۔ ۔؟کیا تڑپ تڑپ کر، گھٹ گھٹ کر مر رہے معصومین کیلئے انہوں نے کام کیا ہوتا اور اپنے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت پیش کیا ہوتاتو امسال 2018میں شام کے مشرق میں واقع غوطہ میں  دوبارہ کیمیکل بم کے استعمال ہوتے۔ ۔۔۔؟

ابتک کہ رپورٹس کے مطابق لکھا جائے تو شام کے مشرقی علاقے غوطہ میں حکومتی فورسز کے کیمیکل بم حملے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں اور ان کے لئے جو رپورٹ دیگر ممالک کی میڈیا نے پیش کی

ایسی ہے شامی فوج نے مشرقی علاقے غوطہ میں کیمیکل بم گرادیے جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، امدادی اہلکاروں کے مطابق حملے کے متاثرین میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ شام میں امدادی کاموں میں مصروف تنظیموں کے مطابق زخمیوں کو فورا اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جب کہ متعدد افراد کا جسم مفلوج ہوچکا ہے۔شامی باغیوں نے دعوی کیا ہے کہ حکومتی فورسز نے مشرقی غوطہ کے علاقے میں کیمیکل بم پھینکے جس کے باعث شہریوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

دوسری جانب شامی حکومت نے کیمیکل بم کے حملے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی ناکامی دیکھ کر بے بنیاد افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کی صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے اور حملے میں روسی معاونت بھی خارج از امکان نہیں۔وائٹ ہیلمٹس نامی امدادی تنظیم نے تہ خانوں میں بیسیوں لاشوں کی تصویریں ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔اس سے قبل وائٹ ہیلمٹس نے مرنے والوں کی تعداد 150 بتائی تھی لیکن بعد میں وہ ٹویٹ ڈلیٹ کر دی گئی۔دوسری جانب شامی حکومت نے کیمیائی حملے کی خبروں کو من گھڑت قرار دیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ان ‘انتہائی پریشان کن’ اطلاعات کا جائزہ لے رہا ہے اور یہ کہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر روس کو اس مہلک کیمیائی حملے کا ذمہ دار سمجھنا چاہیے جو شامی حکومت کی حمایت میں لڑ رہا ہے۔محکمہ خارجہ نے کہا کہ ‘حکومت کی اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ میں کوئی شبہ نہیں ہے۔بے شمار شامیوں کو کیمیائی ہتھیار سے بہیمانہ طور پر نشانہ بنانے کی ذمہ داری بالآخر روس پر عائد ہوتی ہے۔’

حکومت شام پر بے لاگ نقد و تبصرہ کرنے والی غوطہ میڈیا سینٹر نے کہا ہے کہ مبینہ گیس حملے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ متاثر اور زخمی ہوئے ہیں۔اس نے الزام لگایا ہے کہ ایک سرکاری ہیلی کاپٹر نے بیرل بم گرایا جس میں سارین نامی اعصاب کو مفلوج کرنے والے عوامل موجود تھے۔دوما کو مشرقی غوطہ میں باغیوں کے قبضے والا آخری شہر کہا جاتا ہے اور اسے حکومتی افواج نے کئی ماہ سے محصور کر رکھا ہے۔واضح رہے کہ شامی حکومت نے گزشتہ سال بھی باغیوں کے علاقے پر کیمیکل بم گرائے تھے جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ یہاں یہ بات ذھن نشین رہے کہ گذشتہ سال بھی بشار الاسد نے یہی الاپ الاپا تھا کہ شامی حکومت کو محض بدنام کیا جا رہا ہے اور پھر رپورٹ و تحقیقات سے واضح ہو چکا تھا کہ ذمہ دار یہ علمانی رافضی شیعہ اور سنی مخالف دہریہ بشار الاسد اور اس کے احباب کی کارستانی تھی لیکن انسانی حقوق کمیشن مون ہو گئی تھی۔

   دنیا دیکھ نہیں تک رہی ہے اور سب کچھ سمجھنے کے باوجود چپ چاپ ہے بہر حال ایک نیوز ایجنسی صباح کے مطابق  شامی حکومت نے دوما میں زہریلی گیس کے حملہ کی تردید کرتے ہوئے اس حملہ کو شام کی حکومت کو بدنام کرنے کے مذموم مقاصد کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کیمیائی حملے کی خبر یں من گھڑت ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شامی فوج نے مشرقی علاقے غوطہ میں کیمیکل بم گرادیئے جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، امدادی اہلکاروں کے مطابق حملے کے متاثرین میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ شام میں امدادی کاموں میں مصروف تنظیموں کے مطابق زخمیوں کو فوراًہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔جہاں ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جب کہ متعدد افراد کا جسم مفلوج ہو چکا ہے شامی باغیوں نے دعوی کیا ہے کہ حکومتی فورسز نے مشرقی غوطہ کے علاقے میں کیمیکل بم پھینکے جس کے باعث شہریوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ ادھر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کی صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے اور حملے میں روسی معاونت بھی خارج از امکان نہیں۔غوطہ میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوزکرگئیں۔دریں اثناء اے پی پی کے مطابق شہر حلب میں جامع مسجد کے قریب بم دھماکہ میں 4 بچوں سمیت 8 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ان ‘انتہائی پریشان کن’ اطلاعات کا جائزہ لے رہا ہے اور یہ کہ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر روس کو اس مہلک کیمیائی حملے کا ذمہ دار سمجھنا چاہیے جو شامی حکومت کی حمایت میں لڑ رہا ہے۔محکمہ خارجہ نے کہا کہ ‘حکومت کی اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ میں کوئی شبہ نہیں۔ بے شمار شامیوں کو کیمیائی ہتھیار سے بہیمانہ طور پر نشانہ بنانے کی ذمہ داری بالآخر روس پر عائد ہوتی ہے۔،

اتنی حقیقت کھل کر اب تو دنیا کے سامنے آگئی کہ شام کی رافضی وعلمانی حکومت نے کیمیائی مادوں سے تیار بموں کا استعمال کیا ہے گرچہ بشار الاسد اپنا منھ چھپانے والا بیان دے اورامریکہ اپنے آپ کو یہاں بھی معصوم ثابت کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ بیبیسی کی رپورٹ کے مطابق درپردہ اسمیں شامل ہے لیکن کھل کر نہیں اسی لئے اس کی ماتحتی میں کام کر رہاانسانی حقوق کمیشن بھی گفتگو کے فل اسٹاپ پر ہے۔

دن بدن جانیں جا رہی ہیں اور اسد علمانی رافضی شیعہ ابتک حکومت سے دستبردار نہیں ہوا ہے بلکہ بغداد کے ماضی کے اپنے غدار بھائیوں کی تاریخ دہراتےہوئے روس، ترکی اور ایران کو دعوت مداخلت دیدی ہے اور بازار ظلم و ستم جاری ہے۔

 2011سے شروع ہوئی اس جنگ میں اب تک تین لاکھ سے زائد سنی افراد قتل ماردئے گئے ہیں، جبکہ پانچ لاکھ سے زیادہ زخمی یا گمشدہ ہیں۔ صرف دو کروڑ آبادی والے اس ملک کے 70 لاکھ افراد بے گھر ہیں، یعنی ملک کی آبادی کا 35حصہ پناہ گزینی و خیموں کی زندگی گذارنے کو مجبور ہیں۔۔۔۔

 2011 میں تیونس، مصر، لیبیا، یمن، شام فتنوں کی سرزمین عراق میں  حکومتِ وقت کے خلاف انقلاب آئے، لیکن تیونس کے صدر زین العابدین نے 24 سالہ اقتدار کو چھوڑ کر ملک کو تباہ ہونے سے بچالیا۔ یمن کے صدر نے بھی فوراً عوام الناس کے مطالبات کو تسلیم کیا، مصر کے صدر حسنی مبارک بھی عوامی مظاہروں کے بعد فوج کی دخل اندازی پر 30سالہ اقتدار مستعفی ہو گیا اور ملک کو تباہ ہونے سے بچالیا۔لیبیاکا صدر معمر القذافی  42 سالہ دور تاریخ بن گیا ملک ٹوٹنے سے بچ گیا۔ تیونس، لیبیا، مصر، یمن اورعراق کی مصالحانہ پالیسی کو کم از کم شام کا صدر نافذ کرسکتا تھا

لیکن شام کے مسلم اسلام کیا انسانی حقوق کی پامالیوں کی چکی میں پس رہے ہیں اور دنیا اپنے نئے نئے تجربات ان پر کر رہی ہے۔ دن رات گذر رہے ہم آرامگاہوں میں خواب خرگوش میں ہیں اور اپنے شامی بھائیوں کے اوپر ٹوٹنے والے روز مرہ کے پہاڑ کو سن سن کر بھولتے جارہے ہیں، ہماری وہ دینی حمیت و غیرت اب بے حسی کے چادر میں  لپٹ کر رہ گئی ہے جسکی وجہ سے ہم مہینوں کی مسافت طے کر کے امداد کو پہنچا کرتے تھے آج جدید دور میں سرحدوں کی حد بندیوں کا رونہ ضرور ہے لیکن بایں صورت مومن دعا کے ہتھیار اپنی پنجوقتہ نمازوں میں مظلومین شام کو تو دے سکتا ہے۔ کوشش کیجئے کہ یہ ممکن ہے ورنہ ہم تاریخ کے اس دور کے تذکرے میں بے حیثیت یاد کئے جائیں گے۔

اللہ شامی مسلمانوں کی حفاظت کرے۔ ۔۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔