ہر بگاڑ کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہوتا ہے!

حفیظ نعمانی

ہر مذہب میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اور دوسروں کی عاقبت سنوارنے کے لئے دنیا سے تعلق ختم کرکے یا تو گوشہ نشیں ہوجاتے ہیں یا گمراہ انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے انہیں بتاتے ہیں کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ ہندوستان میں جب مسلمان آئے اور ان کے ساتھ یا بعد میں وہ بزرگ اور اولیاء آئے جو دنیا ترک کرکے انسانوں کو راہِ راست دکھانے کا کام کررہے تھے تو انہوں نے یہ دیکھا کہ ہندوستان میں جو مذہبی دنیا کی رنگینیوں سے منھ موڑکر اور راجہ مہاراجہ کی حکومت کی سرحد سے باہر اپنا ڈیرہ بنائے بیٹھے ہیں اور جو اُن کے پاس اپنی مراد لے کر آتا ہے اسے اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں اور ان کی مراد پوری کرنے کا بھروسہ دلاتے ہیں اور پرہیز پر زور دیتے ہیں ۔

ان مسلمان بزرگوں نے بھی اسی انداز سے خانقاہیں بنائیں اور اللہ کے بندوں کو ہدایت کا راستہ دکھانے کا کام شروع کیا آج اجمیر ہو، کلیر ہو، دہلی ہو، سرہند ہو، آگرہ ہو، دیویٰ ہو یا دوسرے مزارات یہ سب ان بزرگو ں کے ہی ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی ایک گوشہ میں  گذار دی۔ وہ نہ کسی راجہ یا نواب کے دربار میں گئے اور نہ کسی کے آنے پر اُن کے لئے اپنی گدی چھوڑی۔ اور یہ اسی کا فیض ہے کہ آج ہندوستان میں کہا جاتا ہے کہ 20  کروڑ مسلمان ہیں ۔ ان میں بہت کم وہ ہیں جو دوسرے ملکوں سے آئے اکثریت ان کی ہے جن کے باپ دادا ہندوستانی تھے انہوں نے اسلام کو سمجھا اور سوچ سمجھ کر قبول کرلیا۔

ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ بگاڑ کب پیدا ہوا اور سب سے پہلے وہ کون تھا جس نے دنیا چھوڑنے کا ناٹک کیا اور اسے چھوڑنے کے بجائے دانتوں سے پکڑلیا۔ مسلمانوں میں بھی ایسے دو نمبر کے پیر فقیر ہیں جو نام دنیا کو ترک کرنا بتاتے ہیں اور کام دونوں ہاتھوں سے دنیا لوٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ لیکن ان کے ماننے والے جاہل اور بے شعور ہیں ۔ مسلمانوں میں جو پڑھے لکھے ہیں وہ اس بات کو غور سے دیکھتے ہیں کہ میاں بتاتے کیا ہیں اور خود کرتے کیا ہیں ۔ اور فرق دیکھتے ہیں تو رشتہ توڑنے میں دیر نہیں کرتے۔

یہ صرف ہندو بابا ہیں جن کے بارے میں جب تک کوئی اہم واقعہ نہیں ہوتا اس وقت تک اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی آنکھیں بند کئے رہتے ہیں ۔ ڈیرہ سچا سودا کے بابا رام رہیم کو 2007 ء میں سونیا سرکار نے زیڈ پلس سیکورٹی دی تھی۔ ایک بابا کو جو دھرم کرم کا کام کررہا ہے اسے کسی طرح کی بھی سیکورٹی کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ وہ تو سب کا بھلا چاہتا ہے اس کا کون دشمن ہوگا۔ سونیا گاندھی نے یہ سیکورٹی ان کے مانگنے پر دی یا خود دی یہ الگ موضوع ہے۔ لیکن اس کے بعد 2009 ء میں ڈیرہ سچا سودا نے کانگریس کی کھل کر حمایت کی اور احسان کا بدلہ دے دیا۔

کانگریس کا دَور ہو، اوم پرکاش چوٹالہ کا ہو یا بی جے ی کا ہر پارٹی نے آنکھ بند کرکے ان کی مدد کی اور کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ دھرم کرم کا کام کرنے والے بابا کو بندوق، رائفل، پستول اور ریوالور وہ بھی سیکڑوں کے لائسنس کی کیا ضرورت پڑگئی؟ ایک طرف اپنے اسلحہ اور زیڈ پلس سیکورٹی اور کام دھرم کرم۔ کسی نے نہیں سوچا کہ انسانوں کی بری عادتیں اور حرکتیں چھڑاکر انہیں اچھا انسان بنانے والے بابا کو بندوقوں کی کیا ضرورت پڑگئی؟

کئی برس پہلے بابا رام رہیم نے ناچنا گانا اور فلمیں بنانا شروع کردیں اور ان کے بیان بھی آنے لگے کہ ان کی فلم نے پانچ سو کروڑ کا بزنس کیا ہے۔ فلم کیسی ہی ہو کوئی مذہبی آدمی اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ اگر اس میں عریانیت یا فحش سین نہ بھی ہوں بلکہ اصلاحی فلم ہو تب بھی اس کا ٹکٹ خریدنا فضول خرچی ہے۔ لیکن بابا کے کروڑوں ماننے والوں میں لاکھوں تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اور کچھ ہو یا نہ ہو دھرم تو نہیں ہوسکتا؟

یہ بات ہمارے علم میں بھی نہیں تھی کہ بابا رام رہیم صرف بابا نہیں ہے بلکہ وہ پرماتما اور نعوذ باللہ اپنے کو خدا کہلاتا ہے 25  اگست کو جب گرمیت رام کو سی بی آئی عدالت نے مجرم قرار دے دیا اور ڈیرے میں موجود ایک لاکھ سے زیادہ اس کے ماننے والوں نے چاروں طرف دہشت گردی شروع کردی اس وقت صورت سے ایک شریف تعلیم یافتہ آدمی ڈیرے سے نکل کر باہر آیا اس سے ٹی وی رپورٹر نے معلوم کیا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا کہ کہاں جائیں ہم تو ڈیرہ کے باسی ہیں ۔ رپورٹر نے کہا کہ گھر کیوں نہ جاتے تب اس نے کہا کہ ہم گھر پر حلف نامہ دے کر آئے ہیں کہ ہمارا مرنا جینا سب ڈیرہ میں ہوگا۔ پھر جب رپورٹر نے معلوم کیا کہ تم بابا کو کیا سمجھتے ہو تو اس نے بے ساختہ کہا کہ وہ پرماتما ہیں خدا ہیں ۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ سے جب ایک رپورٹر نے کہا کہ آپ نے 25  اگست کے ہنگامہ کو سختی سے کیوں نہیں روکا تو انہوں نے کہا آستھا کو کون روک سکتا ہے؟ ان کی اس بات سے ایسا لگا جیسے وہ بھی اب بابا کو انسان سے اوپر کوئی درجہ دے چکے ہیں اور 15  اگست کو ان کی سالگرہ پر ریاست کی طرف سے ایک کروڑ روپئے سے زیادہ انہیں دینا اس لئے ہے کہ وہ پرماتما ہیں ۔ مسلمانوں میں کہیں کہیں کسی نے نبی ہونے کا تو دعویٰ کیا لیکن یہ کہنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ نعوذ باللہ خدا ہوں ۔ بابا رام رہیم نے دعویٰ کیا اور ہندو دھرم میں توحید نہیں ہے اس لئے عقل کے اندھوں نے اسے پرماتما مان لیا۔ اور 28  اگست کے بعد بھی نہیں سوچا کہ یہ کیسا پرماتما ہے کہ اسے ایک سرکاری ملازم سزا دے رہا ہے اور وہ اسے بھسم کرنے کے بجائے رو رہا ہے، گڑگڑا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں  تو نامرد ہوں ۔ اس کے باوجود ڈیرہ میں ہزاروں اس کے ماننے والے موجود رہے اور آج بھی ہیں اور اس کے باوجود ہیں کہ اب وہ سب سامنے آگیا اور آرہا ہے جو بابا نے چھپایا تھا۔ آج وہ ڈیرہ نہیں جنت شداد ہے جہاں ہر وہ چیز ہے جس کی کوئی تمنا کرسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔