حج کے بعد

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اللہ عزوجل نے محض اپنے فضل وکرم سے بہت سارے حضرات حج کی توفیق عطا فرمائے، کئی سالوں کے ارمانوں وآرزؤں کے بعد حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ، بیت اللہ کی زیارت کی، مقامات مقدسہ کا اپنی آنکھوں سے دیدار کیا، سب سے بڑی خوش بختی تو یہ رہی کہ اللہ عزوجل نے حج کی استطاعت فرمائی جس کا اللہ عزوجل یوں ذکرکیا ہے ’’من استطاع إلیہ سبیلا‘‘ راہ حج کے اخراجات کو مہیا کیا، ورنہ کونسامسلمان اورمومن بندہ ایسا ہوسکتا ہے جو بیت اللہ کے دیدار کے شرف سے مشرف ہونا نہیں چاہتا، ہر ایک کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ جائے ، لیکن جن اشخاص کو اللہ عز وجل نے حج کی سعادت سے موسوم فرمایا یہ بڑے بابرکت لوگ ہیں ، لیکن ان کے حج کی سعادت سے موصوف ہونے کے بعد ان پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، جن لوگوں نے حج کیا، انہیں یہ نعمت عظمی حاصل ہوئی، جس وقت ان لوگوں نے بیت الحرام کو وداع کیا ہوگا، ان کے دل کے جذبات اور احساسات کیا ہوئے ہوں گے، بیت اللہ کی وداع کرنے میں بہت گرانی ہوئی ہوگی.

ذرا غور کیجئے ! آپ موسم حج میں مناسک اور عبادات کی ادائیگی میں منہمک  اور مصروف تھے، یہ نہایت خوش بختی کے لمحات اور ساعتیں تھیں ، لیکن یہ عبادات اور طاعات کا سلسلہ کیا یہیں ختم ہوگیا ؟ اس کے بعد کیا عبادات وطاعات رجوع الی اللہ کی اب ضرورت نہیں ؟ حج مقبول اور مبرور کیا ہے ؟ کیا ابھی ہم غور کیا ؟ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حج مقبول اور مبرور یہ ہیکہ آدمی دنیا سے کنارکش ہوجائے اور آخرت کی رغبت کرنے لگے ’’زاھدا فی الدنیا وراغبا إلی الآخرۃ‘‘ بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حج مقبول کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کی دینی حالت پہلے سے زیادہ بہتر اور اچھی ہوجاتی ہے تو وہ حج مقبول حج ہے ، عبادات اور اطاعات میں مداومت در اصل یہ حج کے بعد مقصود ومطلوب ہے ۔

نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا : اللہ کو پسندیدہ عمل کونسا ہے؟ فرمایا جس کو مداومت اور ہمیشگی کے ساتھ کیا جائے خواہ یہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو،’’أدومہ وإن قلّ‘‘ ( رواہ مسلم)ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی مدوامت اور ہمیشگی کے ساتھ عمل کیا کرتی تھیں ، گرچہ ہمیشگی کا عمل دل پر گراں اور مشقت کن ضرور ہوا کرتا ہے ، سستی اور اور کاہلی کو ہر گز در آنے نہ دیں ، شیطان اسی تاک میں رہتا ہے ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شیطان جب کسی کو عمل میں مداومت کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو اکتاہٹ اور سستی میں مبتلا کردیتا ہے ، آہستہ آہستہ اعمال کے حوالہ سے سستی اور کاہلی میں مبتلاکردیتا ہے ۔

اعمال میں صبر واستقامت کو اختیار کریں ، اعمال کو بھی صبر وسکون کے ساتھ انجام دیں اور طاعات اور بندگی میں پوری دل جمعی کے ساتھ لگیں ، معاصی اور گناہوں سے بچنے کا مکمل اہتمام کریں ، معاصی سے اجتناب اور اعمال صالحہ پر مدامت یہ صبر کا اعلی درجہ ہے ، میمون بن مہران کہتے ہیں : صبر دو طرح کا ہوا کرتا ہے ، معصیت اور گناہ پر صبر یہ بہتر ہے ، اس سے زیادہ بہتر اور معصیت سے اجتناب ہے ۔حریث بن قیس کہتے ہیں : جب انسان کسی بھلے کام کا ارادہ کرے تو اس کو کل کے لئے مؤخر نہ کرے

جس طرح دوران حج ہم نے طاعات وعبادات میں مداومت اور ہمیشگی کی ہے ، اعمال حج اور عبادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ، مجاہدہ نفس کیاہے ، بعد میں بھی یہ ہمارا مجاہدہ اور ہماری یہ کوشش کم نہیں ہونی چاہئے۔

اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :

’’ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلینا‘‘ (العنکبوت)

جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرتا ہے تو ہم اسے اپنے راستے دکھاتے ہیں ۔

اللہ عزوجل سے دعا بھی کرے کہ اللہ عزوجل اس کو مداومت اور اعمال پر ہمیشگی کی توفیق عنایت کرے ، خود نبی کریم ﷺ کا معمول بھی تھا کہ اعمال پر ہمیشگی کی توفیق مانگتے ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺ کی ہمیشگی والی دعا کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا: ’’ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک‘‘ (اے اللہ ! میرے دل کو دین پر ثابت قدمی عطا کر ) آپ سے اس تعلق سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: آدمی کا دل اللہ عزو جل کے دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جس کے دل کو چاہیں استقامت عطا کریں اور جس کے دل کو چاہیں گمراہ کردیں (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، 2091)

اسلئے کبھی اس غلط فہمی میں نہ آئیں کہ ہماری طاعتیں اور عبادتیں بہت زیادہ ہیں ؛ بلکہ ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کا استحضار رہے ، اسلاف امت اور گذشتہ لوگوں کا اصول اور طریقہ کار یہی تھا کہ وہ لوگ اپنے اعمال کو قلیل اور کم گردانتے تھے، اپنے اعمال کو بہت زیادہ نہیں سمجھتے تھے ۔ اس لئے وہ ہمیشہ اعمال پر مداومت اور ہمیشگی اختیار کرتے تھے ۔

 خود نبی کریم ﷺ جن کو بخشے بخشائے کہا گیا آپ اس قدر عبادت کرتـے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آجاتا تھا، جب نبی کریم ﷺ سے اس متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’أفلا أکون عبدا شکورا‘‘ کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔ (بخاری) اور فرمایا: اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ اللہ عزوجل سے استغفار طلب کرتا ہو ں ( بخاری)۔

جب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس جو کہ بخشے بخشائے ہوئے ہیں وہ اس قدر عبادات کرتے ہیں تو ہمیں کتنی عبادت کرنا چاہئے ۔

 اس لئے حاجیوں کو چاہئے کہ وہ اس قدر محنت ومجاہدہ او رتکلیف اٹھانے کے بعد اور اللہ عزوجل کی جانب سے بخشے بخشائے ہونے کے بعد بھی وہ معاصی اور گناہوں میں نہ پڑجائیں ، عبادات وطاعات میں لگیں ۔

فضیل بن عیاض کہتے ہیں بعض حاجیوں سے یوں کہا: جو حج کرتا ہے اللہ عزوجل اس پر نور کا ایک مہر لگاتے ہیں ، اللہ عزوجل کی معصیت کے ذریعے اس مہر کو نہ توڑا جائے ’’لا تفک ذلک الختم بمعصیۃ اللہ‘‘۔

اس لئے حاجیوں کے چاہئے کہ اپنے حج کو جس کو انہوں نے بڑی مشتقوں سے اور بڑی ارمانوں سے کیا ہے ، حج مقبول ومبرور بنائیں ، طاعات میں رغبت ، معاصی سے پہلو تہی کریں ، حاجی ہونے کی نسبت ان کے ساتھ جڑی ہے ، یہ بخشے بخشائے ہوئے ، انہیں خدا کا نور ملا ہے ، اس نورِ خدا کی حفاظت وصیانت کریں ۔

تبصرے بند ہیں۔