ہم، زحمت کے سوداگر!

 ڈاکٹرعابد الرحمن

 باہم اختلاف کسی بھی قوم کے لئے موت ہے۔اور ان اقوام کے لئے تو خود کشی ہے جن کے پاس علم آچکا۔ قانون ہے کہ کہ ’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔‘ ہمارے بزرگوں نے امت کے اختلاف کو رحمت کہا ہے بشر طیکہ یہ اختلاف فروعی اور فقہی مسائل میں ہی ہو عقائد میں نہ ہو یہ بھی کہا گیا کہ یہ اختلافات درصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری آسانی کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں کہ اس سے دین پر چلنے میں وسعت ملتی ہے یہ اختلافات بالکل نیک نیتی اور خلوص پر مبنی ہیں اور کتاب اللہ اور فرمان رسول اکرم ﷺ کے مطابق ہیں ،ہر ایک اس پر عمل پیرا ہے جو اس کے نزدیک صحیح ہے اور ہر ایک راہ راست پر ہے اور اللہ کی رضا کا طلبگار ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اصحاب نے فروع میں اختلاف کیا ہے اور وہ آفاق میں منتشر ہو گئے ہیں اور ہر ایک ان روایات پر جو ان اصحاب رسول ﷺ کے ذریعہ اس تک پہنچی ہے عمل کر نے میں درست ہے۔

 یہ اختلافات کبھی شریعت یا کتاب اللہ اور فرمان رسول اللہ ﷺسے نہیں ٹکرائے اس لئے ان اختلافات کی وجہ سے شریعت میں یہ وسعت ملی کہ یہ بھی صحیح اور وہ بھی صحیح ۔ اسی لئے ان اختلافات کو رحمت کہا گیا لیکن ان اختلافات کو بنیاد بنا کر مسلک مسلک ،فرقہ فرقہ، جماعت جماعت کرنا ،اپنی رائے کو ہی صحیح اور بر حق اور بقیہ سبھی کو غلط اور نا حق قرار دینا ،دوسری رائے کے ردّ کوہی اپنا دین بنا لینا ،دیگر مذاہب اور عقائد کے مقابل اسلام دین اللہ کی ترویج و اشاعت کے لئے دوڑ دھوپ کر نے کی بجائے اسی دین کے دوسرے مسالک اور گروہوں کے مقابل اپنے مسلک یا جماعت یا رائے کی تبلیغ کرنا ،الغرض ان اختلافات کو بنیاد بنا کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر باہم دست و گریباں ہو جانا ،’ اختلاف رحمت ہے‘ کے بالکل الٹ ہے اور بد قسمتی سے ہم ،زحمت کے سوداگرلوگ، اوپر سے نیچے تک عالمی طور پر اس رحمت کو زحمت میں بدل کر خود ہی عذاب میں مبتلاء ہو گئے ہیں ۔

اختلافات اصحاب رسول ﷺ کے درمیان بھی ہوئے یہ فقط فروعی اور فقہی ہی تھے نظر یاتی نہیں تھے اور ان اختلافات کے باعث  انہوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کو غلط نہیں قرار دیا اور’ میرے مرغے کی ایک ٹانگ ‘ کی مانند اپنے آپ کو ہی صحیح قرار دیتے ہوئے فساد پر نہیں اترے ،بلکہ ان اختلافات کے ساتھ بھی ایک دوسرے کے ساتھی اور جاں نثار ہی رہے ،لیکن اب ہم نے تو اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کر نے میں بھی تعرض نہیں کیا ،یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف دین کے دشمنوں کے آلہء کار بننا بھی قبول کر لیا ۔اب ہماری یہ فرقہ واریت ہر ہر سطح اور ہر محاذ پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے ۔ پوری ملت اسلا میہ کے حالات اسی فرقہ واریت کی باہمی چپقلش کے باعث روز بروز بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔اللہ اس کے رسول ﷺ اور اس کے دین کے دشمنوں نے پورے مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے بجادی اور یہاں کی مملکتیں ایک دوسرے کے خلاف چالوں میں ،اوراصل مجرم کو چھوڑ ایکدوسرے پر الزامات لگانے میں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں اور اقدامات کر نے میں ہی مشغول ہیں ، گویا یہ سب ایکدوسرے کے خلاف پوری امت مسلمہ اور اس کے وسائل کی بربادی کے لئے دشمنوں کے آلائے کار بن بیٹھے ہیں ۔اور ان حکمرانوں کی سیاست سے پوری امت مسلمہ عالمیاں متاثر ہوتی اور انہی کے مطابق فرقہ واریت میں غرق ہوتی نظر آرہی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی باہمی چپقلش کے باعث شام میں جو بد ترین انسانی بحران پیدا کیا ہے اس نے نہ صرف حلب شام اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرات مرتب کئے بلکہ سارے عالم میں ہر جگہ بسنے والی امت مسلمہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

وہ حکمراں تو اپنی چالیں چل کر آرام سے بے فکر بیٹھے ہیں اور ان سے دور دراز بسنے والے امت کے مفکرین اوردانشور اپنی اپنی سوچ و فکر اور جماعتی مسلکی اورگروہی الحاق کے حساب سے فرقہ واریت میں مشغول ہوگئے ۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمن دراصل یہی چاہتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کے طور پر سعودی عرب کا دورہ کیاا نہوں نے وہاں دہشت گردی، علاقائی تحفظ اور مسلم ریاستوں کے قلب میں ناجائز طور پر واقع ہوئی اور اس علاقے کے جائز مسلم باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ نے والی غاصب ریاست اسرائیل کے نام پر اس فرقہ وارایت میں تیل ڈال کر اسے مزید بھڑ کانے کا سامان کیا۔انہوں نے مسلم حکمرانوں لیڈران اور نمائندوں کی با اثر اور با اختیار مجلس کو خطاب کرتے ہوئے متحد طور پردہشت گردی سے لڑ نے کا درس دیا اور اس میں اسلامی شدت پسندی (islamist extremism ) اور اسلامی دہشت گرد گروہ (islamist terror groups) کہنے سے بھی گریز نہیں کیا اور ان میں دوسرے گروہوں کے علاوہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جد و جہد کر نے والی تنظیم حماس کو شامل کر نے سے بھی نہیں چوکے۔ یہی نہیں انہوں نے خطہ میں جاری سعودی ایران چپقلش کو مزید تیز کر نے کے لئے اوراپنے آپ کو سعودی سائڈ کا حامی ظاہر کر نے کے لئے براہ راست ایران کا نام لے کر کہا کہ وہ خطہ میں عدم استحکام اور فرقہ وارانہ تنازعہ کی آگ لگا رہا ہے اور دہشت گردی کا حامی ہے ۔

 انہوں نے ایران کو دہشت گرد حکومت قرار دینے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی کہ یہ ایسی حکومت ہے جو کھلے عام اسرائیل کی تباہی اور امریکہ کی موت چاہتی ہے۔ انہوں نے موجود تمام مملکتوں کے سر براہان سے کہا کہ جب تک ایرانی حکومت امن کی حصہ دار نہیں بنتی سب نے ایک ساتھ مل کر اسے الگ تھلگ کر دینا چاہئے ۔انہوں نے بڑی چالاکی سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا اور اسے ایران کے سر ڈال کر سنی عرب مملکتوں کو خوش کر نے ،اپنی حمایت کا لالی پاپ دینے اور ایران کے خلاف اکساکر خطہء عرب میں جاری شیعہ سنی فرقہ وارانہ مخاصمت کو مزید ہوا دینے کی بھی کامیاب کوشش کی۔اور صاحب ٹرمپ کے دورے کے فوراً بعد ہی سعودی اور اس کے حلیفوں نے وہ کام شروع کردیا جس کا مشورہ یا حکم انہوں نے دیا تھا ۔ان مملکتوں نے قطر سے تمام تر تعلقات منقطع کر لئے یہ کہہ کر کہ قطر دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے ۔ اور قطر کن دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے؟

حماس اور اخوان المسلمون ! دراصل مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی ایک بہانہ ہے ،یہاں کی مملکتیں ہر اس تحریک کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں جو ان کی حکومت کی مخا لفت کرتی ہیں یا جن سے انہیں کسی خطرے کا خدشہ ہوتا ہے۔اخوان کو مصر اور دیگر عرب ریاستوں میں اسی کی سزادی جارہی ہے ۔لیکن حماس کو کیوں ؟ اس لسٹ میں حماس کو شامل کر کے عربوں نے اسرائیل کی مدد کی ہے ۔دراصل عرب ریاستوں کی امداد ہی ہے جس کی وجہ سے حرمین شریفین کے بالکل قریب ،مالی اعتبار سے انتہائی مضبوط مسلم مملکتوں کے درمیان اور سر زمین قبلہء اول پر وہاں کے جائز مسلم شہریوں کو بے دخل کر کے ایک یہودی ریاست نہ صرف قائم ہوئی بلکہ روز بروز ناقابل تسخیر بھی ہوتی جا رہی ہے ۔

ٹرمپ صاحب نے اپنے خطاب میں جن لوگوں اور تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیاوہ دراصل وہی ہیں جن سے اسرائیل کو کوئی پریشانی ہے یا ہو سکتی ہے۔اور ویسے بھی مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔امریکہ چاہتا ہے کہ خود مختار مسلم مملکتوں کے درمیان اسرائیل محفوظ ترین ہوجائے اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے اور اس کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے اندرونی وبیرونی افراد تنظیمیں اور حکومتیں دہشت گرد قرار پائیں اور ان کی حمایت کرنے والے دہشت گردی کی مدد کرنے والے یا دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے قرار پائیں تاکہ ان کے خلاف معاشی اور سفارتی پابندیاں اور وقت پڑنے پر عسکری کاروائی کا راستہ ہموار کیا جا سکے اور اسی کے بہانے دوسرے ممالک کو آنکھیں بھی دکھائی جاسکیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف کاروائی پربھی مجبور کیا جاسکے۔

 اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کاکوئی بھی ملک اس طرح مضبوط ومستحکم نہ ہو کہ وہ اسرائیل کے خلاف کھڑاے ہونے کی حالت میں آسکے ۔افغانستان ،پاکستان ،شام،عراق ،لیبا میں جو کچھ ہوا وہ اسی لئے ہوا،مصرمیں جمہوریت کے مقابلہ آمریت کی حمایت بھی اسی لئے کی گئی ، ترکی میں ہوئی ناکام فوجی بغاوت میں بھی بغاوت سے زیادہ بغاوت روکنے والوں پر تنقید اسی لئے کی گئی ۔ابھی فی الوقت قطر کے خلاف عرب ممالک نے جو اقدام کیا ہے وہ بھی دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔اوریکے بعد دیگرے تمام عرب ممالک میں یہی ہونے والا ہے ۔چاہے وہ امریکہ واسرائیل کے حلیف ہوں یا اس کے خلاف ۔

ہم لوگ دراصل زحمت کے سوداگر ہیں ،ہم رحمت الٰہی کو بھی زحمت میں بدل دیتے ہیں ہمارے حکمراں اتنے مفاد پرست ہیں کہ انہیں اپنے مفاد کے آگے امت مسلمہ کو ہونے والے نقصان اور دین کے دشمنوں کو ہونے والے فائدے کی بھی پروا نہیں وہ اپنے مفاد کے لئے اللہ کے دشمنوں کی وسیع تر سازشی چالوں کے آسان مہرے بن جاتے ہیں اور امت مسلمہ اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ وہ ان کی اندھی تقلید میں کوئی منصفانہ غور و فکر کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتی ۔یہ لوگ اپنا اقتدار بچانے کی چالیں چلتے ہیں اور ہم ان کی چالوں کو دین سے جوڑ کر ان کی مخالفت کر نے والوں کو دین سے خارج کر نے کی جد و جہد میں لگ جاتے ہیں ،داعش کے ضمن میں ہم نے یہی کیا ،شام کے حالات اور سقوط حلب کے معاملے میں ہم نے یہی کیا اور اب سعودی ق طر کے معاملے میں بھی ہم اسی میں مبتلا ہو گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہء انفال میں ارشاد فرمایا ہے کہ’ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں وگر نہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘ اور یہ سب جو کچھ ہمارے ساتھ اور ہمارے ذریعہ ہو رہا ہے وہ دراصل اسی اکھڑی ہوا کا کھیل ہے ،اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔