ہمارا لائحہ عمل

ترتیب :عبدالعزیز

حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؟ نے 1951میں ایک اجتماع عام میں ’’ملت اسلامیہ ۔ ماضی، حال اور مستقبل ‘‘ کے عنوان سے ایک تقریر کی تھی جو انتہائی جامع اور مدلل ہے جسے ہر ذی شعور شخص مختصر انداز میں ملت اسلامیہ کے ماضی ، حال کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرسکتا ہے اب یہ تقریر کتابی شکل میں موجود ہے 47 صفحات پر مشتمل ہے آخر میں مولانا ئے محترم نے حالات کا تجزیہ نہایت باریکی سے کرنے کے بعد لائحہ عمل پر بات کی ہے جو پیش خدمت ہے۔

     ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحہ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ۔ اُس کے چار بڑے بڑے اجزا ہیں جنہیں میں الگ الگ بیان کروں گا:

    1۔  اس کا پہلا جز تطہیر افکار و تعمیر افکار ہے ۔ یہ تطہیر و تعمیر اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہونی چاہئے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصل اور حقیقی اسلام کی شاہراہ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظام ِ تہذیب و تمدن پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ۔۔۔۔۔ تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا نقشہ کیا ہوگا؟ اس طریقے سے خیالات بدلیں گے اور اُن کی تبدیلی سے زندگیوں کا رُخ پھر شروع ہوگا اور ذہنوں کی تعمیر نو کیلئے فکری غذا بہم پہنچے گی ۔

     2۔  اس کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش ، تنظیم اور تربیت ہے ۔ اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ اِن آبادیوں میں سے اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کیلئے تیار ہوں ، جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو ، جو حق کوحق مان کر اس کیلئے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں ۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط ۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں اُنہیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی و عمل میں لانا چاہئے ، تاکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے ، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کررہا ہے ، وہ ایک مرکز پر جمع ہو اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اصلاح و تعمیر کے لئے منظم کوشش کرسکے ۔

      پھر ضرورت ہے کہ اس طرح کا ایک گروہ بنانے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے ، بلکہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ اُن کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنی چاہئے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اُس کے پشت پر تعمیر ی صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں ، کاغذی نقشوں کی خامی تو اللہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہروقت رفع کرسکتا ہے ۔ لیکن صلاحیت اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھاہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہارنہیں سکتا۔

   3۔    اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی ۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے ۔ اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوسکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع وسیع ہوں ۔ اس غرض کے لئے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہئے اور ہر ایک کے سپر دوہ کام کرنا چاہئے ، جس کا وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں ، کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف ، کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو ، کوئی ملازمین کی اصلاح کے لئے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لئے کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف ۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگ جائے اور کوئی الحاد و فسق کے سیلاب کو روکنے میں اور کوئی شعر و ادب کے میدان میں کوم کرے اور کوئی علم و تحقیق کے میدان میں ۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہائے کار الگ ہوں ، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو ، جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں ۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ اس ذہنی ، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے، جو پرانے جمود ی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔

      یہ کام صرف وعظ وتلقین اور نشر و اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بناکر پیش قدمی کرنی چاہئے ۔ مثلاً یہ عاملینِ اصلاح کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوجائیں ، وہاں وہ انہیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کردیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کردیں ، جس کے چند اجزایہ ہیں :

     بستی کی مسجدوں کی اصلاح ، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا، تعلیم بالغاں کا انتظام، کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام ، لوگوں کو ظلم وستم سے بچانے کیلئے اجتماعی جدو جہد ، باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش، بستی کے یتیموں ، بیوائوں ، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہوجائیں تو کوئی پرائمری اسکول ، یا ہائی اسکول ، یامذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا ، جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔

      اسی طرح مثلاً جو لوگ مزدوروں میں کام کریں وہ ان کی اشتراکیت کے زہر سے بچانے کیلئے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کریں ۔ انہیں مزدور تنظیمات قائم کرنی چاہئیں جن کا مقصد انصاف کا قیام ہو نہ کہ ذرائع پیدا وار کوقومی ملکیت بنانا ۔ ان کا مسلک جائز اور معقول حقوق کے حصول کی جہدو جہد ہو نہ کہ طبقاتی کشمکش ۔ ان کا طریق کار اخلاقی اور آئینی ہو نہ کہ توڑ پھوڑ اورتخریب ۔ اُن کے پیشِ نظر صرف اپنے حقوق ہی نہ ہوں بلکہ اپنے فرائض بھی ہوں ۔ جو مزدور  یا کارکن بھی ان میں شامل ہوں ، ان پر یہ شرط عائد ہونی چاہئے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے ۔ پھر ان کا دائرہ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہ ہونا چاہئے ، بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں ، اس کی دینی ، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں ۔

     اس عمومی اصلاح کے پورے لائحہ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے ۔ ہمارا طریقہ یہ نہ ہونا چاہئے کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے ، جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں ۔ اس کے برعکس ہمیں کسان کی طرح کام کرنا چاہئے ، ایک متعین رقبے کو لیتا ہے۔۔۔۔ پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجہ تک پہنچا کر دم لیتا ہے ۔ پہلے طریقے سے جنگل پید ا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں ۔

     4۔   اس لائحہ عمل کا چوتھا جز نظام حکومت کی اصلاح ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ، جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لئے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیم رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑا اپنے اثرات پھیلا رہا ہو اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیر یں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں ، کبھی کارگر نہیں ہوسکتیں ۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام زندگی کوفسق و ضلالت کی راہ سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں ۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیرو صلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کرڈالیں گے ، جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہوسکتا۔

     یہ تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے ؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابات کا راستہ ۔ رائے عام کی تربیت کی جائے ، عوام الناس کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے، جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی ۔( یہ ایک خاص ملک کے پس منظر میں بات کہی گئی ہے جہاں مسلمانوں کی ۹۰ فیصد آبادی ہے مگر آگے جو بات کہی جارہی ہے کہ کم و بیش یہی حالات ہمارے یہاں بھی ہے۔)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔